گہری نیلی آنکھیں

یہ تحریر 2437 مرتبہ دیکھی گئی

اَب میں جب بھی گھر سے باہر جاؤں تو یہ احساس اکثر ساتھ رہتا ہے کہ کوئی ضروری چیز بھول آیا ہوں۔ مگر ایسا نہیں ہؤا کہ دانتوں کا بُرش خریدنے کی بجائے قلم لے آؤں۔ لیکن گزرے وقت کو دھیان میں لاؤں تو ٹوٹے رشتے، پھوٹے مکان اور تمام ہوے تعلّقات چقماقی شیشے کی طرح کمال نظّارگی کرتے ہیں۔ کِس بھول کو یاد رکھوں اور کون سی یاد کو بھول جاؤں! ایک ترغیبی خیال یہ ہے کہ بس بہکا دینے والی خواہشات کو ذہن کے نیم شفاف کونے میں رکھ دینا اچھا۔

اسکول کو اچانک اور جلدی میں بند کرنا پڑا تھا۔ مجھے سب سے آخر میں جانا تھا، لیکن یمن کے حالات اس تیزی سے بگڑ رہے تھے کہ مقررہ دن سے بھی پہلے آنا پڑا تھا۔

”مدیر، سب سامان رکھ دیا ہے۔ کوشش کریں زیادہ دیر نہ ہو جائے۔“ وہاب بِن ہاشم اسیری نے کہا۔ یہ میرا ڈرائیور تھا، جِسے مکمل نام سے پُکارا جاتا۔ ویسے یمنیوں کے چار پانچ نام ہوتے ہیں: پہلا نام شخصی، دوسرا والد کا، تیسرا دادا کا، چوتھا اُس کے باپ کا، پھر قبیلے اور کہیں شہر کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ اگر ایک نام رہ جائے اور اندراج نہ ہو تو طالب علم کا نہ صرف نتیجہ روک لیا جاتا ہے بلکہ مدیرِ اسکول کی سرزنش بھی کی جاتی ہے۔

مجھے وہی، کُچھ بھول جانے کا خوف، کار کے پاس پہنچ کر واپس لے آتا۔ مگر شرمندگی ہوتی کہ ساری اشیا تو موجود تھیں: موبائیل فون، پاسپورٹ، بٹوا اور ٹکٹ۔ جب میں یمن آیا تھا ہوائی جہاز کے اڈّے سے میرا گھر، جسے میں اب چھوڑ کر آرہا تھا، صرف آدھ گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ اب، جب میں واپس جارہا تھا، یہ کئی گھنٹے دور ہو گیا تھا۔ کچھ دنوں سے حکومت اور مخالف طاقتوں کے درمیان جنگی ٹکراؤ سے سیدھے اور چھوٹے راستے پر اَن گنت فوجی چوکیاں بن گئی تھیں۔ لمبے راستے کے اِرد گرد بہت ساری عمارتیں کئی راتوں کی گولہ باری سے ڈھے چکی تھیں۔ جو ابھی تک قایم تھیں وہ بارود کے دھؤیں سے اِتنی کالی ہو چکی تھیں کہ گری اور بکھری عمارتوں سے کہیں زیادہ بھیانک لگ رہی تھیں۔ اور یہ صنعاء شہر کا بیچ تھا۔ یہاں پہلی دفعہ حکومت کی مخالفت تیونس، مصر اور شام کے راستے سے آئی تھی۔ مخالف غیر منظم سہی لیکن ایسی تبدیلی تھی جس نے حکومت اور مخالف دھڑوں کو حیران کر دیا تھا۔ دونوں اَطراف میں کلاشنکوف رائیفلیں لہراتے نوجوانوں کے چہروں پر غلو آمیز بشاشت صاف دِکھائی دے رہی تھی۔

کچھ دن پہلے خواتین کا بڑا مظاہرہ یورپی یونین کے دفتر کے سامنے ہؤا تھا۔ مظاہرہ دیکھنے والی خواتین بہت خوش ہو رہی تھیں۔ حتیٰ کہ بعض کالا عبایا پہنے خواتین ہنسی سے اتنی بے قابو ہو چکیں کہ کچّی زمین پر گرنے سے خود کو بچا نہ سکی تھیں۔ اُن کو اس حالت میں دیکھ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے جب ڈرائیور سے وجہ دریافت کی اُس نے گِری خاتون سے پوچھ کر مجھے بتایا کہ اس طرح کا مظاہرہ انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حیرانی اور خوشی نے اُن کے توازن کو بگاڑ دیا تھا۔

