۱۵ مارچ ۲۰۱۵ء

یہ تحریر 1288 مرتبہ دیکھی گئی

۱۴ مارچ کی شام کچھ عجیب سی تھی۔ پُراسرار سی۔ چپ چاپ سی۔ دل کہہ رہا تھا کچھ ہونے والا ہے۔ کیا ہونے والا ہے؟ کچھ خبر نہ تھی۔

میں حسبِ معمول شام سات بجے کے بعد گھر پہنچ گیا۔ قریب ہی دو گلیاں چھوڑ کر چھوٹے بھائی کا گھر ہے۔ ماں کو ملنے بچّوں کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ اس سے پہلے ہی میری بیوی رات کا کھانا تیار کر چکی تھی۔ ہم تقریباً ایک گھنٹا اس کے گھر بیٹھے، چائے پی اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ قریب ۹ بجے واپس گھر آگئے۔

صبح اتوار تھا جس کے لیے کچھ خاص تیاری کرنا پڑتی تھی۔ دس بجے چرچ سروس کا آغاز ہو جاتا تھا اور اس سے پہلے ہمیں چرچ پہنچنا ہوتا تھا۔ چرچ میرے گھر کی پچھلی طرف تقریباً پانچ منٹ کے پیدل سفر کے فاصلے پر ہے۔ میری بیوی کا چھوٹا بھائی شکیل چرچ کا بڑا پادری ہے۔ ہفتے کی رات چرچ میں بھی کچھ خاص تیاریاں کی جاتی ہیں۔ چرچ کی بلڈنگ ابھی باقاعدہ تیار نہیں ہوئی۔ فائبر گلاس کی چھت ہے۔ سامنے، پچھلی طرف اور دائیں طرف کی دیواریں تعمیر ہو چکی ہیں جبکہ بائیں طرف دیوار بالکل نہیں ہے۔ چونکہ مارچ کا مہینہ ہے اور ابھی سردی خاصی ہے تو دیواروں پر ترپالیں لگا کر ہوا کو روکنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ صفائی، کرسیاں لگانا، دریاں، قالین بچھانا، سٹیج تیار کرنا اور ترپالیں وغیرہ لگانے کا کام ہفتے کی رات کو ہی مکمّل کر لیا جاتا ہے۔ چرچ کے کچھ رضاکار لڑکے رات وہیں گزارتے ہیں۔

۱۴ مارچ ہفتے کی رات کو پادری شکیل کا بیٹا سولومن (مانی) بھی آیا ہوا تھا۔ مانی اور میرا بیٹا قیس کزن اور ہم عمر ہونے کے ساتھ اچھے دوست بھی ہیں۔ کھانا کھا کر ہم کچھ دیر ٹی وی دیکھتے رہے۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے میں اور میری بیوی سونے کے لیے لیٹ گئے۔ مانی اور میرے دونوں بیٹے، قیس اور سارنگ، چرچ پر کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے چلے گئے۔

جیسے کہ میں کہہ چکا ہوں ۱۴ مارچ کی شام اور رات کچھ عجیب سی تھی۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نظر آ رہا تھا۔ بچّے خوش تھے۔ ہنس کھیل رہے تھے۔ آپس میں مذاق کر رہے تھے۔ لیکن پھر بھی مجھے پتا نہیں کیوں رات خاموش سی لگ رہی تھی۔ میں زیادہ سے زیادہ ۴۵ منٹ سو سکا اور میری آنکھ کھل گئی۔ واش روم گیا۔ واپس آ کر سونے کی کوشش کی لیکن نیند بالکل نہیں آ رہی تھی۔ وہی کچھ ہونے کا ڈر…… میں نے ٹی وی آن کیا۔ کچھ دیر ریموٹ سے مختلف ٹی وی چینلز تبدیل کرتا رہا۔ کبھی کوئی نیوز چینل، کبھی انٹرٹینمنٹ، کبھی کچھ کبھی کچھ۔ جب ٹی وی میں بھی دل نہ لگا تو میں اٹھ کر کمپیوٹر والے کمرے میں آ گیا۔ کمپیوٹر سٹارٹ کر لیا اور فیس بک وغیرہ میں خود کو مصروف کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دل وہاں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ اس وقت تک کافی وقت گزر چکا تھا۔ کتنا ……یہ مجھے اندازہ نہ تھا۔ بیوی سو رہی تھی اور بچّے چرچ میں تھے۔ گھر میں مکمّل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ گلی میں سے کبھی کبھار کسی موٹر سائیکل کے گزرنے کی یا گلی کے کسی آوارہ کتّے کے بھونکنے کی آواز آتی اور پھر وہی خاموشی۔ خاموشی دونوں طرف تھی۔ اندر بھی اور باہر بھی۔ میں نے اٹھ کر اپنے لیے چائے بنائی اور کپ لے کر واپس کمپیوٹر والے کمرے میں آگیا۔

