کہیں اوٹ میں

یہ تحریر 1011 مرتبہ دیکھی گئی

[2]

(۱)

میرے ایک دوست جوزف سکو وریکی نے اپنی ایک کتاب میں ذیل کی سچی کہانی بیان کی ہے:

پراگ کے ایک انجینئر کو لندن میں ایک پیشہ ورانہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ وہ وہاں جاتا ہے، کارروائی میں شریک ہوتا ہے اور پراگ لوٹ آتا ہے۔ اپنی واپسی کے چند گھنٹے بعد وہ اپنے دفتر میں سرکاری روزنامہ رودی پراوو اٹھاتا ہے اور ان سطروں پر اس کی نگاہیں جم جاتی ہیں: ”لندن میں ایک کانفرنس میں شرکت کے دوران ایک چیک انجینئر نے اپنی اشتراکی مادر وطن کے بارے میں مغربی اخبار نویسوں کو ایک رسوا کن بیان دیا ہے اور (ساتھ ہی) مغرب میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“

غیر قانونی ترک وطن اور اس پر مستزاد اس قسم کا بیان! یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کی سزا بیس سال قید ہے۔ انجینئر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مضمون میں اسی کو حوالہ بنایا گیا ہے۔ اس کی سیکرٹری اسے دفتر میں پاکر صدمے سے دو چار ہے۔ وہ کہتی ہے:

”آپ لوٹ آئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ کیا آپ نے وہ سب کچھ پڑھ لیا جو آپ کے بارے میں لکھا گیا ہے؟“

انجینئر اپنی سیکرٹری کی آنکھوں میں تیرتا ہوا خوف محسوس کرتا ہے۔ اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ فوراً رو دی پراوو کے دفتر جاتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس ساری کہانی کا ذمہ دار اخبار کا ایڈیٹر ہے۔ ایڈیٹر معذرت خواہ ہے۔ ہاں صاحب! یہ تو واقعی پریشان کن صورت حال ہے۔ لیکن ایڈیٹر غریب کے پاس اس کا کیا علاج؟ اسے تو مضمون کا متن براہ راست وزارت داخلہ سے ملا تھا!

ناچار انجینئر وزارت داخلہ کے دفتر جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ کہتے ہیں یہ تو واقعی بہت غلط ہوا لیکن وزارت داخلہ اس باب میں بے قصور ہے۔ اسے تو انجینئر کے بارے میں یہ رپورٹ لندن کے سفارت خانے کے خفیہ والوں نے بھجوائی تھی۔ اس پر انجینئر وزارت سے بیان واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ”نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم بیان دے کر واپس نہیں لیا کرتے لیکن مطمئن رہو، تمھیں کچھ نہیں ہو گا۔ تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں“۔

لیکن انجینئر واقعتا پریشان ہے۔ اسے جلد احساس ہو جاتا ہے کہ اچانک اس کی بہت قریب سے نگرانی ہونے لگی ہے۔ اس کا ٹیلیفون ٹیپ کیا جانے لگا ہے اور گلی میں اس کا پیچھا کیا جاتا ہے۔ اس کی نیند اڑ جاتی ہے اور اسے خوفناک خواب آنے لگتے ہیں۔ بالآخر اس کرب سے عاجز آکر وہ غیر قانونی طور پر بہت سے خطرات مول لے کر ملک چھوڑنے کا ارادہ کر لیتا ہے اور یوں وہ واقعی مجبور ہو کر ترک وطن کر کے مہاجر بن جاتا ہے۔

(۲)

یہ کہانی جو میں نے ابھی بیان کی ہے، ایسی ہے کہ ہم اسے بلا تامل کافکائی طرز (KAFKAN) سے تعبیر کریں گے۔ یہ اصطلاح جو ایک فنکار کے آثار سے اخذ کی گئی ہے اور جسے خالصتاً ناول نگار کی تمثالوں نے متعین کیا ہے، تنہا ایسا مشترک اسم ہے جس کے بغیر دوسرے کسی نام کے وسیلے سے اس طرح کی صورت احوال کو(خواہ وہ ادبی ہو یا حقیقی) گرفت میں نہیں لایا جاسکتا اور جس کی تفہیم کسی سیاسی، سماجی یا نفسیاتی نظریے کے بس میں نہیں!