میں ہوائی جہازوں کی آمدورفت کی دیکھ بھال کرنے والے مینار پر ٹکٹکی باندھے ایسی بیتابی سے دیکھ رہا تھا جو ہوائی اڈے پر پہلی دفعہ آنے والے بچے کی حیرت اور تجسس سے پھوٹتی ہے۔ اچانک کار ایک جھٹکے کے ساتھ رُکی۔ محسوس ہؤا جیسے آگے والے پہیّے دوسرے چکّر کے مکمل ہونے سے پہلے کھائی میں جاگرے ہوں۔ ویسے صنعاء چھوٹے پہاڑوں کے گھیرے میں ہے لیکن پہاڑوں کے چوڑے کٹاؤ سے بننے والی کھائیاں گہری ہیں۔

”ہم تمہیں آگے نہیں جانے دیں گے۔“ پانچ چھ لڑکے ہاتھوں میں رائیفلیں تھامے چیخ رہے تھے۔ وہاب بِن ہاشم اسیری میری حیثیت کا ذکر بار بار اُتنی ہی اونچی آواز میں کر رہا تھا مگر لڑکے ٹَس سے مَس نہ ہوے۔ اُن کے انکار کی تکرار اور جہاز چھوٹنے کا خدشہ ایک ہی رفتار سے بڑھ رہے تھے۔ میں کار سے باہر نکلا ہی تھا کہ میرے ڈرائیور نے کوٹ کے بٹن کھول، گَلا پھاڑ کر کہا:

”میرا تعلق اسیری قبیلے سے ہے۔ مدیر نے ہر حالت میں ہوائی اڈّے پہنچنا ہے۔ وہ واپس اپنے ملک جارہا ہے۔ ہٹ جاؤ ہمارے راستے سے۔ روکنے کی کوشش نہ کرو ورنہ پہلے مجھے گولی مارنا ہو گی۔“

پھر جو دیکھا وہ حیران کُن تھا۔ ایک قدرے لمبے قد کے نوجوان نے اپنے ساتھیوں کو ہٹنے کو کہا۔ انہوں نے کار کو ایسی تھپکیاں لگائیں گویا آگے جانے کی خوش دلی سے اجازت دے رہے تھے۔

”وہ لمبا لڑکا اسیری قبیلے سے تھا۔ دیکھا، باقی سب نے اُس کی بات کیسے فوراً مان لی۔“ وہاب بِن ہاشم اسیری نے خوشی سے ایسے اظہار کیا کہ اس کے کات کھانے سے کائی مایل دانت صاف دِکھائی دیے۔

”مگر یہ نوجوان تو حکومت مخالف گروہ سے تھے اور تم تو حکومت کی پاسداری کرتے ہو۔“

”مدیر، چھوڑ و اِس ذِکر کو۔ انہیں میرے جھُکاؤ کا علم نہیں ورنہ وہ واقعی میرے سینے میں گولی داغ دیتے۔“

وہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ہمیں پھر روک لیا گیا۔ چوکی پر موجود نوجوان سرکاری فوج کی وردی پہنے ہوے تھے۔ انہوں نے کاغذات کی سرسری جانچ پڑتال کے بعد ہمیں سفر جاری رکھنے کی فوراً اجازت دے دی۔

جیسے ہی ہوائی اڈے پر پہنچے میرا نام ہر طرف نصب سپیکروں پر پکارا جارہا تھا۔ کِسی نے میری ٹِکٹ پکڑی اور سامان ڈھونے والوں نے میرا بَکسا چھینا۔ ہوائی جہاز کو مزید انتظار کے بغیر اُڑنا تھا۔ مجھے اِتنی جلدی چھوٹی ویگن میں لادکر چلتے انجن کے ہوائی جہاز کے پاس پہنچایا گیا کہ میں وہاب بِن ہاشم اسیری کو الوداع بھی نہ کہہ سکا۔