مجھے یاد آیا میرے کمپیوٹر میں ہندوستانی فلم ”پی کے“ (PK) پڑی ہوئی تھی۔ یہ ہندوستانی فلم دو تین ماہ پہلے ریلیز ہوئی تھی اور ہر کوئی اس کی بہت تعریف کر رہا تھا لیکن میں نے ابھی تک نہ دیکھی تھی۔ میں نے سوچا: نیند آ نہیں رہی تو کیوں نہ فلم ہی دیکھی جائے۔ میں نے فلم سٹارٹ کی اور ہیڈفون کانوں کو لگا کر فلم میں تقریباً کھو گیا۔

فلم واقعی اچھی ہے۔ موضوعاتی ہے۔ انٹرٹینمنٹ بھی ہے اس میں۔ مکالمے زبردست ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عامر خان ایک بہت اچھے اداکار ہیں۔ بہت جاندار اداکاری کی ہے اس فلم میں انھوں نے۔ ”پی کے“ فلم میں عامر خان کو غیرارضی مخلوق کے ایک خلا باز کے روپ میں دکھایا گیا ہے جو تحقیق کی غرض سے اپنے سیّارے سے زمین پر اُترتا ہے۔ زمین پر آنے کے بعد وہ زمین کی منافقت پر اپنے معصومانہ انداز سے سوال پر سوال اُٹھاتا جاتا ہے۔ اپنے سیّارے سے زمین پر آنے کے بعد اُس کے گلے میں موجود لاکٹ ایک راجھستانی اُڑا لے جاتا ہے اور وہ اسے ایک ہندو پنڈت کو بیچ دیتا ہے۔ دراصل یہ لاکٹ عامر خان کے واپس خلا میں جانے کا ریموٹ ہے۔ یہاں عامر خان کی ملاقات سنجے دت (بھیرن سنگھ) سے ہوتی ہے۔ پی کے (عامرخان) کیسے بھیرن سنگھ سے ملتا ہے اور کیسے ان کی زبان سیکھتا ہے؟ یہ سب کافی دلچسپ ہے۔ فلم میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ معاشرتی پس منظر پر بنائی گئی فلم ہے جہاں پر ہر مذہب کے نام پر لوگوں نے اپنی دکانیں کھول رکھّی ہیں۔

اس نے قدم قدم پر یہی سوال اٹھائے ہیں کہ کیا خدا سے کچھ مانگنے کے لیے مذہبی لوگوں کی اجازت ضروری ہے؟ کیا خدا اتنا ہی کمزور ہے کہ جب تک پتّھر سامنے نہ ہو، گلّے (چندے والا ڈبّہ) میں چار پیسے نہ ڈال دیں، گلے میں کراس نہ لٹکا لیں اور اُ س کے ماننے والے لوگوں کو خوش نہ کر دیں تو وہ نہیں سنے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔

میں فلم میں تقریباً کھویا ہوا تھا۔ ہیڈفون کانوں کو لگائے کرسی پربیٹھاتھا۔ ارد گرد مکمّل خاموشی تھی۔ تین یا ساڑھے تین بجے میرے دونوں بیٹے اور مانی چرچ سے واپس لوٹے۔ باہر کے گیٹ کی چابی ان کے پاس تھی، وہ کھول کر اندر آ گئے۔ وہ ضد کرنے لگے کہ وہ بھی فلم دیکھیں گے۔ میں نے ان کو یہ کہہ کر سو جانے کے لیے کہا کہ فلم آدھی سے زیادہ چل چکی ہے، ان کو دیکھنے کا خاک بھی مزہ نہ آئے گا، اس لیے سو جاؤ۔ پھر کبھی شروع سے دیکھ لینا۔ ویسے بھی وہ اس سے پہلے یہ فلم دیکھ چکے تھے اس لیے انھوں نے میری بات مان لی اور سونے کے لیے چلے گئے۔ میں کچن میں گیا، ایک کپ گرم گرم چائے کا بنایا اور دوبارہ فلم دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔

تقریباً ساڑھے چار بجے فلم ختم ہوگئی لیکن میری آنکھوں میں اب بھی نیند کا نام ونشان نہ تھا۔ ایک بار پھر کچن کا رخ کیا اور چائے بنا کر پی۔ اس دوران میں ساڑھے پانچ ہو گئے۔ مجھے پتا تھا اب سویا تو صبح ۹ بجے مشکل سے ہی اٹھوں گا۔ بستر پر لیٹنے سے پہلے میں نے اپنی بیوی کو ہدایت کر دی کہ میں صبح چرچ نہیں جاؤں گا، اس لیے مجھے جگایا نہ جائے، بچّوں کو لے کر خود ہی چلی جانا۔

میں گہری نیند سو رہا تھا کہ یکدم میرے کانوں میں میری بیوی کی آواز گونجی: ”اٹھیں، آپ کو سونے کی پڑی ہے۔ آپ کو پتا نہیں باہر کیا قیامت برپا ہو گئی ہے۔“

میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ دیکھا تو بیوی کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ وہ رو رہی تھی اور بہت پریشان نظر آ رہی تھی اور شاید بھاگتی ہوئی گھر تک آئی تھی۔ اُس کا سانس ابھی تک پھولا ہوا تھا۔ میں نے جلدی سے دریافت کیا: ”کیا ہوا ہے؟“

اس نے روتے ہوے بتایا: ”یوحناآباد میں چرچوں میں بم دھماکے ہوے ہیں اور فائرنگ کی آواز آ رہی ہے۔“ وہ ابھی تک رو رہی تھی۔

میں جلدی سے اُٹھا۔ واش روم میں گیا۔ جلدی جلدی منھ پر پانی کے چھینٹے مارے اور باہر آ گیا۔ میں نیکر پہن کے سو رہا تھا۔ جلدی سے اُس پر پینٹ چڑھائی۔ یکدم مجھے احساس ہوا میرے دونوں بیٹے میری بیوی کے ساتھ نہیں ہیں۔ میں نے فکرمندی سے پوچھا: ”قیس اور سارنگ کہاں ہیں؟ کیا باقی لوگ خیریت سے ہیں چرچ میں؟“

میری بیوی نے جواب دیا: ”ہاں، سب خیریت سے ہیں۔ ہم سب چرچ میں جمع ہیں۔ قیس اور سارنگ بھی وہیں ہیں۔ جلدی چلو، ہم بھی وہیں جا رہے ہیں؟“

مجھے اچانک اپنی بہن کا خیال آیا جس کے تین جوان بیٹے تھے اور قریب ہی ایک گلی چھو ڑکر اس کا گھر تھا اور ساتھ ہی اپنے بھائی کا بھی جس کا گھر بھی تھوڑی دور تھا۔ میں نے جلدی سے موبائل پر اپنی بہن کا نمبر ملایا۔ اس کا نمبر نہیں ملا تو اپنے بڑے بھانجے کا نمبر ملایا۔ وہ خیریت سے تھے اور گھر پر ہی موجود تھے۔ میرا چھوٹا بھائی بھی اپنے بچّے لے کر ان کے گھر آ گیا تھا۔

ہم نے جلدی سے گھر کو بند کیا اور باہر گلی میں نکل آئے۔ ابھی ہم گلی میں چرچ کو جانے والے راستے کی طرف مُڑے ہی تھے کہ آگے سے ایک خاتون، جس کا نام زرّیں تھا اور جو ہمارے چرچ کی ممبر تھی، ہمیں روتی ہوئی اور تیز تیز چلتی ہوئی ملی۔ ہم بھاگ کر اُس کی طرف گئے اور پوچھا کہ خیریت ہے۔ اُس نے اُونچی آواز میں روتے ہوے بتایا کیتھولک چرچ میں اُس کا بھائی اپنے بچّوں کے ساتھ اور اُس کی ماں اور اس کا بیٹا اور بیٹی بھی گئے ہوے ہیں۔ یہ سن کر ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ غم اور فکرمندی سے نڈھال نظر آ رہی تھی۔ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ اکیلی جائے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: ”تم چرچ جاؤ۔ میں زرّیں کے ساتھ جارہا ہوں۔ وہ کافی غمزدہ ہے۔“ یہ کہہ کر میں اس کے ساتھ ہو لیا۔

