کاغذ، قرطاس، دفتر
عباسی دور کے ابتدائی دنوں میں ہی ایک بڑا واقعہ پیش آیا جس نے دنیا کی علمی تاریخ کا دھارا پلٹ کر رکھ دیا۔
ہوا کچھ یوں کہ امویوں سے اقتدار چھیننے کے اگلے ہی برس یعنی 751ء میں عباسی سلطنت کے کندھے ایک اور گراں ڈیل سلطنت یعنی چین کی تانگ سلطنت سے ٹکرا گئے۔ عباسی اور تانگ فوجیں موجودہ قرغیزستان کے دریائے طلاس اور شاہراہِ ریشم کے کنارے کنارے پر نبرد آزما ہوئیں۔ ایک سلطنت کے پھیلاؤ کی یہ انتہائی مشرقی، دوسری کی انتہائی مغربی حد تھی، جس میں مغرب والوں، یعنی عباسیوں کو فتح نصیب ہوئی۔ اس معرکے کو جنگِ طلاس کہا جاتا ہے۔
11ویں صدی کے معروف عالم ابو اسحٰق ثعلبی لکھتے ہیں کہ اس فتح سے بڑھ کر کامیابی یہ ہوئی کہ مسلمانوں کے ہاتھ چند ایسے چینی قیدی آ گئے جن کے پاس ایک نادر ہنر تھا: کاغذ بنانے کا ہنر۔
یہ واقعہ امام ثعلبی نے ’لطائف المعارف‘ میں درج کیا ہے، لیکن یہ کتاب واقعے کے تین سو سال بعد لکھی گئی اور اس بیچ کسی اور تاریخ داں نے چینی قیدیوں اور کاغذ بنانے کا فن منتقل کرنے کا ذکر نہیں کیا، اس لیے بعض جدید مورخ اس کی حقیقت پر شک کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جانتھن بلوم نے لکھا ہے کہ اس جنگ میں قید ہونے والے ایک چینی فوجی دو ہوان نے جنگ کے دس سال کے بعد چین واپس پہنچ کر اس کا احوال لکھا جس میں یہ ذکر تو کیا کہ مصور، سنار اور قالین باف گرفتار ہوئے تھے مگر کاغذ سازوں کا ذکر نہیں کیا۔
لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس سے کاغذ بافوں کی گرفتاری کا واقعہ لازمی طور پر مسترد نہیں ہوتا۔ ضروری نہیں کہ دو ہوان کے پاس ہر گرفتار ہنرمند کے بارے میں پوری معلومات ہوں، اور ویسے بھی ایک دو کاغذ ساز بھی اس فن کے راز منتقل کرنے کے لیے کافی تھے۔
مسلم دنیا میں کاغذ کی صنعت کے وجود میں آتے ہی کتاب کلچر میں کچھ ایسا ہی انقلاب برپا ہو گیا جو اس کے سات سو سال بعد یورپ میں پرنٹنگ کی ایجاد کے بعد ہوا تھا، یا پھر مزید سات سو سال بعد انٹرنیٹ کے متعارف ہونے کے بعد۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ انمول ایجاد مسلم سلطنت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سیلابی ریلے کی مانند پھیل گئی، بلکہ عباسی خلافت سے باہر مسلم اندلس میں بھی کاغذ کے کارخانے لگ گئے جہاں سے یورپ اس بیش قیمت ٹیکنالوجی سے روشناس ہوا۔
عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک قوم کی ایجاد کردہ چیز جب کسی دوسری زبان بولنے والوں کے علاقے میں جاتی ہے تو نام ساتھ لے کر جاتی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کاغذ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ چینی کاغذ کو ’گوژی‘ کہتے تھے، مغرب کی طرف اس کی بجائے اویغور زبان کے لفظ ’کاگدا‘ نے سفر کیا۔ یہی کاگدا وسطی ایشیا تک پہنچ کر کاغد ہو گیا۔ فارسی میں دال ذال میں بدل گئی (غالب کی روح سے معذرت: فارسی میں واقعی ذ موجود ہے) اور عربوں نے وہیں سے سموچا اٹھا لیا۔
اس سے قبل عرب لکھنے کی سطح کے لیے لفظ ’قرطاس‘ استعمال کرتے تھے اور یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے اور یہ کاغذ کے لیے نہیں بلکہ درخت کی چھال یعنی پیپائرس یا پھر چمڑے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ یہ بنیادی طور پر یونانی کا لفظ ہے جہاں اس کا تلفظ خارتیس ہے، مگر یہ براہِ راست یونانی سے عربی میں نہیں بلکہ براستہ آرامی آیا۔
وہ جو حدیثِ قرطاس والا واقعہ ہے (632ء) اس میں قرطاس کا ترجمہ کاغذ کرنا درست نہیں، کیوں کہ کاغذ عرب دنیا میں اس کے کوئی سوا سو سال بعد داخل ہوا۔
