کہیں اوٹ میں

یہ تحریر 945 مرتبہ دیکھی گئی

[3]

(۴)

ابلہ فریبیوں اور افسانہ سازیوں سے قطع نظر، فرانز کافکا کی سیاسی دل چسپیوں کی جانب کوئی واضح اشارا نہیں ملتا۔ اس اعتبار سے یہ اپنے پراگ کے تمام حریفوں مثلاً میکس بروڈ،(۵) فرانز ورفل(۶)، ایغون ارون ِکش(۷) اور تمام قافلہ سالاروں __ (AVANT GARDES) سے جو تاریخ کی سمت کے جاننے کے دعوے دار تھے اور جو مستقبل کے چہرے کی جھلکیاں دکھانے میں مشغول تھے، مختلف تھا۔

آخر یہ سب کیسے ہوا کہ مذکورہ حضرات کی ادبی کاوشوں کے بجائے ان کے تنہا اور دروں بیں ساتھی کے ادبی کارنامے جو اپنی زندگی اور اپنے فن میں مستغرق تھا، آج عمرانی اور سیاسی پیش بینی کے حوالے سے تسلیم کیے جاتے ہیں اور اسی سبب سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں ان پر پابندی عائدہے؟

ایک دن اپنی ایک دیرینہ دوست کے یہاں ایک چھوٹے سے واقعے کا مشاہدہ کرنے کے بعد مجھے مذکورہ بالا حیران کن صورت حال پر غور کرنے کی تحریک ہوئی۔ ہوا یہ کہ ہماری خاتون دوست کو پراگ میں ۱۵۹۱ء میں ہونے والے اسٹالینی عدالتی تشدد کے دوران گرفتار کر لیاگیا تھا۔ اسے ان جرائم کی سزا دی گئی تھی جو اس سے سرزد ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت سیکڑوں اشتراکی ایسی ہی صورت حال سے دوچار تھے۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی اشتراکی پارٹی سے مشخص کر ڈالی تھی۔ جب یہ پارٹی اچانک ان کے خلاف مستغیث بن گئی تو جوزف K کے مانند انھوں نے اس بات کا تہیہ کر لیا کہ وہ اپنی تمام زندگی اور اپنے تمام ماضی کا اس کی تمام جزئی تفصیلات کے ساتھ جائزہ لیں تاکہ وہ اس غیر مرئی حدود شکنی کا کھوج لگا سکیں اور آخرکار اپنے خیالی جرم کا اعتراف کرلیں۔ میری دوست نے اپنی زندگی کے تحفظ کی ایک غیر معمولی صورت نکالی۔ اپنے ساتھیوں اور شاعر اے (A) کے برعکس اس میں ایسی غیرمعمولی جرأت تھی کہ اس نے اپنے نام نہاد جرم کا کھوج لگانے سے انکار کر دیا۔ اپنے ایذا رسانوں کی مدد سے انکار کے نتیجے میں اس کے آخری اور حتمی عدالتی مقدمے کے مظاہرے کی نوبت ہی نہ آئی یعنی پھانسی پانے کے بجائے اسے عمر قید کی سزا ہو گئی۔ چودہ برس بعد جاکر اسے رہائی نصیب ہوئی۔

جب یہ عورت قید ہوئی تھی تو اس کا بچہ ایک برس کا تھا۔ رہائی کے بعد وہ دوبارہ اپنے بچے سے، جو اب پندرہ برس کا ہو چکا تھا، آ ملی اور اس کی بعد سے اس کی منکسر تنہائی اس کے بچے کی ّمعیت میں بسر ہونے لگی۔ یہ بات بالکل واضح تھی کہ اسے اپنے بچے سے غیر معمولی لگاؤ ہے۔ ایک دن میں ان سے ملنے گیا۔ اس وقت اس کا بیٹا پچیس برس کا ہو چکا تھا۔ میں نے دیکھا ماں اپنے جذبات کو ٹھیس لگنے کے باعث رو رہی تھی۔ اس کا سبب حد درجہ معمولی تھا۔ دراصل اس کا بیٹا اپنے معمول سے کچھ زیادہ دیر تک سویا رہا تھا یا ایسی ہی کوئی اور معمولی سی وجہ ہوگی۔ میں نے اس کی ماں سے کہا: اتنی معمولی سی بات پر اس درجہ پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ معمولی سی بات آپ کو رلائے دے رہی ہے؟ کیا آپ بات کا بتنگڑ نہیں بنا رہیں؟