اس دوران میں مجھے پتا چل چکا تھاکہ فائرنگ اور دھماکے قریبی دو چرچز میں ہوے تھے: کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ میں۔ دونوں چرچز میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اتوار کے روز عبادت کے لیے جاتی تھی۔ میں سمجھ سکتا تھاکہ ایسے مواقع پر کیا صورتِ حال ہوتی ہے۔ اکثر ٹی وی پر، اخباروں میں ایسے واقعات دیکھ چکا تھا۔ کچھ عرصہ قبل پشاور چرچ میں بھی عبادت کے اختتام پر دھماکا ہوا تھا جس سے بے انتہا تباہی پھیلی تھی۔ میں یہ سوچ کر کانپ گیا کہ یہ وقت بھی چرچز میں عبادت کے ختم ہونے کا تھا اور عبادت ختم ہونے کے وقت بے انتہا رش ہوتا تھا۔

ہم دونوں گلیوں میں چلے جارہے تھے۔ لوگ، جن کے پیارے ان دونوں چرچز میں سے کسی ایک چرچ میں گئے ہوے تھے، بھاگتے، روتے ہوے جا رہے تھے۔ کوئی کسی سے بات نہیں کررہا تھا۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اپنے پیاروں کی خبر لے۔

ہم راستے میں ہی تھے کہ زرّیں کے گھر سے فون کال آئی۔ اُس نے بے صبری سے موبائل فون اپنے کان سے لگا لیا۔ میں نے اُس کی روتی ہوئی آنکھوں میں ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کی۔ وہ ابھی بات کر ہی رہی تھی کہ میں درمیان میں بول پڑا: ”بہن جی، خیریت ہے نا سب؟“ اُس نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ پھر اُس نے بتایا کہ اس کے بھائی کا شیرخوار بچّہ چونکہ تنگ کر رہا تھا اس لیے اُس کے گھر والے چرچ سے جلدی گھر چلے گئے تھے۔ یہ کہہ کر اس نے شکریہ کہا اور واپس چل دی۔

میں نے تقریباً بھاگنا شروع کر دیا۔ گھر سے کرائسٹ چرچ جانے کا راستہ پانچ یا سات منٹ کا ہوگا لیکن آج یہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ میرے بہت سے دوست دونوں چرچز میں ہر اتوار کی عبادت کے لیے جاتے تھے۔ میں جلد سے جلد معلوم کرنا چاہتاتھا آیاوہ سب خیریت سے ہیں یا نہیں۔ آس پاس ہر کوئی رو رہا تھا۔ غم سے نڈھال تھا۔ فکرمند تھا۔ عجیب پُراسرار سا ماحول تھا۔ لوگ یا تو خود میں کھوئے تھے یا موبائل فونوں میں۔ کسی کو آس پاس کی خبر نہ تھی۔ سب کے چہروں پر خوف، دہشت اور سراسیمگی تھی، لیکن یہ کون جانتا تھا ابھی اس سے بھی زیادہ پراسرار اور خوف زدہ کرنے والے دن آنے کو ہیں!