لیکن یہ کافکائیت ہے کیا(۱)؟ آیئے اس کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالیں:

اوّل:

مذکورہ انجینئر کی حریف ایک ایسی قوت ہے جس کی نوعیت ایک لامحدود بھول بھلیّاں کی سی ہے۔ وہ اس کی کبھی نہ ختم ہونے والی راہداریوں میں بھٹکتا پھرے گا اور اس پر کبھی منکشف نہ ہو پائے گا کہ یہ فیصلہ کن کہانی آخر صادر کہاں سے ہوئی؟ چناں چہ وہ بالکل اسی صورت حال سے دو چار ہے جیسی عدالت کے سامنے جوزف K کی یا ”The Castle“ میں زمین کے معائنہ کار K کی ہے۔ تینوں ایک ایسی دنیا میں ہیں جو صرف و محض ایک بھول بھلیّاں قسم کی وسیع و عریض تنظیم ہے جس سے نہ وہ بچ سکتے ہیں نہ اسے سمجھ سکتے ہیں!

کافکا سے پہلے کے ناول نگار اکثر اداروں کو ایسے اکھاڑوں کے روپ میں ظاہر کرتے تھے جہاں مختلف ذاتی یا عوامی مفادات کے باہمی تصادم رو پذیر ہوتے تھے۔ کافکا کے یہاں تنظیم یا ادارہ ایک ایسی میکانیت کا نام ہے جو اپنے اصولوں کا خود تابع ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ یہ قوانین کس نے مرتب کیے۔ ان ضابطوں کا انسان کے اضطرابوں سے کوئی واسطہ نہیں اور یوں یہ ناقابل فہم ہیں۔

دوم:

”دی کاسل“ کے پانچویں باب میں گاؤں کا میئر تفصیل کے ساتھ K کے سامنے اس کی فائل کی طویل تاریخ بیان کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ بہت عرصے پہلے ”قلعے“ کی جانب سے ایک معائنہ کار کو ملازم رکھنے کی تجویز گاؤں بھیجی گئی تھی۔ میئر نے اس پر منفی رپورٹ دی تھی (مطلب یہ کہ زمین کے معائنہ کار کی کوئی ضرورت نہیں) لیکن میئر کا منفی جواب غلطی سے کسی اور دفتر میں چلا گیا اور بعد ازاں بیورو کریسی کی سلسلہ در سلسلہ اور پیچ در پیچ کئی برسوں پر محیط غلط فہمیوں کے نتیجے میں ملازمت کی یہ پیش کش غیر ارادی طور پر K کو کر دی گئی اور یہ سب کچھ عین اس وقت ہوا جب وہ تمام دفاتر جو اس قضیّے سے متعلق تھے، اس پرانی پیش پا افتادہ پیش کش کو منسوخ کرنے کے عمل سے گزر رہے تھے۔ چناں چہ K ایک لمبے سفر کے بعد غلطی سے اس گاؤں پہنچا تھا۔ مزید برآں یہ طے سہی کہ اس کے لیے امکان کی دنیا سوائے قلعے اور اس کے گاؤں کے اور کوئی نہیں، اس کا تمام وجود ہی ایک غلطی ہے۔

کافکائی دنیا میں مذکورہ فائل افلاطونی اعیان کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ حقیقت حقہ کی نمایندگی کرتی ہے جب کہ انسانی وجود کی حیثیت محض ایک سائے کی ہے جو سطح سراب پر پڑ رہا ہو۔(۲) سچی بات تو یہ ہے کہ وہ زمین کا معائنہ کار K ہو یا پراگ کا انجینئر، دونوں اپنے فائل کے کارڈوں کا عکس محض ہیں بل کہ وہ ان عکسوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ وہ دراصل فائل میں راہ پا جانے والی ایک غلطی کا عکس ہیں __ وہ ایسے سائے ہیں جنھیں سایوں کی حیثیت سے قائم رہنے کا بھی حق حاصل نہیں!!

