کِس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے

یہ تحریر 1793 مرتبہ دیکھی گئی

(ایک زود رنج کی ڈائری کے چند اوراق)

نوٹ: روزنامچہ عموماً بہت ذاتی تحریر ہوتی ہے۔ لیکن یہ سال ہی ایسا تھا کہ ہر اہلِ دل اور صاحبِ بصیرت شخص کو مغموم کر گیا۔ آج ڈائری کے صفحات پلٹ کے دیکھے تو دل دکھ سے بھر گیا۔ سال کے آغاز میں کسی نے نہ سوچا تھا کہ یہ سال غم و الم کا پیغام بن کر آئے گا اور نہ ختم ہونے والے آنسو ہماری آنکھ میں چھوڑ جائے گا۔ ہم نے اس سال کیسے کیسے ہیروں کو کھو دیا اس کا مختصر احوال میری ڈائری کے چند اوراق سے درج کیا جا رہا ہے۔ 

1جنوری 2020: ماہِ دسمبر سے آغاز ہونے والی سردی نے نئے سال کی کرنیں چھپا رکھی ہیں۔ سنا ہے اس برس ریکارڈ توڑ جاڑا ہمارے رویوں کو سرد کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ نئے سال کا پہلا دن ہی فیصل آباد کی ادبی شخصیت ڈاکٹر طاہر تونسوی کی وفات کی خبر لے کے آیا ہے۔ پرورگار اُن کے درجات بلند کرے۔ ، یاد کے نہاں خانوں میں اُن کے دو اشعار گردش کر رہے ہیں۔

تو طے ہوا نا کہ جب بھی لکھنا رُتوں کے سارے عذاب لکھنا

اُجاڑ موسم میں تپتے صحرا کو آب لکھنا عذاب لکھنا

مجھے یقیں ہے نصیب میرا نہ ساتھ دے گا یہ تجربہ ہے

سکون کو اضطراب کہنا، حقیقتوں کو سراب لکھنا۔۔۔

3جنوری 2020:عراق و شام میں اہلِ بیتِ اطہار کے مقدسات کی حفاظت کرنے والے پاسدارانِ انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا گیا۔ ادھر امریکہ میں ٹرمپ حکومت خوشی سے جھوم رہی ہے یہاں اہلِ ایران نے “انتقام سخت” کا اعلان کِیا ہے۔

7 جنوری 2020: یہ سال روز نئی آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ خدا خیر ہی کرے۔ ہم میں آزمائشیں سہنے کی ہمت کہاں۔

4فروری 2020: آج بانو قدسیہ کو ہم سے بچھڑے تین برس بیت گئے۔ ان کی وفات کے دو روز بعد اورینٹل کالج میں تعزیتی کانفرنس کا انعقاد کِیا گیا تھا۔

18فروری 2020:

 *اُس نے جینے کی دعا دی ہے علی یاسر کو

آخری سانس تک اترائے گا مر جائے گا۔۔۔۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے شاعر علی یاسر ادبی حلقوں کو سوگوار کر گئے۔۔۔

20 فروری 2020: بڑا آدمی ہونا ضروری ہے یا بڑا تخلیق کار۔۔۔۔ اکثر بڑے تخلیق کاروں میں جھانک کے دیکھیں تو کم ظرف سے ملاقات ہوتی ہے۔ اچھا ہے لوگوں نے جو بھرم قائم کر رکھا ہو اسی پہ اکتفا کر لینا چاہیے۔ چہروں کے پیچھے چھپے چہروں کی تلاش میں نقصان ہوتا ہے۔

7مارچ 2020 : امان اللّٰہ ایک بڑا فن کار تھا، ان کی تدفین پہ پیراگون سٹی کے مولویوں کی بدمعاشی دیکھ کر احساس ہورہا ہے کہ آرٹ ہماری زندگی میں حاشیے میں پایا جاتا ہے۔

8 مارچ 2020: ماں جی کی جدائی جھیلتے سات برس بیت گئے۔

13 مارچ 2020: بازار بند راستے سنسان بے آباد۔۔۔ یا خدا یہ کیسا امتحان ہے۔ زندگی یوں رک جائے گی ایسا کب کسی نے سوچا ہو گا۔ رحم۔۔۔

عجیب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی

16 مارچ 2020 : ڈاکٹر روؤف پاریکھ کو صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ اسیری کے دن ڈاکٹر صاحب کے انگریزی کالم پڑھنے میں گزر رہے ہیں۔

22مارچ2020:

مدینے والوں کا ہر مشورہ بجا لیکن

حُسین جانتے ہیں مرضیء خدا کیا ہے۔

شاعر نصرت بخاری نے بھی رخصت مانگ لی۔

23مارچ 2020:  تئیس مارچ 1940 کے خطاب کی یہ سطریں آج کے دن کے حوالے سے بڑی معنی خیز ثابت ہوئیں۔ “اپنی تنظیم اس طور پہ کیجیے کہ کسی پہ بھروسا کرنے کی ضرورت نہ رہے۔”

25 مارچ202:

مرشد ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا

مرشد کوں آکھیں آ کے ساڈا حال ڈیکھ ونج

افکار علوی کی نظم کے خوب چرچے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ افکار آنے والے دنوں میں بطور شاعر کن نئے خیالات کو برتتے ہیں۔ شاعری کرتے بھی ہیں یا یہ راہِ الفت ترک کر دیں گے۔

 1 اپریل 2020:  کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ لقمہء اجل محض ایک ایسی سزا ہے جو ہمسایوں کی دیوار پھلانگ کر انھیں نگلنے آئی ہے۔ اسی خوش فہمی میں سب اپنی اپنی مستی میں مست ہیں۔ سازش سازش کھیل رہے ہیں اور جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔

12 اپریل 2020: محمد سلیم الرحمٰن کی سال گرہ کا دن۔ زندگی میں جن چند شخصیات سے متاثر ہو سکی ان میں ایک محمد سلیم الرحمٰن بھی ہیں۔ ان کی تحریریں مجھ جیسے کئی طالب علموں کے لیے روشنی کا وسیلہ ہیں۔ اسیری کے نہ ختم ہونے والے دن سلیم صاحب کی ادبی تحریریں پڑھتے ہوئے یا آصف فرخی صاحب کے ویڈیو کالم دیکھ کے گزر رہے ہیں۔ ادب کے خدمت گزار سلامت رہیں۔

14 اپریل 2020:  کوئی سفید پرچم تھما دینا اور باجے نغمے چلا دینا ڈاکٹروں کی بڑھتی ہوئی اموات پہ قابو پانے میں کس حد تک فعال ہوگا؟؟ ہم تیسری دنیا کے مسافر سازش سازش کھیل رہے ہیں اور قیمتی جانوں کا نقصان کیے جا رہے ہیں۔ شہر آشوب کیوں لکھے جاتے تھے اب سمھ آتی ہے۔

20اپریل 2020: یہ لفظ “ارطغرل” بولنا کیسے ہے۔۔

29 اپریل 2020 :

بالی وڈ اداکار عرفان  نے دوستوں کے نام خط میں لکھا تھا  کہ اس دنیا میں ‘غیر یقینی ہی یقینی ہے’ اور یہ کہ وہ بہت سے منصوبے اور خواب لیے اپنی ہی ترنگ میں تیزی سے چلتے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ٹکٹ کلکٹر نے پیٹھ پر تھپکی دی کہ ‘آپ کا سٹیشن آ رہا ہے پلیز اتر جائیں

عرفان خان۔۔۔۔۔آہ

آج خالقِ حقیقی سے جاملے

30اپریل 2020:

آہ!!! تیرا غم تیرے جانے کے بعد رہا ، کچھ بھول گئے کچھ یاد رہا۔۔۔۔ یہ کیسا سال ہے، آج رشی کپور بھی چلے گئے ۔ ابھی عرفان خان کے جانے سے دل غم سے نڈھال تھا اور آج یہ خبر۔۔۔

11 مئی 2020:  منٹو برسی پہ گوگل نے بھی منفرد انداز میں خراجِ عقیدت پیش کِیا ہے۔

21 مئی 2020: کرنل کی بیوی والا واقعہ کوئی ہنسی مذاق نہیں بلکہ ایک خاص طبقے کی استعماری اجارہ داری کا عکس ہے۔

22 مئی 2020: جمعة الوداع، پی۔ آئی۔اے حادثہ۔۔۔ باخدا ہمیں ایسی شہادتیں نہیں چاہئیں۔۔۔

24 مئی 2020: سائنسی عید مبارک۔

1جون 2020: یا اللّٰہ یہ کیسی خبر ہے۔ یہ کیسا سال ہے۔ اور کتنے امتحان باقی ہیں۔ آصف فرخی صاحب بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ مشکل کے نہ ختم ہونے والے دنوں میں ان کے الفاظ ہی تو تھے جو مجھ جیسے کم حوصلہ لوگوں کے لیے امید کی کرن تھے۔ دل رنج سے بھر گیا ہے یوں لگتا ہے ماں جی کے جانے کی خبر آج ہی ملی ہو۔ ہر آنکھ اشک بار ہے۔مگر، جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔۔۔