میں مین بازار میں پہنچ گیا تھا۔ ہر طرف لوگوں کا رش تھا۔ تھوڑے فاصلے پر کرائسٹ چرچ کا گیٹ تھا۔ ہر شخص کی کوشش تھی گیٹ تک پہنچا جائے۔ لوگوں کی ہاہاکار اور ایمبولینس کے سائرنوں کی آوازوں نے شور مچا رکھّا تھا۔ میں رش میں گھسا کوشش کر رہا تھا کہ جلدی آگے پہنچوں۔ دھماکا کرائسٹ چرچ کے گیٹ کے باہر سڑک پر ہوا تھا۔ یہ سُن کر کچھ حوصلہ ہوا کہ ابھی چرچ سروس ختم نہیں ہوئی تھی اور ہجوم زیادہ نہ تھا۔ میں ہجوم کو چیرتا ہوا بالآخر چرچ کے گیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ لاشیں ایمبولینسز میں لے جائی جا چکی تھیں۔ زخمیوں کو بھی لے جایا جا چکا تھا۔ پولیس لوگوں کو موقعِ واردات پر جانے سے روک رہی تھی۔ میری چرچ کے بہت سے ممبران سے دوستی تھی۔ خوش قسمتی سے مجھے ایک لڑکا نظر آگیا جو چرچ کی طرف سے پولیس کے ساتھ مل کر ہجوم کو روک رہا تھا۔ میری جینز کی جیب میں میرا ڈیجیٹل کیمرہ تھا۔ جیسے ہی میں کمرے سے نکلنے لگا تھا میری نظر ٹی وی پر رکھّے کیمرے پر پڑی تھی اور میں نے اُسے اٹھا کر جلدی سے جیب میں ڈال لیا تھا۔ اُس وقت یہ اچانک ہوا تھا لیکن اب مجھے جو خیال آیا تو جلدی سے اسے باہر نکال لیا۔

اُس لڑکے نے پہچان کر مجھے ہاتھ کے اشارے سے آگے آنے کے لیے کہا۔ میں جیسے ہی آگے بڑھا ایک پولیس والے نے میرا راستہ روک لیا لیکن لڑکا جلدی سے آگے آیا اور میرا بازو پکڑ کر مجھے تقریباً ہجوم میں سے گھسیٹتا ہوا لے گیا۔ میں نے اپنے اردگرد دیکھا۔ دکانوں کے شٹروں پر، ٹوٹی پھوٹی ریڑھیوں پر، دیواروں پر ہر جگہ انسانی گوشت کے چیتھڑے چپکے ہوے تھے۔ سڑک پر جگہ جگہ خون بکھرا تھا۔ ہوا میں انسانی گوشت، خون اور بارود کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ قریب ہی ایک ریڑھی کھڑی تھی جس پر پتا چلا کوئی بوڑھا برف کے گولے بیچتا تھا۔ عام طور پر وہ چرچ کے سامنے ریڑھی کھڑی نہیں کرتا تھا لیکن اتوار کے روز چونکہ چرچز کے سامنے رش زیادہ ہوتا ہے تو وہ ریڑھی لے کر یہاں آ گیا۔ اُس کا تو پتا نہیں کیا حال ہوا ہو گا لیکن میں نے جب غور سے دیکھا تو نظر آیا ریڑھی کے جنگلے میں انسانی ہاتھ کی دو اُنگلیاں کسی کے دھڑ سے الگ ہو کر چمٹی ہوئی ہیں۔ کئی جگہوں پر انسانی گوشت کے ٹکڑے چمٹے ہوے تھے۔

چرچ کے ساتھ پاسٹر ہاؤس ہے۔ چرچ کی اپنی سکیورٹی موجود تھی۔ دھماکا کرنے والا سوٹ میں آیا اور یہ ظاہر کرتے ہوے اندر جانے کی کوشش کی کہ وہ کرسچن ہے اور سروس کے لیے آیا ہے۔ جب وہاں موجود سکیورٹی نے چیک کرنے کی کوشش کی تو ان میں دھینگا مشتی ہو گئی اور بیچ سڑک میں ہی اس نے خود کو بم سے اڑا لیا تھا۔

پاسٹر ہاؤس کا گیٹ بارود کی طاقت سے مڑ چکا تھا۔ گیٹ پر لڑکے موجود تھے جو کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ مجھے گیٹ سے تھوڑا اندر جا کر جھانکنے کا موقع مل گیا۔ وہاں دیواروں پر جابجا گوشت اور خون کے لوتھڑے جمے ہوے تھے۔ فضا میں خون اور گوشت کی بُو پھیل چکی تھی۔ میں کیمرے سے تصاویر بنانے لگا۔