میرے ساتھ یہ خصوصی برتاؤ اِس لیے کیا جارہا تھا کہ ہوائی اڈّے کے حفاظتی عملے کو اچانک خبر ملی تھی کھڑے ہوائی جہازوں پر ایک خاص مخالف قبیلہ راکٹوں سے حملہ کرنے والا ہے۔

جیسے ہی جہاز میں داخل ہؤا سب نے قہر آلود نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ خاص طور پر عبایا میں ڈھکی دو خواتین نے، جو میری نشست کے برابر بیٹھی تھیں، اپنی اَن ڈھکی آنکھوں کو اور بڑا کر کے میری طرف اِس طرح دیکھا کہ بس جیسے وہ چھُپائے ہوے خنجروں کو میرے نہ بڑھے پیٹ میں گھونپ دیں گی۔ خوف اور غیریقینی، سوائے امریکی جوڑے کے، باقی سب پر عیاں تھی۔ میری بوکھلاہٹ کو بھانپتے ہوے مہربان مہمان دار خاتون نے چلتے جہاز میں چھوٹا بھیگا تولیہ اور پانی سے آدھا بھرا گلاس میرے قدرے گندے ہاتھوں میں تھما دیا۔

”جہاز یمن کی ہوائی حدود پار کر چُکا ہے۔“ کپتان نے عربی میں اعلان کیا۔ مجھے ٹوٹی پھوٹی عربی بھی بولنا نہیں آتی تھی لیکن یہ بات اُس کے انگریزی اعلان سے پہلے مجھے بخوبی سمجھ آگئی تھی۔

دُبئی تک کا ہوائی راستہ تقریباً تین گھنٹے کا تھا۔ مشروبات اور کھانے کی تواضع کے بعد اکثر مسافر سَستانے لگے تھے۔ اتنے پریشان کُن اور تھکا دینے والے حالات کے بعد جب چین آنے لگا تو میرے پیٹ میں مروڑ اُٹھا۔ جیسے ہی میں جہاز کی پُشت کی طرف بھاگا میری، چلتے چلتے، نظر اُس امریکی جوڑے پر پڑی جو خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ واپسی پر جب میں نے اُن کے قہقہے سُنے تو میں نے بے ساختہ اُن سے پوچھ ڈالا:

”یہ ماجرا کیا ہے؟ اِس ساری عجیب اور پریشان کُن صورتِ حال کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑا؟“

”دراصل ہمیں یہ خبر تھی کہ صنعاء کے ہوائی اڈّے پر راکٹوں سے حملہ نہیں ہوگا۔ لیکن ہم اُس واقعے پر ہنس رہے تھے جو ہمیں واشنگٹن ڈی سی کے ہوائی اڈّے پر پیش آیا تھا۔“

صاف لگ رہا تھا کہ وہ یہ مجھے سُنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ میں نے سُننے کی حامی بھرلی۔ امریکی مرد بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یوں گویا ہؤا:

”میری پہلی بیوی مِصری تھی۔ یقینا وہ بہت خوبصورت لگی، جب میں نے اُسے پہلی بار دیکھا۔ ہم دونوں صرف ایک بات پر متفق تھے کہ کثیرالتّعداد اولاد کے والدین بنیں گے۔ لیکن دوسرے حمل کے ساقط ہوتے ہی اُس کا وزن بڑھنا شروع ہو گیا۔ پھر اتنا بڑھا کہ ایک بڑے اسٹور کے مالک نے کافی پُرکشش پیش کش کی۔ اُس کا اندازہ تھا کہ میری بیوی وہ خصوصی جرسی پہنے گی جس پر اسٹور کی آرایشی تحریر ہے۔ اُس کا موٹاپا بھی چھپ سکتا تھا۔ نتیجہ: اِس طرح کی تشہیر اُن کے لیے بھی فایدہ مَند تھی۔ اِس کام کے لیے عوضانہ بھی ہماری امید سے بڑھ کر تھا۔

”لیکن اُس واقعے پر اب ہنسنے کی وجہ معقول نہیں لگتی۔“ میں نے احتجاجی لہجے میں کہا۔