3 جون 202: ملتان سے تعلق رکھنے والے سرائیکی دانش ور اور محقق ڈاکٹر شوکت مغل بھی نہ رہے۔

5 جون 2020: 

جنگلوں کو کاٹ کر کیسا غضب ہم نے کیا

شہر جیسا ایک آدم خور پیدا کر لیا

ماحولیاتی آلودگی کا عالمی دن

13 جون 2020: آہ!! آج ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی بھی یاد بن گئے۔ کیسا غم بھرا سال آیا ہے۔ کیا ہی شان دار شخصیت تھے۔ “کہاں سے لاؤں اُنھیں” جیسی عمدہ نثر لکھنے والے کے لیے بھی کبھی کہنا پڑے گا کہ کہاں سے لاؤں انھیں۔۔۔۔۔

14 جون 2020: یہ کیا ہوا کہ وقفہء ماتم نہیں ملا۔۔۔

محمد خالد بھی چلے گئے

کورونا ایک اور نابغہ روزگار شخصیت کی جان لے گیا

خاک کا جاگنے والا تھا مقدر ، سو یہاں

مل گیا خواب دل آرام کو سوتا ہوا میں

17 جون 2020: یہ کیسا دکھ بھرا سال آیا ہے۔ طارق عزیز! ہم سب نے ہی آخر جانا ہے مگر ان برے اور نہ ختم ہونے والے دنوں میں آپ بھی چلے جائیں گے ایسا کب سوچا تھا۔ مجھے یاد ہے بچپن میں خبرنامے کے بعد بزمِ طارق عزیز کے دوران اگر کوئی بات بھی کرتا تو سب اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگتے۔ ہر پوچھا جانے والا سوال سنتے ہی بابا ہماری طرف یُوں دیکھتے گویا ہم گوگل ہوں۔ بزمِ طارق عزیز میں بیت بازی کے حصے نے جتنے اشعار یاد کروائے وہ آج بھی اُن کے لہجے سمیت یادداشت میں محفوظ ہیں۔اس پروگرام کی کئی یادیں پرانی ڈائریوں میں جھانکتی ہوئی ملتی ہیں۔ آج کے گلیمر زدہ معلوماتی پروگرام دیکھ کے جہاں چینل بدل لینے کو جی چاہتا ہے اس کے ساتھ ساتھ شکر گزاری کا احساس بھی ہوتا ہے کہ ہماری تربیت کے لیے طارق عزیز کا اندازِ بیاں کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ بڑے لوگ مرتے نہیں بس وہ اس دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ طارق عزیز بھی ہمارے دلوں میں بچپن کی سہانی یاد بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔۔۔

20جون 2020:

دبستان کراچی کے معروف شاعر پروفیسر منظر ایوبی انتقال فرماگئے

بجھا کے بزمِ محبت کے نور افشاں چراغ

لٹا  کے شہر میں تیرے  شگفتگیء  دماغ

لگاکے جادہء حسرت میں زندگی کاسراغ

میں جارہا  ہوں  ترے غم کی کائنات  لیے

مہ  و  نجوم  سے  بیگانہ  ایک  رات  لیے

منظر ایوبی

 22 جون 2020:  علامہ طالب جوہر بھی نہ رہے۔

25 جون 2020: پوٹھواری شاعر سید آل عمران وفات پا گئے۔

27 جون 2020:  افرا سیاب کامل بھی کورونا کی لپیٹ میں آ گئے۔

29 جون 2020:

 کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد

میری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول۔

مجید امجد کی یاد کو ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب “مجید امجد: حیات شعریات اور جمالیات” سے تازہ کیا۔

آج شفیق استادِ محترم ڈاکٹر فخر الحق نوری صاحب کا بھی جنم دن ہے۔ پروردگار ان کو صحت و سلامتی والی زندگی عطا کرے۔

3 جولائی 2020: ادبی جریدہ “ادبِ لطیف ” کے ناصر زیدی بھی رُخصت ہو گئے۔

10 جولائی 2020: احمد ندیم قاسمی کا یومِ وفات۔ “گُھٹنا پاجامے میں سے جھانک رہا ہو تو باری کیسے آئے بابو جی۔۔۔۔”

12 جولائی 2020: ملتان سے تعلق رکھنے والی ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار ماہ طلعت زاہدی بھی وفات پا گئیں۔

