گورکھ دھندے کی جانب سفر

یہ تحریر 1002 مرتبہ دیکھی گئی

ربّ اک گورکھ دھندا / کھولن لگیاں پیچ ایس دے کافر ہو جائے بندہ … معلوم نہیں کس نےکہا ہے مگر گزشتہ دنوں یہ شعر مجھے بہت ہانٹ کرتا رہا-اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس عمر تک پہنچ کر یوں لگتا ہے رب کو تو ہم کیا سمجھ سکتے، خود اپنی زندگی کو بھی نہیں سمجھ سکے کہ یہ بھی ہمارے لئے ایک گورکھ دھندا ہے، لا موجود سے موجود اور موجود سے لا موجود تک کا سفر ، ایک ایسی ڈور کہ جتنا سلجھاتے چلے جاؤ مزید الجھتی جائے- مگراس شعر کے یاد آنے کی فوری وجہ میری طبیعت کی اپچ ہوئی جو عام طور پر تبدیلئ موسم کے وقت ہوتی ہے– میرے خیال میں زندگی کا گورکھ دھندا ایک مقناطیسی کشش رکھتا ہے، انسان خود بہ خود تقدیر کے لکھے ہوئے راستے پر کھنچا چلا جاتا بقول انشآء ع کچے دھاگے سے چلے آئیں گےسرکار بندھے کیونکہ اپنا تو اختیار ہی نہیں ہے جیسا مولانا محمد حسین آزاد نے کہا ہے؀۔ جہاز عمر رواں پر سوار بیٹھے ہیں / سوار خاک ہیں بےاختیار بیٹھے ہیں جن جن جگہوں پر ہمارے لئے تقدیر نے راستہ بنایا ہے ہمارے قدم خود بخود وہیں پہنچ جاتے ہیں- ایسی منزل پر بھی جس کے بارے میں بھی سوچا بھی نہ ہو- باقی رہے نام اللہ کا-