”آپ تھوڑا تحمل توکریں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی ہنسنے سے بچ نہیں سکیں گے۔ اسٹور کے مینیجر نے تب ایک اور ایسا مشورہ دیا جس کے باعث آج ہم ہنس رہے ہیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر میری موٹی بیوی ایک ہی وقت میں ایک دوسری پر اتنی جرسیاں پہنے تو عین ممکن ہے گنیز کتاب میں اُس کا نام بطور زیادہ جرسیاں زیبِ تن کرنے والی خاتون کے درج ہوجائے۔ ہم دونوں نے اِس تجویز کا خیر مقدم کیا۔ پھر قریب آٹھ گھنٹوں میں یہ عمل انجام پذیر ہؤا۔ اُس نے ایک ہزار ایک جرسیاں پہن ڈالیں۔ اُس دوران دیکھنے والوں کا تانتا لگا رہا اور اسٹور کی بِکری روز کے معمول سے کئی گنا زیادہ ہوئی۔ ہم دونوں خوش تھے کہ ہم دُنیا میں ایک مشہور جوڑے کے نام سے جانے جائیں گے۔ میرا یہ ارادہ بھی تھا کہ اُسے آیندہ وافر تعداد میں اصلی گھی سے تیار روٹیاں کھِلا کر وزن اور بڑھایا جائے تاکہ ہوائی اور موبائل کمپنیاں اپنے چھپے ناموں کی جرسیاں بنا کر شہرت اور ہم دولت پائیں۔ مگر میری بیوی کی بے لچک دھج صرف مشہور ہونے کی تھی۔

”چھان بین کے بعد گنیز کتاب والوں نے اطلاع دی کہ میری بیوی کے جرسیاں پہننے کے تکلیف دہ عمل سے دو دن پہلے ایک کیوبن خاتون ایک ہزار دو جرسیاں پہن کر سبقت لے چکی تھی۔“ اچانک ہوائی جہاز کو جھٹکا لگا۔ میں وہاں سے کھِسکا اور مشکل سے اپنی نشست پر جاپہنچا۔

”خواتین و حضرات، ہم دبئی کے ہوائی اڈے پر اُترنے والے ہیں۔“ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ حیران تب ہؤا جب عبایا پوش خواتین اُس کے بغیر تھیں۔ نقاب کے اندر چھُپی ہوئی شکلیں شاہکارِ قدرت تھیں۔ میں انہیں دیکھ کر ہڑبڑا گیا اور یہ احساس دِل میں چپکے چپکے گھرکرگیا کہ میں جہاز میں کوئی قیمتی چیز بھول جاؤں گا۔

ہوائی اڈّہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اور وہاں دلفریب اشیاء کتنی ہی کیوں نہ موجود ہوں، انہیں دیکھنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ میں اِدھر اُدھر اُن چیزوں کو دیکھتا رہا جن کی فوراً یا آنے والے کئی دِنوں میں قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ مجھے ایسی بھیڑ والی معروف جگہوں پر صرف انسانی چہرے اتنے دل چسپ معلوم ہوتے ہیں کہ ان کو تکنے سے دِل نہیں بھرتا۔

یہاں دبئی کے ہوائی اڈے پر لوگ تو بہت تھے مگر اُن کے چہروں پر نظر اِس لیے نہیں ٹھیرتی تھی کہ اُن سب پر یکسانیت تھی اور اُنہیں بہت جلدی تھی۔ لوگوں کی نگاہیں ایک خاص اونچائی پر گڑی تھیں۔ شاید خبر آگاہی بورڈوں کو ٹٹول رہی تھیں کہ جانے کے انتظار کی گھڑیاں کہیں کم یا بڑھ تو نہیں رہیں۔ میں اِس طرح کے کرب کی پکڑ میں اِس لیے نہیں تھا کہ مجھے آدھی رات کے بعد روانہ ہونا تھا اور اُس وقت تو دوپہر بھی نہیں ہوئی تھی۔ کُچھ ہی دیر میں، مجھے بھی، وقت گزارنا محال ہونا شروع ہو گیا۔ میں نے بغلی تھیلے سے اخروٹ کی گِریاں نکال کر اُنہیں کھانے کی بجائے گِننا شروع کر دیا۔ یہ عمل زیادہ دیر قایم نہ رہ سکا اور ایک ایک کر کے سب گریاں کھا ڈالیں۔