لیکن اگر انسان کا وجود محض سایہ ہے اور حقیقت حقہ کا وجود کہیں اور ہے__کسی ناقابل رسائی جگہ پر، کسی غیر انسانی یا ماوراے انسانی مقام پر، تو اس صورت میں ہم اچانک علم کلام کی اقلیم میں داخل ہو جاتے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ کافکا کے اولیں شارحین نے اس کے ناولوں کو مذہبی تمثیلیں قرار دیا تھا۔ اس قسم کی تاویل مجھے غلط دکھائی دیتی ہے (کیوں کہ یہ اُس جگہ تمثیل دیکھتی ہے جہاں کافکا حیات انسانی کے ٹھوس اور معروضی احوال اپنی گرفت میں لے رہا ہے) مگر یہ چشم کشا بھی ہے۔ جہاں کہیں قوت اپنا بت بناتی ہے، وہیں وہ اپنا علم کلام خود وضع کرلیتی ہے۔ جہاں کہیں یہ خدا کا طرز عمل اختیار کرتی ہے، یہ اپنی جانب مذہبی احساسات منعطف کرلیتی ہے __ ایسی دنیا کو الہٰیاتی اور کلامی دنیا کی اصطلاح میں بیان کیا جاسکتاہے۔ کافکا نے مذہبی تمثیلیں نہیں لکھیں لیکن کافکائیت (حقیقت اور افسانے کی دونوں صورتوں میں) کو اس کے کلامی اور الہٰیاتی (بلکہ مجعُولانہ الہٰیات کے) بعد سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

سوم:

راسکو لینکوف اپنے جرم کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا۔ وہ خود اپنی تجویز کردہ سزا کو قبول کرلیتا ہے۔ یہی وہ معروف صورت حال ہے جہاں جرم خود اپنی سزا تلاش کرتا ہے۔

(مگر) کافکا کے یہاں یہ منطق دوسرا رخ اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے یہاں سزا پانے والا فرد نہیں جانتا کہ اس کی سزا کی وجہ کیا ہے؟ سزا کی یہ نامعقولیت اس کے لیے اس قدر ناقابل برداشت ہے کہ اپنے اطمینان کے لیے ملزم اپنی سزا کی توجیہ کے لیے مضطرب ہوتا ہے۔ گویا سزا جرم کو تلاش کرتی ہے۔

خفیہ والے پراگ کے انجینئر کو سزا دیتے ہیں۔ یہ سزا ایک ایسے جرم کی متلاشی ہے جو سرزد ہی نہیں ہوا اور بے چارہ انجینئر جس پر غیر قانونی ترک وطن کا الزام لگایا تھا، سچ مچ ترک وطن پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سزا نے بالآخر جرم کو پاہی لیا!

اس کاوش میں ناکامی پرکہ ”دی ٹرائیل“ کے کردار K کے خلاف الزامات ہیں کیا وہ کتاب مذکور کے ساتویں باب میں اپنی پوری زندگی کا __ اپنے تمام ماضی کی تمام جزئیات کے ساتھ__ جائزہ لینے کا ارادہ کرتا نظر آتا ہے۔ خود تعزیر کاری (۳)  مشین حرکت میں آتی ہے__ ملزم اپنا جرم ڈھونڈتا ہے!

