ہم کہ جدائیوں کی فصل کاٹنے آئے ہیں یہاں

یہ تحریر 1012 مرتبہ دیکھی گئی

ہم کہ جدائیوں کی فصل کاٹنے آئے ہیں یہاں،
ہاتھ ہمارے شل ہوے، پیروں میں دم نہیں رہا۔
فرصت ابھی ملی کہاں۔

دریا جو خون کے بہے، پرچم جو ہاتھ سے گرے۔
ایسی تھی دل شکستگی، کچھ نہ سنا نہ کچھ کہا۔
چلنے میں سر جھکے ہوے۔

ہاتھ سَنے تھے خون میں، آنکھوں میں قتلِ عام تھے۔
مرتے ہووں کی صورتیں، جیتے ہووں کی بے بسی۔
کیسے دلوں کو تھامتے؟

شاملِ خواب بھی رہے، شاملِ خاک بھی ہوے،
جن سے سُنا کیے بہت زیست کے سخت فیصلے،
دل سے زباں کے فاصلے۔

چاہے کلام یا طعام، لطف مصاحبت کا تھا۔
حلم کے ساتھ ضد بھی تھی، دنیا سے تھوڑی کد بھی تھی،
حدِّ اَدب سے ماورا۔
رنج محبّتوں کا تھا، صبر عداوتوں میں تھا۔
چھڑتی رہیں کہانیاں جن کے سرے نہ تھے کہیں،
جھوٹ میں سچ گُھلا ہوا۔

ان کے غیاب کے طلسم، ان کی حضوریوں کی آگ
اور خروشِ سحر میں شعلہ بیانیوں کے رنگ؛
ایک تپش، ہزار لاگ۔

چہروں کی وہ ملائمت، لہجوں کی و ہ فسردگی،
جن سے تھا دل لہو لہو۔
کتنی تھی وہ یگانگت، کیسی وہ خود سپردگی۔

اُن کے مشاہدے الگ، اُن کے مجاہدے جدا۔
روشن خرابیوں میں ضم اُن کی اُداس خوبیاں۔
اُن پہ کرم کرے خدا۔

ایک پُلِ صراط سے گزرے سنبھل سنبھل کے ہم
کتنا تھا لغزشوں کا ڈر لیکن ہٹے نہ راہ سے
جب تک تھا اپنے دم میں دم۔

کوئی خیالِ گم شدہ راہ میں مل گیا تو کیا!
دل کا وہ کرّوفرجو تھا مٹ گیا، خاک ہو چکا۔
چاک جو زندگی میں تھا دفعتاً سِل گیا تو کیا!

اتنی پرانی یاد کو کیسے سنبھال کر رکھیں؟
پچھلے کسی ملال کو دل سے لگا کے کیا کریں؟
دنیا بہت بدل چکی۔

کیسے خبر ملے مجھے کون ہوں میں، کہاں پہ ہوں؟
اتنا ہی بس سمجھ سکا،
ہوں میں صحیح مقام پہ، جیسا بھی ہوں، جہاں پہ ہوں۔

ہونے سے میرے کس کا کام نکلے گا، یہ پتا نہیں۔
کون ہے جو اُٹھائے گا
بوجھ مرا یا دو قدم ساتھ چلے گا یا نہیں؟

کس کے لیے یہ زندگی؟ موت کے اُس طرف ہے کیا؟
وہم و گمان ہیں ہزار۔
ذلّت میں لذّتیں ہیں کیوں؟ آدمیت شرف ہے کیا؟

صبح ہوئی تو جی اُٹھے، رات ہوئی گزر گئے۔
جبر کوئی نہ اختیار۔
کس کے لیے، خبر نہیں، کون سا کام کر گئے۔

آج میں اس اُجاڑ میں، بپھرے ہوے بگاڑ میں،
سوچ رہا ہوں زندگی کیسے کہاں کہاں کٹی
دوستیوں کی آڑ میں۔

ڈوب چلا ہے میرا دن، تھمنے لگی ہے نبضِ جاں۔
پرچہِ دل کو پھاڑ کر پھینک دیا اِدھر اُدھر۔
ختم ہوا ہے امتحاں۔
۲۰۱۶ء