گل گامیش کی داستان

یہ تحریر 1062 مرتبہ دیکھی گئی

(۳)

یہاں اتنا پشتیم کے مکالمے داستان پر لکھنے والے کی شعوری یا لا شعوری گرفت کو واضح کرتے ہیں۔ اتنا پشتیم کو چونکہ دوام حاصل ہے اس لیے اس کی گفتگو میں ایک بصیرت اور دانائی ہے۔ بڑے تحمل کے ساتھ اتنا پشتیم کائنات کے اسرار کے بارے میں نہایت بلیغ طریقے سے روشنی ڈال رہا ہے۔ ہر نقطے میں ایک رمز چھپی ہوئی ہے۔ وہ اسرار ہیں جن کی تلاش میں آدم کی اولاد آج تک خاک چھان رہی ہے۔زندگی، موت، موت کے بعد زندگی۔ انسان کو نفس مطمئنہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے یہ سب رموز ”گل گامیش کی داستان“ کے موضوعات ہیں، جن کی آفاقیت کا دائرہ تمام عالم کو اپنے ہالے میں لیے ہوئے ہے۔ گل گامیش،اتنا پشتیم، جسے دیوتاؤں نے دوام بخشا ہے، کی تقریر کے بعد اظہار خیال کرتا ہے۔

”تب گل گامیش نے اتنا پشتیم ساکن ماورا سے کہا:

اتنا پشتیم! میں تجھے دیکھتا ہوں

تومجھے تیری ظاہرا شکل و صورت اپنے سے مختلف نظر نہیں آتی

میرے جسم میں کوئی عجیب یا انوکھی بات نہیں ہے۔

میں نے سوچا تھا کہ تو بھی کوئی سورما ہوگا،در پے جنگ

مگر تو تو اپنی پیٹھ کے بل زمین پر آرام سے لیٹا ہے

سچ بتا، تو دیوتاؤں کے حلقے میں کیسے پہنچا

اور تجھے حیات ابدی کیسے ملی؟

اتنا پشتیم نے گل گامیش سے کہا:

میں سرِنہاں کو تجھ پر عیاں کروں گا

اور دیوتاؤں کا ایک راز تجھے بتاؤں گا۔“

(سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۹۰)

داستان کا پانچواں حصہ سیلاب عظیم سے متعلق ہے جسے دیوتاؤں نے نازل کیا اور اہل زمین پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا۔اسی سیلاب کے عذاب سہنے کے بعد اتنا پشتیم کو حیات ابدی ملی تھی۔ سیلاب کا پس منظر جاننے کے لیے گل گامیش کا اقتباس جس کا سیاق انسانوں کی بہتات سے متعلق دیوتاؤں کی برہمی ہے۔یہاں پر آبادی کے بڑھنے سے متعلق دیوتاؤں کی پریشانی آج کل کے محکمہ بہبود آبادی کی یاد دلاتا ہے کہ اگر آبادی زیادہ ہوگئی تو کائناتی امن پامال ہو کر رہ جائے گا۔ یہ سومیری تہذیب کی داستان ہے جس کی پرچھائیاں آج کی زندگی میں بھی محسوس کی جا سکتی ہیں۔

”ان لیل نے یہ ہنگامہ سنا

تو دیوتاؤں کی مجلس شوریٰ سے کہا:

”بنی نوع انسان کا شور وغل برداشت سے باہر ہو گیاہے

اور ان کی بکواس کے باعث سونا محال ہے“

پس دیوتاؤں کے دل میں سیلاب کا خیال آیا

لیکن میرے آقا ایا نے مجھے خواب میں خبردار کردیا

اس نے دیوتاؤں کی باتیں چپکے سے میرے جھاؤ کے گھر کو بتا دیں

جھاؤ کے گھر، جھاؤکے گھر۔“

(سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۹۱)

ایا دیوتا کی ان باتوں میں لافانی حیات کا رازہے۔ اسلامی مکتبہئ فکر کی بعض شقوں میں خاص طور پر تصوف کے رو سے دنیا کو تیاگنے کافلسفہ ایا دیوتا کے ان فرمودات سے متعلق ہے۔ ایا اتنا پشتیم سے کہتا ہے:

”اوشرو پاک کے انسان، یو بارا تُو تُو کی اولاد!