اس سے پہلے کہ ماں جواب دیتی اس کا بیٹا گویا ہوا: نہیں میری ماں بات کا بتنگڑ نہیں بنا رہی۔ میری ماں بہادر اور غیر معمولی عورت ہے۔ اس نے اس وقت مزاحمت کی جب سب ہتھیار ڈال چکے تھے۔ وہ چاہتی ہے کہ میں بھی اس کی تقلید میں سچا اور حقیقی مرد بنوں۔ اگرچہ میرا جرم محض اس قدر ہے کہ میں معمول سے ذرا زیادہ سویا ہوں لیکن میری ماں نے جس وجہ سے سرزنش کی ہے اس کے اسباب زیادہ گہرے ہیں۔ اس کا سبب میرا طرز عمل ہے__ میرا خود غرضانہ طرز عمل!! میں وہ کچھ بننا چاہتا ہوں جو میری ماں کی آرزو ہے اور آپ کو گواہ بناکر عہد کرتا ہوں کہ میں اس کی خواہش پر پورا اتروں گا۔

جس سانچے میں اشتراکی پارٹی اس عورت کو مجبور کر کے نہ ڈھال سکی، اس عورت نے اپنے بچے کو عین اس سانچے میں ڈھال لیا تھا! وہ اپنے بچے کو (لاشعوری طور پر) اس نقطے پر لے آئی تھی کہ وہ ایک احمقانہ الزام سے خود کو متہم اور مشخص کر لے__ یعنی اپنے ”جرم کو تلاش کرلے“ اور اس کا کھلے بندوں اعتراف کرلے۔ میں نے اس سب کچھ کو __ اس اسٹالینی عدالت اصغر کو __ عالم حیرت میں دیکھا اور یہ بات معاً میری سمجھ میں آگئی کہ وہ نفسیاتی طریقہ ہائے کار جو بظاہر ناقابل یقین اور غیر انسانی مگر اہم تاریخی واقعات کے پس پردہ کار فرما ہوتے ہیں وہی ہوتے ہیں جو بالکل عام اور قطعی انسانی اور نجی صورت حال کو متحرک کر رہے ہوتے ہیں!

(۵)

اس مشہور خط سے جو کافکا نے اپنے باپ کے نام لکھا تھا مگر اسے روانہ نہ کیا تھا، ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اپنے خاندان سے، اس تعلق سے جو بچے اور اس کے والدین کے دیوتا سمان جبروت کے مابین ہوتا ہے، اپنی اس تکنیک کو اخذ کیا جسے ”قابل مواخذہ بنانے کا عمل“ ”CULPABILIZATION“ کہا جاتا ہے اور جو اس کے افسانوی ادب کا مرکزی نکتہ بن گیا۔

اپنی کہانی ”فیصلہ“ ”The Judgement“ میں، جو مصنف کے اپنے خاندانی مشاہدات کے ساتھ گہرے طور پر گندھی ہوئی ہے، والد اپنے بیٹے کو ملزم گردانتا ہے اور اسے ڈوب مرنے کا حکم دیتا ہے۔ لڑکا اپنے ناکردہ جرم کو قبول کر لیتا ہے اور نہایت درجہ سادگی سے اپنے آپ کو دریا کی لہروں کے سپرد کر دیتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے بعد کے ناولوں میں اس کا جانشین، جوزف K ایک پراسرار تنظیم کی نشاندہی پر قتل ہونے کے لیے چل پڑتا ہے۔

کافکا کی ادبی کاوشوں میں ان دو الزامات اور قابل مواخذہ بنانے کے عمل کے مابین اور ان دو حادثہ ہاے قتل و خودکشی کے درمیان اس رشتے کا پتا چلتا ہے جو افرادِ خانہ کی نجی آمریت اور اس کے عظیم عمرانی تصورات کے مابین پایا جاتا ہے۔

