کچھ سرمد شہید کے بارے میں

یہ تحریر 4587 مرتبہ دیکھی گئی

بیشترشعراء کرام نے  منصور کے ساتھ ساتھ سرمد  کا نام بھی استعارہ کے طور استعمال کیا ہے اور

بقول قتیل شفائی

کر سکتے ہیں چاہ تری اب سرمدؔ یا منصورؔ

ملے کسی کو دار یہاں اور کھنچے کسی کی کھال

سرمد شہید کون ہیں ؟منصور حلاج ثانی کیوں کہا جاتا ہے آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

بعض محققین نے انہیں ایرانی النسل لکھا اور بعض نے یہودی لیکن بعد ازاں اُن کے مسلمان ماں باپ کی تبلیغ و تربیت کے بعد اسلام لانا ثابت کیا ہے

 آزاد خیال یا مزہبی انتہا پسندوں نے یہودیوں کا جاسوس تک لکھا یعنی ہر ایک نے اپنے نظریات میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے .

اگر وہ ایرانی تھے تو یہ بھی ملتا ہے کہ وہ سندھ  کے علاقہ ٹھٹھہ میں کسی  حسین و جمیل لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوگئے جبکہ دوسری جانب یہ دربار کی سازش بتائی جاتی ہے کہ جنس پرستی کے الزام سے ان کی کردار کُشی کی گئی ہے تاکہ عوام اُن سے دور رہیں ۔۔۔۔

لیکن آخر ان کو کن وجوہات کی بنیاد پر تخت دار پر لٹکایا گیا اس سوال کے جواب کی تلاش کرتے ہیں ؟

سرمد کو قتل کرنے کے لیے درباری علماء نے یہ الزامات دئے کہ سرمد۔۔۔

ننگا رہتا ہے اور اسلام کے منافی ہے

سرمد پورا کلمہ نہیں پڑھتا صرف لاالہ کہتا ہے۔۔

سرمد معراج کا منکر ہے

سرمد نے لباس کے بارے جواب دیا کہ طریق زندگی یا لباس پر کوئی شرعی پابندی نہیں ہے

مکمل کلمہ نہ پڑھنے کے بارے جواب دیا کہ وہ ابھی نفی کی منزل پر ہے اور دیدار حق سے محروم ہے اللہ کا دیدار ہونے پر کلمہ پڑھے گا .ملاوں نے اس نعرہ مستانہ کو کفر قرار دیا

اور تیسرے الزام کو بے بنیاد قرار دیا جاتا ہے لیکن درباری ملاوں کا فتوی کام کر گیا اور سرمد کو واجب القتل قرار دیا گیا۔

جامع مسجد کے سامنے ایک چبوترہ قتل گاہ کے طور پر بنایا گیا لوگوں کا جم غفیر تھا بادشاہ بھی یہی چاہتا تھا کہ عوام دیکھیں کہ بادشاہ کی مخالفت کرنے والے کا انجام کیا ہوتا ہے

جب سرمد کو جامع مسجد کے آگے کی طرف لے چلے تو تمام شہر ٹوٹ پڑا اور چلنا دشوار ہوگیا۔ جب جلّاد تلوار چمکاتا ہوا آگے بڑھا تو سرمد نے مسکرا کر اس سے نظر ملائی اور کہا

 ’تجھ پر قربان، آؤ آؤ جس صورت میں بھی آؤ، میں تمہیں خوب پہچانتا ہوں۔‘ ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ اس جملے کے بعد سرمد نے یہ شعر پڑھا:

شورے شد و از خواب عدم چشم کشودیم

دیدیم کہ باقی ست شب فتنہ، غنودیم

(ایک شور بپا ہوا اور ہم نے خوابِ عدم سے آنکھ کھولی، دیکھا کہ شبِ فتنہ ابھی باقی ہے تو ہم پھر سو گئے

قتل کے بعدجائے قتل پر دفن کیا گیا اور مزار زیارت گاہ بن گیا

سرمد کے قتل کی اہم وجہ اس کے نظریات نہیں بلکہ شہزادہ داراشکوہ سے دوستی کو قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ دارا شکوہ کون ہے؟اور یہ دوستی بادشاہ کو کیوں ناپسند تھی؟

دارا شکوہ

شاہ جہاں کا لاڈلا اور صوفی منش آدمی  تھا وہ اسلام دوست اور عالی ظرف تھے ان کی  کتاب سفینتہ الاولیا شاندار شاہکار ہے جس میں صحابہ کرام آئمہ کرام اور اولیا کرام کا ذکر ہے  اور ایسی دیگر کتب بھی ہیں

 دراشکوہ کی ایک کتاب مجمع البحرین ہے اس کتاب میں اسلام اور ہندو ازم کو قریب لانے اور دونوں مزاہب کا تقابل کیا گیا ہے اسی کتاب کی بنیاد پر انہیں اسلام مخالف قرار دیا گیا اور قتل کردیا گیا

سرمد سے دوستی کا ذکر کیا جائے تو

  جب سرمد  دلی پہنچے تو دارا نے سرمد کو اپنا مرشد مان لیا

دربار نے پہلے دارا کو قتل کیا اور بعد ازاں اُن کے مرشد سرمد کو قتل کرنے کی سازش بنی

عالمگیر کی نظروں میں سرمد کا سب سے بڑا جرم دارا شکوہ کی معیت تھی چنانچہ وہ اسے کسی نہ کسی بہانے قتل کرنا چاہتا تھا۔یعنی اورنگزیب یہ سمجھتا تھا کہ سرمد نے لوگوں کو دارا شکوہ کی حمایت کرنے اور بادشاہِ وقت اورنگزیب کے خلاف اکسایا ہے

مولانا ابو کلام آزاد رقم طراز ہیں کہ

“اسلام کے فقہاء کا قلم ہمیشہ تیغِ بے نیام رہا  ہزاروں حق پرستوں کا خون ان کے فتووں کا دامن گیر رہا ہے.تاریخ گواہ ہے جب بھی بادشاہ خون ریزی پر اترتا ہے تو دارالافتاء کا قلم اور سپہ سالار دونوں یکساں طور پر کام دیتے ہیں” وہ  مزید رقم طراز ہیں کہ جو اسرارِحقیقت کے قریب ہوئے انہیں مصیبتیں اٹھانی پڑیں بالآخر سر دیکر نجات ملی ۔ سرمد بھی اسی تیغ کا شہید ہے۔۔۔

فقیر راحموں ،سرمد شہید کے اِس سمے بارے لکھتے ہیں کہ عاشق بد دعا دیتے ہیں نہ انتقام کی وصیت کرتے ہیں سچ یہی ہے حلاج ہو یا سرمد یا اس راہ عشق کے دوسرے مسافر  سبھی نے قاتل کو نامہ برسمجھا۔۔۔۔

اسرارِ حقیقت کے متلاشی آج بھی کئی منصور و  سرمد  وقت کے سامراج کے ہاتھوں دار پر چڑھتے ہیں اور اپنا جرم تلاش کرتے ہیں

 اور یوں گویا ہیں کہ

ہم نہ عیسیٰ نہ سرمد و منصور

لوگ کیوں سوئے دار لے کے چلے

مآخد

رباعیات سرمد شہید۔مولانا ابو الکلام آزاد

شہید سرمد ،حیدر جاوید سید

اورنگزیب کو سرمد کاشانی پر غصہ کیوں تھا ،ابو بکر شیخ ڈان نیوز سرمدایک سمندر ،عبدالقادر حسن ایکسپریس