دبئی ایئرپورٹ پر کتابوں کی صرف ایک بڑی دکان تھی، جس کا پتا مجھے ترکی اسکول کی پرنسپل نے دیا تھا۔ وہ نکّڑ پر کافی کی دکان کے بالکل سامنے تھی۔ کافی کا گلاس ہاتھ میں پکڑے میں نے کتابوں پر نظر دوڑائی۔ زیادہ تر کتابیں خواتین کے بارے میں تھیں۔ ملبوسات کے نئے ڈیزائن، آرایشِ حسن کرنے والی اشیاء، خصوصاً چہرے کے سِنگھار میں استعمال ہونے والی نئی ادویات کی تصویریں۔ کتابیں بہت سلیقے سے سجی تھیں۔ اُن کتابوں کے سرورق کی عبارتیں اِس قدر دلکش تھیں کہ میرے قدم وہیں پر جم گئے۔ ”مردوں کی خواتین کے لیے ناپسندیدہ حرکات“ کا سرورق ہی اتنا ورغلانے والا تھا کہ میں جھٹ کتاب نِکال کر ورق گردانی کرنے لگا۔ ایک باب پڑھتے ہوے یہ بھی ہوش نہ رہا کہ میں نے کافی کا گلاس کُوڑے دان میں پھینکنے کی بجائے فرش پر لُڑھکا دیا۔ مختصر جملوں پر مشتمل تحریر کُچھ اِس طرح تھی:

ہر عورت کو ماں نہ سمجھو۔

ہر عورت کی چھاتیوں پر سر رکھنے کی خواہش نہ کرو۔

ہر عورت کے سامنے ناک میں انگلیاں نہ پھیرو۔

ہر عورت کے موٹاپے کا ذِکر ہر وقت نہ کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔

تلچھٹ میں بچی ٹھنڈی کافی کو بائیں طرف کُوڑے دان میں پھینکنے کے لیے جیسے ہی میں جھُکا، مجھے زنانہ پاؤں نظر آئے۔ یہ اتنے بڑے اور لمبے تھے کہ چہرہ دیکھنے کی خواہش میں اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔ اُس کا اوپر والا حصہ اور چہرہ اِتنے پھیلے ہوے تھے کہ میرے سر کی ایک جنبش میں نہ سمائے گئے۔ اُس کی نظریں ہاتھ میں تھامی اُس کتاب پر گڑی تھیں جس کا عنوان یہ تھا:

”مردوں کو برہم کرنے والی نِسوانی عادات۔“

”یوں لگتا ہے کہ آپ کا دھیان کہیں اور تھا۔“ اُس نے میرے گندے گلاس کو کُوڑے دان میں پھینکا اور میری طرف دیکھنے لگی۔

”معذرت۔“ میں نے کہا۔

وہ خاتون برق آہنگ تو نہیں تھی لیکن اُس کے چہرے پر خوبصورتی، معصومیت کے روپ میں، بکھری تھی۔ نیلی آنکھیں حیران کن تھیں۔ نیلا رنگ اِس قدر گہرا کہ یقین نہیں آتا تھا کہ وہ دیکھ بھی سکتی ہے یا نہیں؟ میں گھبرانے کی حد تک حیرت زدہ تھا۔

اُس نے میرے ہاتھ سے کتاب لے کر اپنی لمبی انگلیوں میں مضبوطی سے پکڑ لی۔

میں نے بغیر سوچے اُسے کافی پینے کی دعوت دے ڈالی۔

”آپ تو کیپو چینو کافی پییں گے، اور محترمہ، آپ کے لیے؟“ ویٹر نے مسکراتے ہوے پوچھا۔

”بغیر دودھ اور شکّر کے۔“

”آپ کی آنکھیں اِس قدر نیلی…“

”ہاں، جیہان نام ہے میرا۔ میری ماں کو بتایا گیا تھا کہ حمل برقرار رکھنے کے لیے ساتواں مہینہ چڑھتے ہی ڈوبتے سورج سے ذرا پہلے سات دفعہ دریائے نیل میں سر گیلا کرنا ہو گا۔ مگر یہ بھی ضروری تھا کہ میرا باپ آنکھوں پر پٹّی باندھے وہاں موجود رہے۔ فرعونوں کے دور سے یہ ٹونا آزمایا جاتا رہا ہے۔ میری ماں کا خیال تھا کہ ساتویں باری سے پہلے ہی میرے باپ نے آنکھوں سے پٹّی ہٹا کر اُسے تکنا شروع کر دیا تھا۔ ٹونا ٹھیک نہ پورا کرنے کی پاداش میں میری آنکھیں اِتنی گہری نیلی ہوئی تھیں۔ لیکن عجیب اِتفاق ہے کہ جو کتاب میں پڑھ رہی تھی اُس میں یہ ہدایت درج تھی کہ عورت کے نہاتے وقت اگر مرد اپنی آنکھوں پر پٹّی باندھے موجود رہے تو اُس کی متخیّلہ تاک ہو جاتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟“

