کیا بتائیں کہ ہم پہ کیا گزری

یہ تحریر 562 مرتبہ دیکھی گئی

بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ہر آدمی، جو آسانی سے لکھ پڑھ سکتا ہو، آپ بیتی قلم بند کر سکتا ہے۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب کوئی اپنی زندگی کی روداد کتابی صورت میں لکھنے کا تہیہ کر لے۔ کتنا دکھایا جائے، کتنا چھپایا جائے، کتنا سچ بولنا چاہیے اور کتنا جھوٹ، یہ تعین کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ آخر ہر زندگی ایک نوع کا فکشن ہے جس کا گہرا تعلق ماضی سے ہے۔ بعض ہنر مند جھوٹ بھی اس طرح لکھ سکتے ہیں کہ اس پر سچ کا گمان ہو۔ کبھی کبھار ان کی دروغ گوئی کا پول کُھل بھی جاتا ہے۔
مہر عبدالحق کی داستانِ حیات خاصی دل چسپ ہے اور اگر اسے پاکستان کے تعلیمی نظام کے روز افزوں زوال کا بیان سمجھا جائے تو کبھی الم ناک اور کبھی مضحکہ خیز معلوم ہونے لگتا ہے۔ تعلیمی نظام کے بگاڑ کی طرف وہی صحیح توجہ دلا سکتا ہے جو خود بھی استاد رہا ہو۔ مہر عبدالحق کی زندگی کی داستان تعلیم کے شعبے سے طویل وابستگی اور تحقیق سے عبارت ہے۔ انھوں نے سرائیکی زبان کی انفرادیت پر زور دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اردو کی ابتدا کا کھوج لگانا ہو تو سرائیکی کی طرف مڑ کر دیکھنا ضروری ہے۔
عبدالحق نے اپنا تعلق سومرا خاندان سے بتایا ہے اور پھر پرانی عراقی تہذیب، سُمیر، کا رشتہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں آباد سومرو قبائل سے جوڑا ہے۔ اس موضوع پر انھوں نے انگریزی میں ایک کتاب بھی لکھی ہے جو میری نظر سے نہیں گزری۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب اور عراق کی سمیری تہذیب کے درمیان تجارتی روابط تھے اور شاید کسی طرح کی مذہبی اور معاشرتی ہم آہنگی بھی موجود ہو۔ افسوس کہ وادیِ سندھ میں مروج قدیم رسم الخط ابھی تک پڑھا نہیں جا سکا اور پڑھ بھی لیا جائے تو کوئی مربوط عبارت نہ مل سکے گی۔ بہرصورت، عبدالحق صاحب کا یہ نظریہ ایسا نہیں کہ غور کیے بغیر اسے بالائے طاق رکھ دیا جائے۔
بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان کے خاندان کے پاس بہت زمینیں تھیں لیکن آبا و اجداد آخر بین ثابت نہ ہوئے، عیاشیوں اور لہو و لعب اور باہمی جھگڑوں میں پڑے رہے، اور اپنی بلند حیثیت کھو بیٹھے۔ ان کے والد، جو 1882ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے تھے، عہد طفلی ہی میں یتیم ہو گئے تھے۔ اس وقت بیشتر ملکیت بک چکی تھی۔ ان کے حصے میں بس ایک کنواں، 45 ایکڑ رقبہ، کچھ دریابرد اراضی، ایک کچا مکان اور ریگستان کے چند ناقابل کاشت علاقے آئے۔ والد نے لوئر مڈل اور پٹوار کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ اس لیے نمبردار کا عہدہ مل گیا۔ مالیے کی وصولی نمبردار کے ذمے ہوتی ہے۔ عبدالحق لکھتے ہیں: “میرے اندر کے شخص نے دولت، سرمایہ داری، ملوکیت، حاکمیت اور ملکیتوں کے خلاف بچپن ہی سے جو بغاوت کر رکھی ہے وہ اسی خاندان کے نامساعد حالات کے اسباب و علل پر غور و فکر کا نتیجہ ہے۔”