ایک اور دلچسپ مثال دیکھیے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونانی ثقافت سے عربی نے کتنا استفادہ کیا۔ لفظ دفتر آج کل صرف ’آفس‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن پرانی اردو میں ’نوٹ بک‘ کو دفتر کہتے تھے (پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا)۔ یہ دفتر دراصل یونانی لفظ Diphthera سے مستعار ہے، جو خشک کھال کو کہتے ہیں۔ آپ ڈپتھیریا یعنی خناق نامی بیماری سے یقیناً واقف ہوں گے، اس بیماری میں حلق کی جلد خشک ہو جاتی ہے اس لیے اس کا یہ نام پڑ گیا۔
اس سے پہلے مسلم دنیا میں تمام کتابیں اونٹ کے شانے کی چوڑی ہڈی، چمڑے، یا پھر قرطاسِ مصری پر لکھی جاتی تھیں جو ایک درخت کی چھال سے بنتا تھا۔ بابل و نینوا میں مٹی کی تختیوں پر تحریریں میخی رسم الخط میں کندہ کی جاتی تھیں، لیکن اب ان کا رواج ماند پڑ گیا تھا۔ کاغذ کی کم خرچ بالانشین ٹیکنالوجی نے آتے ہی ان تمام قدیم طریقوں کو ڈائنوسار بنا دیا۔
کاغذ کی اس راتوں رات قبولیت کی وجہ ثعلبی ہی کی زبانی سنیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کاغذ مصری چھال یعنی پیپائرس یا چمڑے کے مقابلے پر زیادہ نرم ہے اور استعمال میں آسان تر ہے۔‘
کاغذ کے اور بھی فائدے تھے۔ ظاہر ہے کہ چمڑا بےحد مہنگا تھا، اس سے بننے والی کتاب بہت بھاری ہوتی تھی اور اس کے کونے بار بار تہہ کیے جانے سے بھربھرے ہو جاتے تھے۔ دوسری طرف چھال کی ناپائیداری واضح ہے اور اسے گول تہہ کر کے کتاب بنانے کا طریقہ تو صدیوں سے چلا آ رہا تھا لیکن ایسی کتاب کو کھولنا اور مخصوص مطلوبہ صفحے تک آسانی سے پہنچنا آسان نہیں تھا۔ کاغذ ہلکا، سستا اور پائیدار تو تھا ہی، اس سے بننے والے کتابیں بھی زیادہ قابلِ استعمال یا آج کی زبان میں’صارف دوست‘ user-friendly تھیں۔
کاغذ کا ایک اور فائدہ بھی تھا۔ چمڑے اور چھال پر لکھا ہوا لفظ بڑی آسانی سے کھرچ کر یا دھو کر مٹایا جا سکتا تھا اور اس کی جگہ کوئی لفظ لکھنا بہت آسان اور اس جعل سازی کو پکڑنا بہت مشکل تھا۔ اس کے مقابلے پر کاغذ سیاہی کو جذب کر لیتا ہے، اس لیے اس پر لکھے ہوئے لفظ کو مٹا کر دوسرا لفظ اس طرح لکھنا کہ اس پکڑا نہ جا سکے، ناممکن نہ سہی، بےحد مشکل ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عباسی بیوروکریسی نے کھلی بانہوں سے کاغذ کا خیرمقدم کیا۔
13ویں صدی کے مصنف یاقوت کے مطابق بغداد میں کاغد کا پہلا کارخانہ 794 میں ہارون الرشید کے دور میں قائم ہوا اور لگایا کس نے؟ ہارون کے علم دوست وزیر جعفر برمکی اور اس کے بھائی فضل برمکی نے، جس میں اتنا کاغذ بنایا جانے لگا کہ محصول، بیت المال، دفتری دستاویزات، امورِ سلطنت، خط و کتابت، تنخواہوں کا ریکارڈ اور امورِ لشکر سمیت تمام سرکاری کام چمڑے اور پیپائرس سے کاغذ پر منتقل ہو گیا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ بظاہر اس ابتدائی دور میں مذہبی کتب، خاص طور پر قرآن کو کاغذ پر لکھنے میں مسلمانوں نے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، ورنہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ مسیحیوں اور یہودیوں دونوں کو مذہبی متون کو اس نئی ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے میں تامل تھا، اور وہ ایک عرصہ بدستور پیپائرس اور چمڑے کا استعمال کرتے رہے۔ اس کا تقابل چھاپہ خانے سے کیجیے تو برعکس صورتِ حال نظر آئے گی۔ جہاں یورپ والوں نے پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد سب سے پہلی کتاب جو پرنٹ کی، وہ بائبل تھی،
دوسری جانب مسلم دنیا، خاص طور پر خلافتِ عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس کے خلاف فتوے لگے اور قرآن کو اس کے ذریعے چھاپنے کی سزا موت مقرر ہوئی۔
(ایک نامکمل کتاب سے مقتبس)