”مجھے اِس کا علم نہیں، اور میں نے ابھی تک کسی عورت کو ننگا نہیں دیکھا۔ آپ کی منزل؟“

”میں امریکہ سے یہاں اپنی بہن کو ملنے آئی تھی اور اب مصر جارہی ہوں۔“

”امریکہ میں کہاں رہتی ہیں آپ؟“

”رہتی تھی، اور شاید اب واپس نہیں جاؤں گی۔ میرا خاوند تیل کمپنی میں ملازم تھا۔ میری گہری نیلی آنکھوں پر مرمِٹا تھا۔ تب میں ایسی تو نہیں تھی۔ میں واحد جسم کی عورت تھی۔ دوسری دفعہ پیٹ گرنے کے بعد میرا جسم اِتنا پھولا کہ میرے امریکی یار خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔“

”آپ نے فرعونی ٹونا کیوں نہیں کیا؟“

”اُس کا دِل جو مُجھ سے ہٹ گیا تھا۔“

ویٹر پاکستانی تھا۔ گھر سے کافی عرصہ دور رہنے سے اُس کا دل پسیج گیا تھا اور وہ ہمیں کافی کے کئی گلاس پلا چکنے کے بعد اور بھی لانے پر مُصِر تھا۔ سچ پوچھیں تو مُجھے انکار کرنے کا ہوش ہی کہاں رہا تھا۔ میں مُسلسل جیہان کی آنکھوں سے پھول چُنتا رہا۔ پلک جھپکنے کی نہ تو فرصت تھی اور نہ ہی خواہش۔ لمحات پھر بھی تیزی سے گزر رہے تھے۔

”گزرتے وقت کو کوئی روک سکتا ہے؟“

”آپ نے مجھ سے کچھ پوچھا؟“

”نہیں، یہ سوال تو میں کہانی کے بیانیے کو آسان کرنے کے لیے پوچھ رہا ہوں۔“

جیہان نے اپنی آنکھیں جھپکائیں اور ہنستے ہوے بولی:

”تم نہیں جانتے۔ یار شوہر نے میرے موٹاپے سے دولت حاصل کرنا چاہی تھی۔ میں نے گنیز کتاب کا ریکارڈ توڑنے کے لیے ایک ہزار ایک جرسیاں پہن ڈالیں۔ جب میرا موٹاپا اُسے دولت مند نہ بنا سکا تو وہ آنکھیں پھیر کے چل دیا۔ عجب بات ہے نا؟“

میرے ذہن میں یہ شک تک نہ گزرا کہ جیہان کا یار شوہر وہ امریکی ہوسکتا تھا جو مجھے ہوائی جہاز میں ملا تھا۔ ہو سکتا تھا وہ بھی وہاں موجود ہو۔

ہم نے آنکھوں میں سحرکردی۔ اچانک چاروں طرف سے بھِنبِھناتی آوازوں کا شور بلند ہؤا۔

”جیہان اور جواد فوراً گیٹ نمبر۳۲ اور ۴۲ پر پہنچیں۔“

جیہان اپنے کھُلے بیگ کو بند کرنے لگی تھی اور مجھے مضبوط پہیوں والا بیگ نظر نہیں آرہا تھا۔

”جیہان اور جواد کو یہ آخری تنبیہ کی جارہی ہے۔“

وہ اٹھی اور تیز تیز چلنے لگی۔ میں اُس کے پیچھے بھاگنے لگا۔

”رُک جاؤ جیہان۔ ہم دو علحٰدہ منزلوں کو ایک کر لیتے ہیں۔ میں تمہارے ساتھ دریائے نیل پر جاؤں گا۔ آنکھوں سے پٹّی بالکل نہیں اُتاروں گا۔ میں تمہارے دوہرے جسم اور گہری نیلی آنکھوں کو اپنے آپ سے کبھی جدا نہیں کرسکوں گا۔ میں احتجاجی مظاہروں میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔“