ابھی میں تصاویر بنانے میں مگن تھا کہ لوگوں میں شور بلند ہوا آس پاس کی بستیوں میں مختلف چرچز پر فائرنگ ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ ایک دم سے جیسے میں خواب سے جاگ گیا۔ ہمارے چرچ میں بھی تو سبھی لوگ جمع ہیں۔ میری بیوی اور بچّے بھی۔ اس خیال کا دماغ میں آنا تھا کہ میں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑکر چرچ کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ کچھ فکرمندی، انجانے وسوسے، خوف اور سوچیں؛ میرے پاؤں من من بھاری ہو گئے۔ جب چرچ پہنچا تو سانس پھولا ہوا تھا۔ جلدی سے جا کر میں نے سب لوگوں کو ہدایت کی کہ یا تو وہ قریب ہی ہمارے گھر میں چلے آئیں یا پھر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں کیونکہ حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ ہم نے جلدی سے چرچ کی چیزیں سمیٹیں، اُسے لاک کیا اور گھر آ گئے۔

تمام لوگوں کو گھر چھوڑ کر میں دوبارہ باہر آ گیا۔ مجھے اُن دوستوں کاخیال آیا جن کی فیملیز کیتھولک چرچ جاتی تھیں۔ ایک ایک کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ پتا نہیں کون کہاں اور کس حالت میں ہوگا؟ آنکھیں تھیں کہ خودبخود بھیگتی چلی جاتی تھیں۔ دل غم سے بھاری اور قدم بوجھل ہو چکے تھے۔ میں چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا لیکن تقریباً بھاگ رہا تھا۔ ابھی کیتھولک چرچ کی پچھلی گلی میں پہنچا تھا کہ دیوار کے ساتھ ایک کٹا ہوا سر دیکھ کر میں لرز گیا۔ ایک طرف کی آنکھ اور کان دیوار کے پاس پڑا نظر آ رہا تھا۔ چرچ کی دیوار پر، چھت پر، گلی میں ہر طرف لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ میں بھاگتا ہوا چرچ گیٹ کی طرف گیا لیکن رش اس قدر تھا کہ آگے نہ جا سکا۔ وہاں کھڑے ایک پولیس اہلکار کو ساتھ لے کر میں اُس کٹے ہوے سر کی طرف آیا۔ میرے ساتھ ایک دو صحافی بھی اپنے کیمرے تھامے بھاگے آئے۔ اُن کو وہاں چھوڑ کر اب میں چرچ کے اندر جانے کی ترکیب سوچنے لگا۔ میں اندر جا کر، لوگوں سے مل کر اندازہ لگانا چاہتا تھا نقصان کس قدر ہوا ہے؟ لیکن اندر جانے کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی تھی اور نہ ہی گیٹ پر موجود اہلکار کسی کو اندر جانے کی اجازت دے رہے تھے۔

یکایک ایک خیال کوندے کی طرح میرے ذہن میں آیا۔ میرے جاننے والوں کی چھت چرچ کے احاطے کے بالکل ساتھ تھی۔ مجھے وہاں سے اندر جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں جلدی سے گلی میں گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرا دوست باہر آیا۔ اُس سے حال احوال پوچھا۔ وہ باقاعدہ آنسوؤں سے رو رہا تھا۔ اُس نے تباہی کا پورا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انسانی اعضاء اُڑ کر اُن کے صحن اور چھت پر آ گرے تھے۔ زخمیوں کی آہ و پکار، کٹے ہوے جسم، آدھے دھڑ، سر۔ وہ مجھے بتاتا جاتا تھا اور روتا جا رہا تھا۔ میں نے اُسے گلے لگایا، تسلّی دی۔ ہم چھت پر آ گئے اور وہاں سے اُتر کر چرچ کے صحن میں۔

چرچ کا مین گیٹ، جہاں حملہ آور نے خود کو بم سے اُڑایا تھا، اُکھڑ کر تقریباً ۱۰-۱۵ فٹ دور مُڑا تڑا آ پڑا تھا۔ زخمیوں اور لاشوں کو یہاں سے بھی لے جایا جا چکا تھا لیکن بہت سے انسانی اعضاء، پھٹے ہوے کپڑے، جگہ جگہ خون ابھی تک پڑا تھا۔ بچّوں کی بڑوں کی جوتیاں، بچّوں کے کھلونے جابجا خون میں لتھڑے پڑے تھے۔ یہاں بھی چرچ سکیورٹی نے ہی حملہ آور کو روکا تھا اور جب وہ اندر آنے میں ناکام رہا تو اُس نے خود کو مین گیٹ پر ہی بم سے اُڑا لیا۔