ایک دن امالیہ کو ”قلعے“ کے کسی اہل کار کا ایک بے ہودہ خط ملتا ہے۔ غصے میں آکر وہ اس خط کو پرزہ پرزہ کر ڈالتی ہے۔ قلعے والے امالیہ کے اس اشتعال آمیز رویے پر تنقید کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔ خوف (وہی خوف جو انجینئر نے اپنی سیکرٹری کی آنکھوں میں دیکھا تھا) اپنا عمل خود کرتا ہے۔ قلعے کی جانب سے کسی حکم کے بغیر بلکہ کسی قابل ادراک اشارے کے نہ ہوتے ہوئے بھی ہر فرد بشر امالیہ کے خاندان سے ویسا ہی دور بھاگنے لگتا ہے جیسا طاعون سے۔

امالیہ کا والد اپنے خاندان کے دفاع کی کوشش کرتاہے لیکن ایک مسئلہ آکھڑا ہوتا ہے: نہ صرف یہ کہ نام نہاد فیصلے کے منبع کا علم نہیں ہو پاتا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نام نہاد فیصلے کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اپیل کرنے یا معافی طلب کرنے کے لیے پہلے کسی عدالت کی طرف سے سزا پانا لازم ہوتاہے۔ چناں چہ باپ قلعے والوں سے درخواست کرتا ہے کہ وہ جرم کا اعلان کریں۔ پس یہ کہنا کافی نہیں کہ سزا جرم کو تلاش کرتی ہے، مذہب کا لبادہ اوڑھی ہوئی اس دنیا میں سزا یافتہ لوگ اپنے جرم کے تسلیم کیے جانے کی درخواست کرتے ہیں۔

پراگ میں ان دنوں اکثر یوں ہوتا ہے کہ جو شخص عزت کھو بیٹھتا ہے وہ نہایت ادنیٰ ملازمت کرنے کا بھی اہل نہیں رہتا۔ لاچار ہو کر وہ اس امر کی تصدیق چاہتا ہے کہ اس سے جرم سرزد ہوا ہے اور اسے ملازمت نہیں مل سکتی لیکن اس طرح کا کوئی قرطاسِ فیصلہ اسے نہیں مل پاتا اور چوں کہ پراگ میں کوئی نہ کوئی کام قانوناً لازم ہے سو ایسے شخص کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس پر طفیلی ہونے کا الزام لگ جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ کام کرنے سے گریز کرنے کا مجرم ہے۔ چناں چہ سزا جرم کو تلاش کر لیتی ہے۔

چہارم:

پراگ کے انجینئر کی کہانی اپنی نوعیت میں ایک مضحکہ خیز کہانی لگتی ہے، ایک مذاق ہے۔ چناں چہ اس سے قہقہے کو تحریک ملتی ہے۔

ایک صبح بالکل عام سے دو شریف افراد (انسپکٹر نہیں جیسا کہ فرانسیسی ترجمے میں کہا گیا ہے) بستر میں لیٹے ہوئے جوزف K کی خلوت میں مخل ہوتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ وہ زیرِ حراست ہے اور اس کا ناشتہ کھا جاتے ہیں۔ K ایک منضبط مزاج سول سرونٹ ہے۔ ان لوگوں کو اپنے فلیٹ سے نکال باہر کرنے کے بجائے وہ اپنے لباس شب خوابی میں کھڑے ہو کر اپنے دفاع میں لمبی تقریر کرنے لگتا ہے۔ جب کافکا نے ”دی ٹرائیل“ کا پہلا باب سنایا تھاتو کوئی شخص بشمول مصنف اپنی ہنسی نہ روک سکا تھا۔

اب ذرا فلپ روتھ کے ”دی کاسل“ کے خیالی متن کو تصور میں لایئے۔ اس فلم میں گروچو مارکس اپنے معاونین چیکو اور ہارپو کے ساتھ زمین کے معاینہ کار K کا رول ادا کرتا ہے۔ ہاں روتھ نے بالکل صحیح کیا۔ کافکائیت کی روح سے مضحک عنصر کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن انجینئر کے لیے اس بات کا علم تکلیف دہ ہے کہ اس کی کہانی مضحک ہے۔ وہ  اپنی زندگی کے مضحکے میں اس طرح پھنس گیا ہے جیسے مچھلی برتن میں۔ اسے یہ صورتِ حال مضحکہ خیز نہیں دکھائی پڑتی۔ قصہ یہ ہے کہ مذاق اسی وقت مذاق ہے جب آپ کاسے سے باہر ہوں۔ اس کے برعکس کافکائیت ہمیں مذاق کے باطن میں __ اس کی اندرونی تہوں میں لے جاتی ہے __ مضحک کی دہشت تک!