اس گھر کو ڈھا دے اور ایک کشتی بنا،

اپنے اثاثے اور املاک سے کنارہ کش ہو جا

اور اپنی جان کی فکر کر،

دنیا وی چیزوں کوحقیر سمجھ

اور اپنی روح کو موت سے بچا

اپنا مکان مسمار کردے

اور میں کہتا ہوں کہ ایک کشتی بنا۔“

(سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۹۱)

ایک بات بڑی اہم کہی گئی ہے کہ اپنی روح کو موت سے بچا۔ یعنی جسم کی موت سے روح کی موت زیادہ بھیانک ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی روح کی بقا کی جنگ لڑنی چاہیے۔روح کی بقاہی حیات ابدی کی ضمانت ہے۔ سیلاب عظیم کے بعد ان لیل اس جہاز پر آتا ہے جس پر اتنا پشتیم سوارہے۔

”اس نے مجھے اور میری بیوی کو ہاتھ سے پکڑا

اور جہاز کے اندر لے گیا

خود درمیان میں کھڑا ہوااور ہمیں اپنے دائیں بائیں

رکوع میں جانے کا حکم دیا۔

اس نے ہماری پیشانی چھوئی

اور ہمیں برکت دی:

”ماضی میں اتنا پشتیم ایک فانی انسان تھا

آئندہ وہ اور اس کی بیوی یہاں سے دو دریاؤں کے دہانے پر رہیں گے“

پس دیوتاؤں نے مجھے اپنی پناہ میں لیا

اور اس دور دراز مقام پر،

دریاؤں کے دہانے پر، رہنے کا حکم دیا۔“

  (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۹۸)

داستان کا چھٹا حصہ گل گامیش کی عروق مراجعت سے متعلق ہے۔اتنا پشتیم گل گامیش کے حیاتِ ابدی حاصل کرنے کے حوالے سے ایک آزمائش دیتا ہے کہ تجھے چھ راتیں اور سات دن جاگنا ہوگا۔گل گامیش کولھے کے بل آرام کر رہا تھا کہ اسے نیند آگئی۔ اتنا پشتیم اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ذرا اس کو دیکھ یہ مردِ قوی حیاتِ ابدی کا طلب گار تھا مگر اس پر نیند کی دھندابھی سے لہرا رہی ہے۔ اس کی بیوی جواب دیتی ہے کہ اسے جگا دوتاکہ اپنے گھر کی راہ لے۔اتنا پشتیم بیوی سے کہتا ہے کہ بس تو روز اس کے سرہانے روٹی پکا کر رکھ دیا کر اور دیوار پر ایک نشان لگا دیا کر۔ یہاں حساب کا قدیم طریقہ بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔گل گامیش جب جاگتا ہے تو کہتا ہے کہ بس آنکھ لگ گئی جس پر اسے بتایا جاتا ہے کہ تو اتنے دن سویا کہ تیرے سرہانے رکھی ہوئی روٹیوں کی شکلیں بدل گئی ہیں وہ بالترتیب پتھر، چمڑے،سیلن، پھپھوندی اور سبزی مائل ہیں جب کہ چھٹی تازہ اور ساتویں چولھے پرہے۔ یہاں وقت کی پیمائش کا منفرد اسلوب دیکھنے کو ملتا ہے۔ غرض گل گامیش مطلوبہ ریاضت نہیں کرسکتا اور اسے سمند ر کے راستے واپس جانا پڑتا ہے۔ ارشہ، اتنا پشتیم کے عتاب کا نشانہ بنتا ہے۔ گل گامیش جانوروں کی کھال کا لباس اتار کر غسل کرتا ہے۔ اتنے میں اتنا پشتیم کی بیوی اس سے کہتی ہے کہ اتنی مشکلوں کے بعد ہم تک پہنچا ہے۔ اس لیے کچھ تو ایسا عطا کردو کہ اسے یاد رہے۔ اتنا پشتیم راضی ہو جاتا ہے۔

”گل گامیش! تو یہاں تھکا ماندہ آیا تھا،

اب میں تجھے کیا چیز دوں

جسے دے کر تو اپنے دیس کو جائے

گل گامیش! میں ایک خفیہ بات تجھ پر ظاہر کرتا ہوں

اور یہ اسرارخداوندی ہے جو میں تجھے بتاؤں گا:

 ایک بوٹا ہے جو پانی کے اندر اگتا ہے

وہ گلاب کی مانند خار دار ہے

وہ تیری انگلیوں کو لہو لہان کر دے گا

لیکن تو اس بوٹے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے

تو تیرے ہاتھوں میں وہ شے ہوگی

جس سے انسان کا شباب رفتہ لوٹ آتاہے۔“

    (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۲۰۲)

گل گامیش نے پاؤں میں بھاری پتھر باندھے اور پانی کی تہہ میں اتر گیااور وہ بوٹا حاصل کر لیا۔گل گامیش نے سوچا کہ میں اسے عروق کے بوڑھوں کو دوں گا اور ان کی جوانی واپس آ جائے گی یعنی شباب اور اسے بعد میں خود بھی استعمال کروں گا۔شباب کی ہمیشگی کی خواہش بھی فرد کے باطن میں رکھ دی گئی ہے مگر تقدیر کے اپنے کھیل ہیں۔ بوٹا گل گامیش کے پاس نہیں رہتا۔

”گل گامیش نے ٹھنڈے پانی کی ایک باؤلی دیکھی

تو اس میں اترا اور نہانے لگا

باؤلی میں ایک سانپ رہتا تھا

اس نے پھول کی میٹھی خوشبوسونگھ لی

وہ پانی سے نکلا اور پودے کو ہڑپ کرگیا۔

فوراً ہی اس نے اپنی کیچلی اتاردی

اور باؤلی میں واپس چلا گیا۔“

(سید سبط حسن،۱۹۶۲:۰۳ ۲)

گل گامیش آہ و زاری کرتا ہے اور دکھوں سے چور چور عروق واپس آجاتا ہے۔

داستان کا ساتواں اور آخری حصہ آقائے کلاب گل گامیش کی موت کا احوال ہے۔ہم نے دیکھا، اتنے کشٹ کاٹنے کے بعد بھی گل گامیش کو بقا حاصل نہیں ہو سکی۔ وہی ہوا جو آج تک انسانوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ علامتی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک سبق ہے کہ تم خواہ کتنے بڑے سورما بن جاؤ تمھیں مرنا ہوگا۔یہ وہ مرحلہ ہے جس پرسے سبھی کو بلا تخصیص رنگ و نسل، مقام و مرتبہ گزرناہے۔ ایسا نہیں کہ بادشاہ بن گئے ہوتو موت نہیں آئے گی اگر کہیں دوام ہے تو خدائے پاک کی ذات یا اس کی مقرب ہستیوں کو مگر ہم اس حیات دائمی کا شعور نہیں رکھتے۔

”دیوتاؤں کے دیوتا، ان لیل کو ہستانی نے

گل گامیش کی جو تقدیر لکھی تھی

وہ پوری ہوئی

”پاتال کا اندھیرا“ اسے روشنی دکھائے گا۔

پشتہا پشت تک نسلِ انسانی اس کی یادگار کا جواب نہ پیش کر سکے گی

نئے چاند کی مانندسورماؤں اور دانشمندوں کی تقدیر میں بھی

عروج اور زوال لکھا ہوتا ہے۔

مگر دنیا والے کہیں گے:

کون ہے جس نے گل گامیش کی مانند

طاقت اور جبروت سے حکومت کی؟“

    (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۲۰۴-۲۰۵)

یہ تمام خوبیاں گل گامیش کی مطلق العنانی کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ کتنا بڑا شہ زادہ تھا۔ مراد یہ کہ تم جو کچھ بھی بن جاؤدوام صرف موت ہی کوہے۔ گل گامیش نہیں ہے تو:

”اس کے بغیر روشنی گم ہے،

جیسے اندھیری راتوں میں،

پرچھائیوں کے مہینے میں

گل گامیش تیرے خواب کی تعبیر یہی تھی

تیری تقدیر میں بادشاہی لکھی تھی

مگر حیات ابدی تیری قسمت میں نہیں تھی۔

اور پھر علالت کے بعد

”اور یوں ہوا کہ انھیں دنوں گل گامیش نن سون کا بیٹاکوچ کر گیا

بے نظیر بادشاہ، جس کا انسانوں میں جواب نہ تھا

جس نے اپنے آقا ان لیل کو فراموش نہ کیا۔

ستائش بے حساب گل گامیش آقائے کلاب کی۔“                                          

  (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۲۰۸) ۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/