میں نے ٹائم دیکھا: ساڑھے تین بج چکے تھے۔ مجھے خیال آیا میں نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہ تھا۔ پانی کا قطرہ تک حلق سے نہ اُتارا تھا۔ جسم میں عجیب قسم کی کمزوری کا احساس ہو رہا تھا۔ گھر واپس آیا۔ چائے بنوائی اور ساتھ کچھ کھایا بھی۔

ٹی وی سکرین پر خبریں چل رہی تھیں۔ زخمیوں کے، مرنے والوں کے نام۔ ٹی وی پر بتایا جا رہا تھا خودکش بمباروں کے دو سہولت کاروں کو لوگوں نے موقعِ واردات سے پکڑ لیا تھا۔ ایک کو پولیس کی وین میں بیٹھا بھی دکھایا گیا۔ زخمیوں کو خون کی ضرورت تھی۔ ہم نے سوچا کیوں نہ ہسپتال جایا جائے۔ اور ہم کچھ دوست ہسپتال جانے کے لیے نکل کھڑے ہوے۔

ہسپتال میں بہت رش تھا۔ زخمیوں اور مر جانے والوں کے ورثاء غم سے نڈھال ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔ رش میں میرے ساتھی کہیں ادھر ادھر کھو گئے۔ میں آگے بڑھتا رہا۔ ہسپتال کے اندر کے حالات انتہائی خراب تھے۔ ایمرجنسی وارڈ میں بیڈز ختم ہو چکے تھے۔ کافی سارے زخمی کوریڈورز میں پڑے تھے۔ زخمی چیخ بھی رہے تھے۔ وہ رحم کی اپیل کر رہے تھے۔ ڈاکٹرز، نرسیں اور وارڈ بوائز ان کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر اور دوائیں کم تھیں اور زخمی زیادہ، اور میں حیران کھڑا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں؟ موبائل پر ساتھیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ہو سکا۔ تھک ہار کر اکیلے ہی گھر واپسی کی راہ لی۔

شام ہو چکی تھی۔ ایک عجیب، غم زدہ شام۔ فضا میں ابھی تک گوشت اور بارود کی بُو رچی بسی تھی۔ میں واپسی پر پھر سے کرائسٹ چرچ کے پاس سے گزرا۔ ابھی تک لوگ جائے وقوعہ پر موجود تھے۔ میڈیا والے، پولیس والے اور مقامی لوگ۔ لیکن شام ہونے سے پہلے ایک اور انسانیت سوز واقعہ ہو چکا تھا۔ غم اور غصّے سے بھرے لوگوں نے سہولت کاروں کو پولیس سے چھین کر پہلے مارا پیٹا اور پھر زندہ جلا دیا۔

بالآخر رات ہو گئی۔ نیند تو خیر کوسوں دور تھی۔ صبح سے شام تک ہونے والے تمام واقعات خودبخود کسی فلم کی طرح ذہن میں آ جا رہے تھے۔ تین بجے کے قریب میرا موبائل فون بج اُٹھا۔ میں نے جلدی سے سرہانے پڑا موبائل فون اٹھایا۔ دیکھا تو ہمسایے کا نمبر تھا۔ وہ بڑی رازداری سے بات کر رہا تھا۔ شاید سرگوشیوں میں۔ اس کی اطلاع کے مطابق اس کو کسی نے فون کیا تھا کہ سڑک پر نہ رینجرز ہیں نہ پولیس اور نہ ہی میڈیا والے، اور ہمسایہ بستیوں سے اکثریتی لوگ اکٹّھے ہو کر بستی پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میرے ہاتھ پیر سُن ہو گئے۔ دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ بس بار بار یہی آ رہا تھا:اب کیا ہو گا! پھر میں نے ہمّت جمع کر کے کچھ ایسے دوستوں کو فون کرنے کی ٹھانی جن کا گھر مین سڑک کی طرف تھا۔ اگر کسی نے فون اٹینڈ کیا بھی تو یہی کہا: ”بھائی، افواہیں بہت ساری ہیں۔ پتا نہیں حقیقت کیا ہے؟“ باہر نکل کر دیکھنے کا حوصلہ کسی میں نہ تھا۔