شیکسپیئر کے برعکس کافکا کی کائنات میں مضحک عنصر، المیہ عنصر میں اس طرح پیوست نہیں ہوتا گویا ان دونو کی لحن بندی کی گئی ہو۔ اس مضحک عنصر کے شمول کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ المیے کے رنگ کو ذرا دھیما کر کے اسے قابل برداشت بنایا جائے۔ یہ المیے کے پہلو بہ پہلو نہیں ہوتا، ہر گز نہیں۔ یہ اسے اس کے تخم میں ہی مار ڈالتا ہے اور یوں اپنے متاثرین کو اس تسکین سے بھی محروم کر دیتا ہے جس کی وہ امید کر سکتے تھے__ ایسی تسلی اور طمانیت جو المیے کی (حقیقی یا مفروضہ) عظمت میں مل سکتی ہے۔ انجینئر کو اپنا وطن ترک کرنا پڑ رہا ہے اور ہر کوئی قہقہہ لگاتا ہے!

(۳)

جدید تاریخ میں ایسے ادوار آئے ہیں جہاں زندگی کافکا کے ناولوں سے مماثل نظر آتی ہے۔ جب میں ابھی پراگ ہی میں رہتا تھا تو لوگ پارٹی ہیڈ کوارٹروں کو (جو ایک بد وضع جدید عمارت تھی) ”دی کاسل“ سے تعبیر کرتے تھے۔ اسی طرح لوگ پارٹی کی ہائی کمان کے نائب (ہینڈ رچ نامی کامریڈ) کو کلیم KLAMM کے نام سے یاد کرتے تھے (یہ نام ایک اعتبار سے اور بھی برمحل تھا کیوں کہ چیک زبان میں KLAM کے معنی سراب یا فراڈ کے ہیں)

شاعراے نامی ایک اشتراکی شخصیت کو سنہ پچاس کی دہائی میں ایک اسٹالینی عدالت نے قید میں ڈال دیا تھا۔ جیل کی کوٹھری میں اس نے نظموں کا ایک مجموعہ تخلیق کیا جس میں اس نے خود کو ان تمام ہول ناک اور اذیت ناک تجربات کے باوجود، اشتراکیت کا بندہئ مخلص قرار دیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ وہ بزدل تھا۔ دراصل شاعر مذکور اس وفاداری (یعنی اپنے اذیت رسانوں سے وفاداری) کو اپنی نیک نفسی اور راستی کی علامت سمجھتا تھا۔ پراگ کے جن لوگوں کو اس مجموعے کا علم ہوا انھوں نے اسے لطیف طنز کے ساتھ ”جوزف K کے تشکر نامے“ سے تعبیر کیا۔ کافکا کے ناولوں کی تمثالیں، ڈرامائی وقوعے اور متفرق جملے تک پراگ کی زندگی کا جز بن گئے تھے۔

اوپر کے معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ کافکا کی تمثالیں پراگ میں زندہ ہیں کیوں کہ یہ ایک مطلق العنان معاشرت کی پیش قیاسی کرتی ہے۔

