یاد باد:ایک کتاب،ایک ملاقات

یہ تحریر 977 مرتبہ دیکھی گئی

”میری ملاقات لے لو: میرے واقعات لے لو۔میں بھید نہیں سنبھال سکتا۔مجھے گھاٹ پر بٹھا کر کنارے سے بہا دو۔”

اگر دل کے لیے الجھنیں سمیٹ لانے اور اس روزگار میں خود بکھرتے چلے جانے کو آپ کار حیات کہتے ہوں، اگر آپ کسی بندھن میں بندھے ہوں اور تازہ پڑی گرہوں کو کھینچتے کھولتے رہنا فی الوقت آپ کی واحد مصروفیت ہو اور ایسے میں آپ کے ساتھ ایک کتاب ہو، جس پر بیزاری کے ساتھ اضافہء علم کا دعائیہ لکھ کرآپ کے کتاب دوستی کے دعویٰ پہ تحفظات رکھتے ہوئے اسے آپ کے ہاتھ میں جبراََ تھمانے کے بجائے آپ کے لیے، کہیں آپ کے قریب رکھ دیا گیا ہو، آپ کے دریچہ ء پیغامات میں اسے پڑھنے کی ترغیب بھی ایک دل پسند پیرائے میں موجود ہو، اگر ایسا ہو اور عالم ممکنات میں بسا اوقات کچھ بھی ہوجایا کرتا ہے۔ کبھی اعصاب پہ سکینت بھی حملہ آور ہوجاتی ہے، کوئی بیدار شب تکان سے اس حد تک عاری بھی ہوسکتی ہے کہ آپ بڑی رغبت سے تازہ یافت،بند ھے پڑے نوشتوں کو حیران آنکھ اٹھا کر دیکھتے اور اپنی بے حسی پر متعجب ہوسکتے ہیں جس نے آپ کواس خیر طلبی سے بہت دن گریزاں رکھا،کہیں ایک منہدم عمارت کے ملبے کے پاس کھڑا کوئی اعلان کرسکتاہے کہ کچھ نہیں ہوا، سب خیر ہے اور آپ کتاب کھول سکتے ہیں۔
اگر ایسا ہو تو زندگی جو وقت کے ایک دورانیے کو دیا گیا نام ہے،اسے سیر ہو کر جینے کے لیے ایک کتاب آپ کی معاون ہو سکتی ہے۔ بشارت محمود میرزا کی تصنیف یاد باد!

”میں نے تمھاری رفاقت کے لیے وقت کی قیمت دی۔یہ میری زندگی کی طرح حقیر تھی۔ ہر کوئی اپنی توفیق بیچتا ہے؛ درویش کو تقسیم میں صرف وقت ملا تھا۔”

قیاس ہے کہ پیغامات کی فوری برقی ترسیل کے دورسے پہلے وقت انسان کا ایک بڑا طاقت ور حریف رہا ہوگا۔ بشارت محمود میرزا کی یاد باد کے یک سطری پیغامات میں انسٹنٹ وصال کی آرزو سے دوراس بے نہایت ہجرکے بیانیے ملتے ہیں جن کا محیط زندگی ہی ہوسکتی ہے۔

ان مختصرنثر پاروں کا آہنگ خطابانہ ہے لیکن فقیر کے استغنا نے اسے واعظانہ نہیں ہونے دیا۔

”میری پوست کم رنگ،میرا جسم کم گوشت ہوا ہے۔تم مجھے حقارت سے جھٹکتے ہو۔تم قصاب ہو؟”

زندگی اگر اپنی عطا میں اتنی فیاض ہو بھی سکتی ہے کہ حقیقتوں کی خبر دے سکے تو معنی کی یہ لغت سب آرزو مندوں پہ کہاں کھلتی ہے!مجھے اس نثر پارے کو پڑھتے ہوئے بچپن کی آنکھ سے دیکھے آسمان پر امنڈتے آتے تہہ بہ تہہ گہرے اور متضاد رنگوں کے بادلوں کی ردائیں یاد آرہی ہیں، چھب دکھلا کرسمیٹ لی جانے والی، دسترس سے دور،ہواؤں کے ساتھ اڑان بھرتی،پھڑپھڑاتی ہوئی خوش رنگ اوڑھنیاں:

”چٹان پر سبزے جتنی امید، دل تنہا کی زندگی ہے۔ فراق بیابان میں اونٹ کا آوارہ سفر ہے، وصال کوئی بے مفہوم ملاقات، جمال کوئی غیر واضح تصور، اختیار نا شئے کی گرفت، محبت نا آسودہ سیری ہے۔”

شبد کتنے بھی موثر کیوں نہ ہوں ایک فرد کی واردات دل دوسرے کی سرگزشت اگر بن سکتی ہے تو فقط اثبات، تسلیم، قبولیت اور اعتراف سے۔
اس خوش خبر کتاب کا خیر مقدم اسی تپاک سے کیا جانا چاہیے جس وارفتگی سے دوست کا خط کھولا جاتا ہے،تہوں کی شکنیں نکالی جاتی ہیں اور بیتاب ہاتھوں سے بار دیگر کھلنے کے لیے پھر ٹھیک وہیں بٹھا دی جاتی ہیں۔یہ نوشتہ بار دیگر اور سہ بارہ کیوں نہ کھلے کہ محبت کی بات کسے اچھی نہیں لگتی۔ایں شرابیست کہ ہم پختہ و ہم خام خوش است۔اگر آپ الجھن میں ہوں اور دل سلجھنے کی صلاح پربرخاستگی کا دھمکاوا دیتا ہو اوریاد باد کے نام سے یہ مجموعہء وظائف کوئی آپ کے پاس رکھ دے اور اعلان کرے کہ کوئی بات نہیں،سب ٹھیک ہے،کتاب کھولی جا سکتی ہے تو سر جھکا دینا چاہیے، خاموشی اختیار کرلینا چاہئے اور کتاب کھول لینی چاہیے۔

”وہ جو بہت وعظ کہتے ہیں، ان سے کہو دنیا ایک لفظ سے بنی ہے۔ ایک لفظ کا ایک تقریر سے مبادلہ بہت زیادہ ہے۔”