۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پطرس کو ہاسٹل میں پڑنے کی
حسرت ہی رہی
مگر ہم نے ہاسٹل میں
جوانی کی راتیں
اور مرادوں کے دن بسر کیے ہیں ؛
ہم نے ہجر کی راتوں میں
ایک دوسرے کو وصل کے قصے سنائے ہیں ،
ہم نے گرمیوں کی راتیں
ہاسٹل کی چھت پر گزاری ہیں
اور آسمان سے کئی ستارے توڑے ہیں ،
ہم نے سردیوں کی دھوپ میں
کینٹین پر
چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیے ہیں ،
ہم نے وہیں زندگی کا پہلا سگریٹ پیا تھا
اور ایک بے باک قہقہہ لگایا تھا ؛
ہم نے ہاسٹل کے طعام خانے میں
مزے مزے کے پکوان کھائے ہیں،
یاد رہے کہ وہاں کی مرغی ،
مرغی سے کم نہ ہوتی تھی ،
بلکہ کبھی کبھی تو
دال کی پلیٹ میں سے بھی
مرغے کی صدا سنائی دیتی تھی ؛
ہم نے میر کے بہتر نشتر
اپنے دل میں اتارے ہیں ،
ہم نے شہر کے ہر سینما میں
ہر نئی فلم دیکھی ہے ؛
پطرس کو ہاسٹل میں پڑنے کی
حسرت ہی رہی
مگر ہم نے ہاسٹل میں
جوانی کی راتیں
اور مرادوں کے دن بسر کیے ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسٹل میں پڑنا
یہ تحریر 654 مرتبہ دیکھی گئی