مطلق العنان معاشرہ، خصوصاً اپنی زیادہ انتہا پسندانہ صورتوں میں پبلک اور پرائیویٹ کے مابین حد بندی کو ختم کرنے کا میلان رکھتا ہے۔ قوت جیسے جیسے زیادہ غیرواضح ہوتی جاتی ہے، اس کا تقاضا بڑھتا جاتا ہے کہ لوگوں کی نجی زندگیاں کلیتہً شفاف ہو کر (کھل کر) سامنے آجائیں۔ اسرار سے معرّیٰ زندگی کا نصب العین مثالی خاندان کے نصب العین سے موافقت رکھتا ہے۔ کسی شہری کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پارٹی یا ریاست سے کوئی بھی شے مخفی رکھے بالکل اسی طرح جیسے کسی بچے کو اپنے ماں باپ سے کوئی چیز چھپانے کا حق حاصل نہیں۔ مطلق العنان معاشرے اپنے پراپیگنڈے کے ذریعے بڑی دل کش مسکراہٹ کی تشہیر کرتے ہیں: وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ”ایک بڑے مگر واحد خاندان“ کی صورت میں دیکھاجائے۔

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کافکا کے ناول معاشرے اور فرد کے مابین تعلق کی پرجوش آرزو کے مظہر ہیں مثلاً بیچارے خانماں خراب K کی زندگی کا صرف ایک نصب العین ہے__ تنہائی کی لعنت پر غالب آنا۔ قصہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا تاویل نہ صرف پیش پا افتادہ ہے__ ایک ادھوری اور حقیر تاویل ہے بل کہ غلط ہے۔

زمین کا معائنہ کار K لوگوں سے تعلقات یا ان کی گرم جوشی کا ہرگز متمنی نہیں۔ وہ سارتر(۸) کے اور سطس(۹) کی طرح ”افراد کے مابین ایک فرد“ بننے کے لیے کوشاں نہیں۔ وہ کسی معاشرے سے نہیں بلکہ کسی ادارے کے لیے قابل قبول ہونے کا متمنی ہے۔ اس نصب العین کے حصول کے لیے اسے بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی__ اسے اپنی تنہائی کو تج دینا ہو گا اور یہی اصلاً اس کا جہنم ہے۔ وہ کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ ”قلعے“ سے بھیجے گئے دو معاون ہمیشہ سائے کی طرح اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ جب وہ پہلی دفعہ فریدہ کے ساتھ محو محبت ہوتاہے، یہ دونوں حضرات ان دو چاہنے والوں پر کیفے کے کاؤنٹر کے پاس نگاہیں لگائے کھڑے نظر آتے ہیں اور اس کے بعد وہ ان کے بستر سے کبھی دور نہیں رہتے۔ گویا تنہائی کی لعنت نہیں بلکہ تنہائی کی خلاف ورزی اور اس میں مداخلت کافکا کے لیے آسیب ہے!

کارل راس مین کو ہر شخص ہراساں کرتا ہے۔ اس کے کپڑے لتے بیچ دیے جاتے ہیں۔ اس کے والدین کی اکلوتی تصویر اڑالی جاتی ہے۔ اس کے بستر سے متصل اقامت گاہ میں لڑکے مکہ بازی کرتے ہیں اور بار بار اس کے اوپر آگرتے ہیں۔ رابنسن اور ڈیلمارش نامی دو بدمعاش اسے اپنے اور فربہ اندام برونیلڈا کے یہاں، جس کی سسکیاں اس کی نیند میں گونجتی ہیں، اقامت اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

جوزف K کی کہانی بھی اس کی خلوت میں مداخلت سے شروع ہوتی ہے۔ دو نامعلوم لوگ اسے اس حالت میں گرفتار کرتے ہیں کہ وہ بستر پر دراز ہوتا ہے۔ اس دن کے بعد وہ کبھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا۔ عدالت اس کا پیچھا کرتی ہے، اس کی نگرانی کرتی ہے، اس سے مکالمہ کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس کی نجی زندگی ایک ایسی پراسرار تنظیم کے ہاتھوں، جو سائے کی طرح اس کے پیچھے لگی رہتی ہے، اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔

”مبالغہ مائل غیر متوازن روحیں“(۱۰) جو رازوں کے خاتمے اور نجی زندگی کی شفافیت کی تبلیغ کرتی ہیں اس طرز عمل کی نوعیت سے، جسے وہ رواج دیناچاہتی ہیں، واقف نہیں۔ مطلق العنانیت کا نقطۂ آغاز ”دی ٹرائل“ کے آغاز سے مماثل ہے:تم اپنے بستر میں بے خبری کے عالم میں پکڑے جاؤ گے۔ وہ اسی طرح اندر آئیں گے جیسے تمھارے ماں باپ آجایا کرتے تھے!

لوگ اکثر حیران ہوکر سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا کافکا کے ناول مصنف کی نہایت درجہ نجی اور ذاتی کش مکشوں کے مظہر ہیں یا معروضی عمرانی میکانیت کے نقشے؟

دراصل کافکائیت کسی پرائیویٹ یا نجی اقلیم تک محدود نہیں، یہ دونوں پر حاوی ہے۔ پبلک پرائیویٹ کا آئینہ ہوتی ہے اور پرائیویٹ پبلک کو منعکس کرتا ہے۔

(۶)

ان خرد عمرانی طرز ہاے عمل سے، جن سے کافکائیت جنم لیتی ہے، میری مراد صرف خاندان ہی نہیں وہ تنظیم بھی ہے جہاں کافکا نے اپنی جوانی کا تمام عرصہ گزارا یعنی دفتر۔

کافکا کے ہیرو اکثر معاشرے کے صاحب فہم و فراست افراد کے تمثیلی نمایندے سمجھے جاتے ہیں لیکن گریگر سیمسا(۱۱) کا معاملہ ایسا نہیں۔ جب وہ اس حالت میں بیدار ہوتا ہے کہ وہ ایک لال بیگ میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے تو اس کواس حالت میں بھی صرف ایک ہی تشویش لاحق ہوتی ہے__ دفتر بروقت کیسے پہنچا جائے؟ اس کے سر میں صرف اطاعت اور ڈسپلن کا سودا سمایا ہوا ہے جس کا عادی اسے اس کے پیشے نے بنا دیا ہے__ وہ ایک ملازم ہے__ ایک ماتحت __ جیسا کہ کافکا کے اکثر کردار ہوتے ہیں۔ یہ ماتحت ہونا کسی عمرانی مثال کے معنی میں نہیں (جیسا کہ زولا کے یہاں ہے) بلکہ ایک انسانی امکان یا وجود کے سیدھے سادے طرز عمل کے معنی کے طور پر ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ماتحتوں کی بیورو کریسیائی دنیا میں، پیش قدمی، ایجاد اور آزادی ِ عمل نام کی کسی چیز کا امکان نہیں ہوتا۔ وہاں تو صرف احکام اور ضابطے ہوتے ہیں __ یہ اطاعت اور اتباع کی دنیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ماتحت ایک بہت وسیع سرگرمی کے محض ایک جز کو انجام دینے کا پابند ہوتا اور اس وسیع نظم و نسق کے مقاصد اور آفاق سے بے خبر ہوتا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں روز مرہ کے دفتری فرائض کی حیثیت میکانکی ہوتی ہے اور لوگوں کو اپنے ان فرائض کے محرکات اور مقاصد کا قطعی علم نہیں ہوتا۔

تیسرے یہ کہ کارندے کو صرف ان افراد اور ان فائلوں سے سر مارنا پڑتا ہے جن سے وہ واقف نہیں ہوتا۔ یہ گویا تجرید کی دنیا ہے۔

اطاعت، میکانیت اور تجرید کی حامل اس دنیا میں جہاں انسان کا کارنامہ محض ایک دفتر سے دوسرے دفتر منتقل ہونا رہ جائے، ناول کا ڈَول ڈالنا گویا رزمیہ شاعری کے جوہر سے متصادم ہونے کے مترادف ہے۔ پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرکافکا کیسے اس دھندلے، نیم جاں اورغیر شاعرانہ لوازمے کو مسحور کن ناولوں کے روپ میں ڈھالنے کے قابل ہو گیا؟