خوف اور دہشت نے نیند اُڑا دی تھی۔ طرح طرح کے خیالوں نے گھیر رکھّا تھا۔ گزشتہ واقعات ایک ایک کر کے ذہن میں تازہ ہو رہے تھے —-  شانتی نگر، گوجرہ، تیسر ٹاؤن، کراچی، بادامی باغ، لاہور —-  کس طرح حملہ آوروں نے گھروں کو جلایا، لوٹا۔ لوگوں کو زندہ جلا دیا، مار دیا۔ آنکھیں بند کر کے نیند میں پناہ لینے کی سبھی کوششیں بے سود ثابت ہو رہی تھیں۔ میں اور میری بیوی سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے کہ کہیں بچّے نہ جاگ جائیں۔ وہ اس خوف سے بے خبر سو رہے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے وہ بھی خوفزدہ ہوں۔ اسی دہشت ا ور خوف میں صبح ہو گئی۔ خدا کا شکر ادا کیا کوئی برا واقعہ پیش نہ آیا۔

اگلے کئی روز تک افواہوں کا بازار گرم رہا۔ بازار مکمّل بند۔ ہر طرف سنّاٹا چھایا رہتا۔ انھیں افواہوں سے ڈر کر لوگوں نے گھروں کو تالے لگا کر محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈنا شروع کر دیں۔ بستی روز بروز خالی ہونے لگی۔ ایک طرف اکثریت کے حملوں کا ڈر، دوسری طرف پولیس چھاپے۔ ساری ساری رات چارپائی پر لیٹے کان گلی میں ہر ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی آہٹ پر لگے رہتے۔ کبھی کبھی گلی میں بوٹوں کی دھمک سن کر اس قدر سہم جاتے کہ اپنے ہی سانس کی آواز بم کی طرح سنائی دینے لگتی۔ تقریباً ۱۵ سے ۲۰ روز تک اقلیتّی بستی پر مظالم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ اسے اپنے اقلیّت ہونے کا ٹھیک ٹھیک احساس ہو گیا۔ بم حملوں میں جو مرے، مجروح ہوے ان کو سب بھول گئے۔ وہی میڈیا، وہی پولیس والے، جو پکڑے جانے والے حضرات کو حملہ آوروں کے سہولت رساں بتا رہے تھے، اِنھیں نے گواہیاں دیں اور مرنے والوں کے نوجوان بچّے گناہ گار قرار پائے۔ پولیس، میڈیا، حکومت سب ایک ہی آواز بولنے لگے۔ اقلیّت نے شاید دو یا تین بوتلیں ان پکڑے جانے والے سہولت پہنچانے والوں پر ڈال کر جلایا تھا، ڈرمّوں کے حساب سے تیل ان کے زخموں پر چھڑکا جانے لگا۔ پہلے نعیم کہا جانے والا محمد نعیم ہو گیا، پھر حافظ محمد نعیم۔ یوں غلام قوم کو سبق سکھانے کا تہیّہ کر کے سب نے غلام قوم کے بچّوں کے خلاف گواہیاں دیں۔ ان میں ہمارے ہمیشہ سچ بات کا پرچار کرنے والے میڈیا پرسن بھی تھے اور اقلیّت سے ووٹ لینے والے ہمارے حکومتی ممبران بھی۔ پانچ چھ سو افراد کے خلاف مقدّمہ درج کر لیا گیا۔ تصویریں تو عام تھیں۔ جس نے آگے گردن نکال کر جلتے ہوؤں کو دیکھا اسے بھی ڈنڈے کے زور پر ملزم قرار دیا گیا۔ سیڑھیاں لگا کر گھر چار دیواری کا تقدّس پامال کیا گیا۔ ایسے واقعات بھی ہوے کہ رات کو دیواریں پھلانگ کر عورتوں سے دست درازی کی گئی۔ اگر شکایت کی گئی تو پولیس نے یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ وہ پولیس والے تھے حالانکہ وہ لوگ پولیس کی گاڑی میں، پولیس کی وردیاں پہن کر ہی، آئے تھے۔ سیکڑوں افراد میں سے کچھ کو مار پیٹ کر چھوڑ دیا گیا۔ بہت سے اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ سننے والا کوئی تھا، نہ ہے۔ کس سے فریاد کریں! غلام جو ٹھیرے!