لاہور کا ایک نیا شگوفہ

یہ تحریر 1432 مرتبہ دیکھی گئی

اردو ادب کے سمندر میں جرائد یا کتابی سلسلے بلبلوں کی طرح سطح پر نمودار ہوتے ہیں، کچھ دیر قائم رہتے ہیں اور پھر پھوٹ کر سمندر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ آنا جانا لگا رہتا ہے۔انسان بھی بلبلوں کی طرح ہیں۔بہر کیف، جرائد ہوں یا انسان، دنیا کا عکس تو ہمیں دکھا ہی جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں ادبی جرائد کو دوام مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ان کا دوام کسی نہ کسی شخصیت سے جڑا رہتا ہے۔ادھر وہ شخصیت دنیا سے رخصت ہوئی، ادھر رسالہ بھی ادبی منظر سے ناپید ہو گیا۔طفیل صاحب چلے گئے تو “نقوش” بھی افسانہ بن کر رہ گیا۔وزیر آغا صاحب رخصت ہوئے تو “اوراق ” بھی باقی نہ رہا۔قاسمی صاحب کامیابی سے “فنون ” شائع کرتے رہے۔سنا ہے “فنون “اب بھی گاہے گاہے شائع ہوتا ہے لیکن اس کا پہلے سا چرچا نہیں۔شاہد احمد دہلوی کے ساتھ “ساقی “بھی غائب ہو گیا۔جالبی صاحب اپنی زندگی میں ہی “نیا دور” سے دست بردار ہو گئے۔مشفق خواجہ نے بڑی دھوم دھام سے “تخلیقی ادب ” شائع کرنے کا آغاز کیا مگر چند شمارے چھاپنے کے بعد ان کی ہمت جواب دے گئی۔
چند مشہور نام گنا دیے ہیں۔پتا نہیں اور کتنے رسائل ہیں جو میدان میں اترے اور غائب ہو گئے۔امید افزا پہلو یہ ہے کہ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔انٹرنیٹ وغیرہ کی وجہ سے مقابلہ سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے لیکن ادبی جرائد کی ہمت کو داد دیجئے کہ اس بحر بے تمیزی میں ہاتھ پانوء مارتے ہی رہتے ہیں۔شاید یہ سوچتے ہوں کہ وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے۔
اظہر حسین اور بابر رياض نے “لاہور “کے عنوان سے ایک کتابی سلسلے کا آغاز کیا ہے جو بقول مدیران سال میں چار دفعہ شائع ہو گا۔دیکھتے ہیں کہ وعدہ نباہتے ہیں یا نہیں۔اظہر حسین سے میں واقف ہوں۔انہیں اردو کے علاوہ انگریزی بھی اچھی بھلی آتی ہے اور یہ بات اردو کے کم ادیبوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔بابر رياض کا نام میرے لئے نیا ہے۔اداریے میں کہا گیا ہے کہ “لاہور “دنیا کے مختلف علاقوں اور زبانوں کے فکشن اور نان فکشن تحریروں کو اردو میں منتقل کر کے پیش کرے گا۔نیت نیک ہے۔البتہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب مترجم کو ترجمہ کار کیوں کہا جانے لگا ہے۔
پہلے شمارے میں مارگریٹ ایٹ وڈ کے افسانے شامل ہیں۔اگلے شمارے میں ولیم فاکنر کی تحریروں کو جگہ دی جائے گی۔یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ آخر انگلستان اور امریکہ تک کیوں محدود رہے۔خود بھارت کی مختلف زبانوں میں ایک سے ایک اچھا افسانہ نگار موجود ہے۔افریقہ میں کتنے ہی افسانہ نگاروں نے انگریزی کو تخلیقی اظہار کے لیے چنا ہے۔ترکی، ایران، اسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے۔اغلب ہے کہ اس کتابی سلسلے کا زاویہء نظر بتدریج بدلے گا۔
طبع زاد افسانوں میں سلام بن رزاق اور رضوان الحق کی تحریریں شامل ہیں۔ان کا تعلق بھارت سے ہے۔مریم عرفان، شاہدہ صدف اور عامر رفیق کے افسانے بھی ہیں۔تینوں پاکستانی ہیں۔عامر رفیق اگر اپنی تکنیک، مافیہ اور انداز نظر کو وسعت دیں تو خاصے کامیاب افسانہ نگار بن سکتے ہیں۔ثمینہ کوثر انصاری کے خاکے سہل پسندی کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔اسے اپنی صلاحیت اس طرح ضائع نہ کرنی چاہیے۔اگر لکھنا ہی ہے تو افسانے لکھے۔
آٹھ افسانے پنجابی سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔یہ خوش آیند ہے۔لیکن اس حصے کا عنوان ہے “مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب کی منتخب کہانیاں۔”مغربی پنجاب کی اصطلاح مستعمل نہیں ہے۔اس طرح کی بے احتیاطی سے غلط تاثر پیدا ہو سکتا ہے۔سب سے اچھا افسانہ ہر جندر پال لدھڑ کا ہے۔طنز اور واقعیت نگاری پر ان کی گرفت قوی ہے۔افضل احسن رندھاوا اور مقصود ثاقب کے افسانے بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔افضل احسن رندھاوا پاکستان کے بڑے فکشن نگاروں میں شامل ہیں۔افسوس کہ ان کی اتنی قدر نہ کی گئی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔
پہلے شمارے کا انتساب “سویرا” اور “آج” کے نام ہے۔یہی کہہ سکتا ہوں کہ اظہر اور بابر کے کتابی سلسلے کو “سویرا” کی بے قاعدگی نصیب نہ ہو اور اسے “آج” کی طرح باقاعدگی کا شرف حاصل ہو۔
لاہور:کتابی سلسلہ۔ترتیب اظہر حسین اور بابر رياض
ناشر:اجوک پبلی کیشنز، لاہور۔
صفحات:208،تین سو چالیس روپیے