اس کا جواب اس خط سے ملتا ہے جو کافکا نے ملینا کو لکھا: ”دفتر کوئی احمقانہ ادارہ نہیں۔ حماقت کی دنیا سے کہیں زیادہ اس کا تعلق فنتاسی کی اقلیم سے ہے۔“ اس جملے میں کافکا کا سب سے بڑا بھید چھپا ہوا ہے۔ اس نے وہ کچھ دیکھا جو کوئی دوسرا نہیں دیکھ سکتا تھا۔اس نے صرف انسان، اس کی حالت اور اس کے مستقبل کے ضمن میں بیورو کریسیائی صورت حال کی بے حد اہمیت کا، بل کہ زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ دفتری نظام کی سراب آثار فطرت میں موجود شاعرانہ لوازمے کا، اندازہ کر لیا۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہنے کے کیا معنی ہیں کہ دفتر کا تعلق فنتاسی کی اقلیم سے ہے؟

اس صورت حال کو پراگ کا انجینئر بخوبی سمجھ لے گا: اپنی فائل میں ایک غلطی کے راہ پا جانے سے وہ لندن جا پہنچا پھر وہ پراگ کے گرد منڈلاتا رہا__ ایک واقعی آسیب کی طرح __ اپنے گم شدہ قالب کی تلاش میں __ اور اس دوران جن دفاتر میں اس کو جانا پڑا، وہ اسے کسی نامعلوم دیومالا کی کبھی نہ ختم ہونے والی بھول بھلیّاں محسوس ہوتے تھے۔

کافکا نے بیورو کریسیائی دنیا میں فنتاسی کی جس نوعیت کا ادراک کر لیا تھا اس نے اسے وہ کچھ کرنے کا موقع فراہم کر دیا جو اس سے پہلے ناقابل تصور تھا__ اس نے ایک حد درجہ بیورو کریسی زدہ معاشرے کے ایک حد درجہ غیر شاعرانہ لوازمے کو ناول کی عظیم شاعری میں ڈھال دیا! اس نے ایک شخص کی بڑی ہی معمولی کہانی کو جسے اس کی موجودہ ملازمت نہ مل سکی تھی (”دی کاسل“ کی اصل کہانی یہی تو ہے) ایک اسطور، ایک رزمیے اور ایک ایسے جمال کا درجہ دے دیا جو اس سے پہلے دیکھا نہ گیا تھا۔

ایک بیورو کریسیائی تنظیم کو کائنات کے حیران کن ابعاد تک پھیلا کر کافکا غیر ارادی طور پر ایک ایسی تمثال کی تخلیق میں کام یاب ہو گیا جو ایسی سوسائٹی سے، جسے وہ جانتا تھا یعنی آج کے پراگ کی سوسائٹی سے __گہری مماثلت کے باعث ہمارے لیے مسحور کن ہے۔

ایک آمرانہ اور مطلق العنان ریاست دراصل ایک واحد بے حد وسیع تنظیم ہوا کرتی ہے۔ چوں کہ اس میں کیا جانے والا ہر کام ریاست کے لیے ہوتا ہے اس لیے ہر پیشے کا ہر فرد اس کا ملازم ہوتا ہے۔ ایک مزدور، مزدور نہیں رہتا، ایک جج، جج نہیں رہتا، ایک دکان دار، دکان دار نہیں رہتا، ایک پادری، پادری نہیں رہتا۔ یہ سب اس ریاست کے اہل کار بن جاتے ہیں۔ ”گرجے“ میں پادری، جوزف K سے کہتا ہے: ”میں عدالت کی ملکیت ہوں“۔ کافکا کے یہاں وکلاء بھی ”عدالت“ کے لیے کام کرتے ہیں۔ آج کے پراگ کے شہری کو یہ سب کچھ حیران کن نہیں محسوس ہوتا۔ اسے جوزف K سے بہتر وکیل صفائی میسر نہیں آسکتا۔ اس کے وکلاء مدعا علیہم کے لیے نہیں، عدالت کے لیے کام کرتے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