لیکن اس دعوے کی تصحیح ضروری ہے۔ کافکائیت کسی عمرانی یا سیاسی خیال کا نام نہیں۔ کافکا کے ناولوں کو صنعتی معاشرے، استحصال، بیگانگی، بورژوائی اخلاقیات یا ایک لفظ میں کہنا چاہیں تو سرمایہ داری پر تنقیدات سے تعبیر کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن کافکا کی کائنات میں سرمایہ داری کے عناصر ترکیبی__ زریا اس کی قاضی الحاجاتی، تجارت، جائیداد اور اس کے مالکان یا طبقاتی کش مکش نام کی چیز کا قریباً کوئی ذکر نہیں۔ نہ ہی کافکائیت مطلق العنانیت کی تعریف سے مطابقت رکھتی ہے۔ کافکا کے ناولوں میں، نہ پارٹی نہ نظریہ اور اس کی مہمل اصطلاحات، نہ سیاسیات نہ پولیس اور نہ ہی فوج نام کی کسی چیز کا ذکر ہے۔

پس ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ کافکائیت انسانی کائنات اور انسان کے ایک بنیادی امکان کی نمائندگی کرتی ہے__ ایک ایسا امکان جو کسی تاریخی جبریت کا شکار نہیں اور جو کم و بیش ابدی طور پر انسان کے ساتھ وابستہ ہے۔

لیکن یہ تصحیح اس سوال کو پس پشت نہیں ڈال سکتی: یہ کیسے ممکن ہے کہ پراگ میں کافکا کے ناول حقیقی زندگی میں نفوذ کر چکے ہیں جب کہ پیرس میں یہی ناول مصنف کی کلیتہً داخلی زندگی کے راہبانہ مظہر کے طور پر پڑھے جاتے ہیں؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان اور اس کے امکان کی دنیا جس کا نام کافکائیت ہے پیرس کی نسبت پراگ میں ٹھوس ذاتی تقدیر بن جاتی ہے؟

جدید تاریخ میں ایسے کئی رجحانات ہیں جو وسیع عمرانی جہت میں کافکائیت کے ظہور کا باعث بن رہے ہیں __ اقتدار کا ایسا ترقی پسندانہ ارتکاز جو خود پرستی پر مائل ہو اور سماجی سرگرمیوں پر ایسی بیورو کریسیائی گرفت جو تمام اداروں کو لامحدود بھول بھلیّاں میں بدل کر رکھ دیتی ہے اور جس کے نتیجے میں فرد اپنی انفرادیت سے محروم ہو جاتا ہے۔

مطلق العنان ریاستیں، جو ان رجحانات کی انتہا پسندانہ مرکز ہیں، کافکا کے ناولوں اور حقیقی زندگی میں گہری مماثلت کا باعث بنی ہیں لیکن اگر مغرب کے لوگ اس گہری مماثلت کو دیکھنے کے قابل نہیں ہیں تو اس کا سبب صرف یہ نہیں کہ وہ معاشرہ جسے ہم جمہوری کہتے ہیں، آج کے پراگ کے معاشرے کے مقابلے میں کافکائی ہے بلکہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں (مغرب میں) اصل اور حقیقی کا شعور سفاکی کی حد تک بتدریج ضائع ہوتا جارہا ہے۔(۴)

حقیقت یہ ہے کہ وہ معاشرہ جسے ہم جمہوری سماج کا نام دیتے ہیں اس طریق کار سے مانوس ہے جو بیوروکریسی کی گرفت کے ذریعے افراد کو ان کی انفرادیت سے محروم کرتا ہے __ ہمارا پورا سیارہ اس طرز عمل کی بازی گاہ بن چکا ہے۔ کافکا کے ناول اس صورت حال کے دانستہ طور پر مبالغہ آمیز تخیلاتی اور خواب ناک بیان ہیں۔ ایک مطلق العنان ریاست اس صورت حال کی کھری کھری، ٹھوس مبالغہ آمیز مظہر ہے۔

لیکن آخر کافکا ان رجحانات کو گرفت میں لانے والا پہلا ناول نگارکیوں تھا جو تاریخ کی اسٹیج پر اس کی موت کے بعد ہی واضح اور وحشیانہ انداز میں ظاہر ہوئے؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