والد کو تعلیم کی اہمیت کا احساس تھا۔ اس لیے انھوں نے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ پانچ سال کی عمر میں گھڑسواری بھی سیکھ لی تھی۔ عبدالحق نے سکول میں پڑھنے والوں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک جو امتحانات میں اول اور دوم آتے ہیں، ذہین اور زود فہم ہوتے ہیں۔ دوسرا طبقہ متوسط سطح کا ہوتا ہے۔ محنتی لیکن تیز فہم نہیں ہوتا اور اپج سے محروم۔ آخر میں سب سے پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے جو شرارتوں میں پیش پیش رہتے ہیں اور لکھائی پڑھائی میں پھسڈی۔ لطیفہ یہ ہے کہ، بقول عبدالحق، انگلستان کے کسی تعلیمی ادارے کے سربراہ نے ریٹائر ہوتے وقت اپنے جانشین سے کہا کہ پہلے طبقے کو ہر طرح کی تعلیمی سہولتیں بہم پہنچانا کیوں کہ انھیں میں سے بڑے سائنس داں، موجد اور مفکر سامنے آئیں گے۔ متوسط طبقے کو خوش رکھنا کہ یہ تاجر اور صنعت کار بنیں گے۔ پچھلی نشستوں کے طلبا پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ یہی مستقبل کے وزرا ہیں۔ پاکستان کی حد تک تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔
سکول کے ایک ہم جماعت، ہنس راج، کا ذکر کیا ہے جس نے ایک ایسی ٹارچ ایجاد کی تھی جس کی روشنی ڈال کر لوگوں کو دیکھتے دیکھتے سُلا دیتا تھا۔ آگے لکھتے ہیں: “ان دنوں وائرلیس یا بے تار برقی کی ایجاد ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ بادشاہ جارج پنجم اور وائسرائے ہند کے درمیان کچھ اہم گفتگو ہو رہی تھی۔ میرے اس ساتھی نے اپنی وائرلیس ایجاد کے ذریعے یہ گفتگو فضا ہی سے کیچ کر لی اور دوسرے دن اخبارات میں شائع کر دی۔” بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: “تین سال بعد جب گرمی کی چھٹیوں میں ۔ ۔ ۔ میں بہاولپور سے لیہ آ رہا تھا۔ ریل گاڑی شیر شاہ ریلوے سٹیشن پر تبدیل کرنی پڑتی تھی۔ گھومتے پھرتے میری نظر پلیٹ فارم پر لگے ہوئے ایک بہت بڑے اشتہار پر جا پڑی جس پر میرے اس ہم جماعت کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ اشتہار حکومت کی طرف سے تھا اور لکھا تھا کہ جو کوئی ہنس راج وائرلیس کو زندہ یا مردہ گرفتار کرے گا اسے دس ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ جرم یہ تھا کہ اس نے کوئٹے میں بیٹھ کر وائرلیس کے ذریعے دہلی سے شملہ جانے والی سپیشل ٹرین کے ایک ڈبے کو بم سے اڑا دیا تھا۔ اس ڈبے میں وائسرائے سوار تھے۔ تاہم حسن اتفاق سے وہ بچ گئے۔” تاہم معلوم نہیں یہ نابغہء روزگار نوجوان کہاں گیا۔
ابتدائی زندگی کے بعض واقعے جو کتاب میں درج ہیں کم دل چسپ نہیں۔ ایک بزرگ، غلام حسن سہنواگ، عجیب کرامات کے مالک تھے۔ جس غیر مسلم کی طرف انگلی اٹھا دیتے وہ فوراً کلمہء طیبہ پڑھنے لگتا۔ ہندوؤں کو ان سے بڑی پرخاش تھی۔ ڈیرہ اسمٰعیل خاں میں کوئی ہندو کئی دفعہ مسلمان ہوا اور کئی دفع مرتد۔ آخر کسی نے اسے مار ڈالا۔ قاتل کا علم نہ ہو سکا۔ پولیس نے جان بوجھ کر حضرت سہنواگ کو قاتل قرار دے دیا۔ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس، سرشادی لالی، کے سامنے پیش ہوا جو سخت متعصب ہندو تھا۔ پیشی کے وقت عبدالحق اپنے چچا کے ساتھ عدالت میں موجود تھے۔ حضرت صاحب پر فردِ جرم عائد کی گئی۔ جس عہدے دار کو فردِ جرم سنانے کا حکم دیا گیا وہ چند قدم چل کر رہ گیا۔ ایک اور افسر کو حکم دیا گیا وہ بھی چند قدم سے آگے نہ بڑھ سکا۔ حکم ہوا کہ دور سے فرد جرم سنائی جائے۔ حضرت صاحب مراقبے میں تھے۔ مریدوں نے سوچا کہ اگر وہ خاموش رہے تو اقبالی مجرم قرار دیے جائیں گے۔ ان کے کسی خلیفہ نے جرات کرکے مراقبے میں خلل ڈالا۔ بیدار ہو کر انھوں نے جس غیرمسلم کی طرف انگلی اٹھائی وہ کلمہ پڑھنے لگا۔ جب سترہ غیر مسلموں کو مسلمان کر چکے تو شادی لالل سے فرمایا: تمھاری قسمت میں یہ سعادت نہیں ہے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ انگلی سے تمھاری طرف اشارہ ہو جائے لیکن تم محروم رہے۔ یہ واقعہ فی الاصل عجیب و غریب ہے اور عبدالحق اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ انگریزی اخباروں میں تو شاید رپورٹ نہ ہوا ہو لیکن اردو اخباروں میں اس کا ذکر ضرور آیا ہوگا۔