میں ہانپنے لگا تھا۔ وہ مجھ سے آگے نکل گئی تھی۔ اچانک میری آنکھوں کے سامنے نیلے آسمان کی طرف ایک جہاز فِضا میں بلند ہؤا۔

فنّی خرابی نے میرے ہوائی جہاز کی روانگی میں تاخیر کردی۔ میں تھکے ماندے اور ہارے شخص کی طرح واپس کافی کی دُکان پر پہنچا۔ پاکستانی ویٹر اپنی شِفٹ کے اوقات پورے کر کے واپس جانے کو تھا۔ میری خواہش تھی کہ اُسے روک کر جیہان کی جدائی کا ذِکر کروں۔ مگر ہمت نہ بندھی۔ وہ جاتے ہوے دوسرے ویٹر کو میرا خیال رکھنے کی تاکید کر گیا۔

”کیپو چینو کافی جناب۔“ کافی کی پیالی رکھتے ہوے نئے ویٹر نے کہا

”اب اور کافی پینے کی طلب نہیں رہی۔“ مگر اُس نے اصرار کیا۔ وہ لہجے سے عربی لگتا تھا۔

”میں مصری ہوں اور یہاں کافی عرصے سے ملازم ہوں۔ اور وہ پاکستانی ویٹر امجد اور میں اِکٹھے رہتے ہیں۔ آپ اتنے اُداس نظر آتے ہیں، جیسے کچھ کھو گیا ہو۔“

”ہاں، لیکن یہ معاملہ عجب ہے۔ کچھ پانے سے پہلے سب کُچھ لُٹا بیٹھا ہوں۔“

”ایساکیسے ہؤا، جناب؟“

”تم جیہان کو جانتے ہو؟ وہ بھی تو مصری ہے۔“ اُمید کتنی دور کی سہی پھر بھی میں پوچھ بیٹھا۔

”نام تو واقعی مصریوں والا ہے۔ آپ میری طرف سے عربی لال قہوہ پییں۔ عرب کی قدیم روایت ہے کہ ہر غم کے اثر کو زایل کرنے کے لیے اس کے دو پیالے یکے بعد دیگرے پینے ہوتے ہیں۔“ وہ لال قہوے کا دوسرا پیالہ لے آیا، میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا اور سرگوشی کرتے ہوے یہ انکشاف کیا کہ اس کے علاقے میں، جہاں سے اہرامِ مِصر صاف نظر آتے ہیں، ایک لڑکی تھی جس کا نام جیہان تھا، مگر وہ تو کب کی امریکہ جابسی۔

”میرے سارے شریر میں ویسی لہر اُٹھی جیسی کافی عرصہ پہلے بسنت کی رات دو کوٹھے چھوڑ کر تیسرے غیر ملحقہ کوٹھے پر حلیف کی پتنگ کاٹنے کی خوشی میں کلاشن کوف رائیفل کی گولی میرے کان کو ذرا چھوتی ہوئی سامنے والی دیوار میں جادھنسی تھی۔ گولی کی خرخراہٹ کی دہشت اور بچ جانے کی خوشی نے جو سنسنی چھوڑی تھی، آج بھی ویسی کیفیت تھی۔

”کیا اُس کی آنکھیں گہری نیلی تھیں؟“

”دریائے نیل کے کنارے پر بسنے والوں کی آنکھوں کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔“

میرے ذہن میں کئی طرح کے وسوسے اُٹھ رہے تھے۔ ویسے تھوڑی دیر پہلے دوسری ملاقات بعیدالقیاس لگ رہی تھی۔

ویزے کا حصول فوراً ممکن نہیں تھا۔ مِصری سفارتکار اپنے ملک کی صورتِ حال کو پُرخطر بتا رہے تھے۔ ویسے بھی یہ حالات سیاحت کے لیے تو قطعاً سازگار نہیں تھے۔

لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل نے مجھے ”عرب سرکشی“ کے موضوع پر مباحثے کی رہبری کرنے کو کہا۔ اس کام کی اُجرت تو معقول نہیں تھی، مگر عربوں کی مختصر رفاقت نے ہاں کہنے پر راغب کیا۔