بہاولپور میں ایک مکان میں قیام کا ذکر ہے جو آسیب زدہ تھا۔ نظر تو کوئی نہ آتا تھا لیکن رات کو ٹھیک بارہ بجے سازوں پر کسی کے رقص کرنے کی آواز آنے لگتی تھی۔ یہ ناخواستہ محفلِ رقص و سرور کئی رات جاری رہی۔ آخر عبدالحق صاحب نے تنگ آ کر کہا کہ “میں یہاں پڑھنے آیا ہوں۔ چند مہینے کے لیے مجھے تنگ نہ کریں۔” اس کے بعد ناچنا گانا سننے میں نہیں آیا۔
جنوبی دور افتادہ علاقوں کی غربت کا احوال بھی ہے۔ سب سے زیادہ دل کو چھو لینے والا واقعہ درہء چھاچھڑ کا ہے جہاں ایک دس بارہ سال کے بلوچ لڑکے نے عبدالحق صاحب کی میزبانی کی۔ وہیں انھیں اور ان کے دوستوں کو ایک بوڑا ملا جس نے کہا کہ اس نے آج تک گندم کی روٹی نہیں کھائی۔ دور بیٹھ کر وہ کھانا تیار ہوتے دیکھ رہا تھا۔ جب اسے دعوتِ طعام دی گئی تو بہت خوش ہوا۔ تاہم ان علاقوں کی سیر سے جس پس ماندگی اور غربت اور سرکاری بے نیازی کا نقشہ سامنے آتا ہے وہ تکلیف دہ ہے۔
تعلیم کے دوران میں علامہ اقبال سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ عبدالحق صاحب نے “ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق” کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ لاہوریوں کے رویے سے خوش نہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہوا ہو۔ ظفر الاحسن صاحب کا ذکر ہے جو کمشنر تھے اور انھوں نے جس طرح عبدالحق کو بہت سی کتابیں فراہم کیں اور کہا کہ “جو شخص عالم کی قدر نہیں کرتا وہ انسان ہی نہیں” ناقابلِ فراموش ہے۔ یہی ظفر الاحسن تھے جنھیں بہت سے دوسرے سینیر افسران کی طرح ایوب خاں نے برطرف کر دیا تھا۔
یہ تبصرہ اگرچہ قدرے طویل ہو گیا ہے پھر بھی مختصر معلوم ہوتا ہے۔ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن بیان کو کہاں تک طول دیا جائے۔ کتاب پڑھنے کے لائق ہے اور اس کی قدر کی جانی چاہیے۔
آخر میں ایک اور بات جس سے بہتوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ عبدالحق لکھتے ہیں کہ 1934ء میں انھیں خونی بواسیر کا مرض لاحق ہوا۔ بہت علاج کیا۔ مطلق فائدہ نہ ہوا۔ رنگت بالکل زرد ہو گئی۔ 1947ء میں ایک ہندو سنیاسی ملا۔ اس نے پوچھا کہ تمھارا رنگ اتنا زرد کیوں ہے؟ عبدالحق صاحب نے اپنا مرض بتایا۔ سنیاسی نے کہا کہ میں تمھارا ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ علاج تمھیں بتائے دیتا ہوں۔ اگر چودہ دن تم نے یہ دوا کھائی تو اس بیماری سے عمر بھر کے لیے چھٹکارا پا لو گے۔ عبدالحق نے وہ نسخہ استعمال کیا اور تندرست ہو گئے۔ یہی نہیں، کہتے ہیں کہ سیکڑوں مریضوں کو اس “نامراد مرض” سے نجات دلا چکا ہے۔ نسخہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ آزمودہ اور بھلائی کی بات کی جتنی تشہیر ہو، اتنا ہی بہتر۔
“ریگستان یا خشک علاقے کی نر کھجور پر سے سوکھی سِپیاں اتار لو۔ سِپی وہ خوشا سا ہوتا ہے جس میں سے کھجور والی ٹہنی نکلتی ہے۔ ان سپیوں کو دھو کر خشک کر لو اور انگیٹھی میں جلا کر ان کی راکھ بنا لو۔ بس یہی دوائی ہے۔ تین انگلیوں کی چٹکی میں جتنی راکھ آ جائے نہار منھ پانی کے ساتھ کھا لو۔”
ایک طرفہ پہلو یہ ہے کہ کتابت کی زحمت نہیں کی۔ مصنف کی تحریر کا عکس لے کر چھاپ دیا ہے۔ گویا متن کاتب (یا اب تو کمپوزیٹر) کی چیرہ دستیوں سے بچا ہوا ہے۔
جو ہم پہ گزری از ڈاکٹر مہر عبدالحق
ناشر: کتاب نما، ملتان کینٹ
صفحات: 242؛ بارہ سو روپیے