میرے پروگراموں کے اکثر مہمانوں کی معلومات ہی نہیں بلکہ تجزیوں کی بنیاد بھی انٹرنیٹ تھا۔ ایک مہمان نے، جن کو خصوصی طور پروگرام میں شامل کیا گیا، طوطے کی طرح رٹ لگائی کہ القاعدہ صرف ایک مذہبی شدّت پسند جماعت ہے جب کہ میں اُن کی توجہ اِس جماعت کے سیاسی اہداف کی طرف دِلا رہا تھا۔ مگر وہ انتہائی کمزور دلایل کے ساتھ ڈٹے رہے۔ بحث کا رُخ موڑ کر، اُن پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے، جب میں نے یہ انکشاف کیا کہ یمن میں طلوعِ اسلام سے بہت پہلے کا ایک گاؤں ایسا ہے جس کا نام بھی القاعدہ ہے تو وہ صاحب برہمی کا اظہار کرتے ہوے پروگرام سے باہر نِکل گئے۔ بعد میں ایک مہمان نے بتایا کہ وہ صاحب بااثر لوگوں کے وظیفے پر ہیں اور ایک دی ہوئی سمت کی تعمیل بجا لاتے ہیں۔

میرا پروگرام بغیر وجہ کے بند کر وا دیا گیا لیکن فوراً ہی ایک اور آزاد چینل نے حالات کو جانچنے اور روزانہ کی رپورٹ بھیجنے کی خاطر دو ہفتوں کے لیے مجھے مصر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

وہاں جیہان کو ڈھونڈنا میرا اوّلین مقصد تھا۔ مصری ویٹر کے بتائے پتے پر جاپہنچا۔ لیکن وہاں سارے علاقے کے گھروں پر تالے لگے مِلے۔ ہر گھر کے تمام افراد تحریر چوک پر سفری خیموں میں مقیم تھے۔ وہاں پر کمال نظم و ضبط دیکھنے میں آیا۔ ایثار کے معنوں کو ایسے پہلی دفعہ ظاہر ہوتے دیکھا۔ ایک بھوکا اپنے مُنہ کا نوالا دوسرے بھوکے کو زبردستی کھِلاتا۔ میں جتنی بھی کوشش کروں اس بے مثال جذبے کو بیان نہیں کر پاؤں گا۔ یقین کریں، میرا جیہان پر دھیان بھی کم ہو نے لگا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہؤا کہ میں پہلی دفعہ سر اُٹھائے لوگوں میں شامل ہو گیاتھا۔ وہاں عربی نہ بولنے کا عُذر باقی نہ رہا۔ میں نے اپنی رپورٹوں میں ظلم ڈھانے والوں سے زیادہ اُس کے سہنے والوں کے بارے میں لکھا۔

دو ہفتے گزرنے کا احساس تب ہؤا جب میں گھوڑوں کے کُھروں کے تلے روندے گئے ایک زخمی کو پانی پلا رہا تھا۔ اُس نے نحیف آواز میں تاریخ جاننا چاہی۔ میرے وہاں رہنے کی بھی وہ آخری تاریخ تھی۔ مجھے تب بھی اس کا احساس نہ رہا کیوں کہ زخمی مصری اُس دن ایک رات پہلے تحریر چوک میں مرنے والی بہن کے جنازے میں شامل ہونا چاہتا تھا۔

تحریر چوک میں موجود رہنے کی پابندی کی وجہ سے مرگ والے گھر میں کم سوگوار نظر آئے۔

وہاں سے واپس جاتی عبایا پہنے دو خواتین میں سے ایک نے جیسے ہی مُڑ کر میری طرف دیکھا میں بے ساختہ چلّایا:

”جیہان۔“

”میں خوش ہوں تم ہماری مزاحمت میں شامل ہوے۔“

میری مدھّم ہوتی، جیہان کی اُبھرتی ہوئی بلند آوازوں کے ٹکراؤ سے جو گونج اُٹھی، درختوں پر بیٹھے چھوٹے اور بڑے پرندوں نے خوف سے پھڑپھڑاتے ہوے نیلگوں آسمان کی طرف اُڑان بھری۔