16 جولائی  2020: ملتان، نشتر میڈیکل کالج کے ایم۔ ایس ڈاکٹر مطفیٰ کمال پاشا بھی کورونا کی زد میں آ گئے۔ ہمارے مسیحاؤں کے لیے کیسی گھڑیاں ہیں یہ۔

یکم اگست 2020:  “ادبیات” نے ناول نمبر شائع کیا ہے۔

11 اگست 2020:

راحت اندوری اردو شاعری کا معتبر حوالہ اور توانا آواز  جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے

دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے

اے موت تو نے مجھ کو زمیں دار کر دیا

9 ستمبر  2020:  ابرار احمد کی نظموں کا مجموعہ  “موہوم کی مہک” اور سید کاشف رضا کے ناول “چار درویش اور ایک کچھوا” کو UBL کی جانب سے گزشتہ برس چھپنے والی بہترین کتب کا ایوارڈ دیا گیا۔

13 ستمبر 2020: لکھنوی تہذیب کی خطابت کا ایک باب علامہ ضمیر اختر نقوی  ، تمام شد

15 نومبر2020: استادِ محترم ناصر عباس نیر صاحب کی دو کتب سنگِ میل نے شائع کی ہیں۔ “ایک زمانہ ختم ہوا ہے” اُن کا چوتھا افسانوی مجموعہ ہے۔ اور Coloniality,Moderenity and urdu Literature انگریزی آرٹیکل ہیں۔

19 نومبر 2020: میم عارفہ شہزاد کی تین کتب عکس پبلشرز والوں نے شائع کیں۔ “میں تمثال ہوں” پڑھنے کا اشتیاق ہے

20 نومبر 2020: ایدھی کے ناقد کو بھی اب جب رحمة اللّٰہ علیہ کہا جائے گا

 منٹو ہزار بار لعنت بھیج چکا تھا، تقریباً ستر سال پہلے؛

“میں ایسی دنیا پر، ایسے مہذب ملک پر، ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں جہاں یہ اصول مروج ہو کہ مرنے کے بعد ہر شخص کو لانڈری میں بھیج دیا جائے، جہاں سے وہ دُھل کر آئے اور رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکا دیا جائے۔

23 نومبر 2020: اشفاق سلیم مرزا کے فیس بک اکاؤنٹ سے ان کی وفات کی خبر ملی ہے۔ کبھی ایسا نہ سوچا تھا کہ کسی کے اکاؤنٹ سے اُس کی رخصت کی یوں خبر بھی ملے گی۔ کیا زندہ دل آدمی تھے۔ مگر افسوس اب وہ بھی “تھے” ہو گئے۔

25 دسمبر 2020: سال ختم نہیں ہوا مگر ہمارے دکھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسا کب کسی نے سوچا تھا کہ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب بھی نہ رہیں گے۔ آج ایک عہد کا خاتمہ ہوا ہے۔ کیسا سوگوار سال ہے کہ ایک کے بعد دوسرا تیسرا اور تسلسل سے کئی غم دے گیا۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال ایک فرد کے بجائے عہد کا خاتمہ ہے۔ ان جیسے لوگ زندہ نہ رہنے کے باوجود فنا نہیں ہوتے کہ ان کی چھوڑی ہوئی میراث نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہے۔

      فاروقی صاحب اردو زبان میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

29 دسمبر 2020:

ہجر کا کُچھ مَلال ہے ہی نہیں

 یہ محبّت کا سال ہے ہی نہیں

30دسمبر 2020: یہ سال بہت بھاری تھا۔ کئی نہ پُر ہونے والے خلا چھوڑ گیا۔ ہمت نہیں ہو رہی کہ آنے والے سال کے استقبال کے لیے کس بجھے دل سے کمرے کی کھڑکیاں کھولوں۔ ڈر اور خوف نے مزید سہما دیا ہے۔ مرنے سے خوف نہیں آتا۔ مرنے سے خوف زدہ تو اُسے ہونا چاہیے جو جیا نہ ہو۔ مگر اس سال ہمیں شعور دینے والے چراغوں کا بجھ جانا ذہنی اذیت میں مبتلا کر گیا ہے۔ آنے والے سال کا خط کھولنے کو جی کیسے چاہے گا۔ پیکٹ کھولنے سے پہلے سو طرح کے خدشات ذہن کو ماؤف کیے جا رہے ہیں۔ بوجھل اور شکستہ دل سے کھڑکیاں تو کھولنا ہی ہوں گی ممکن ہے سرد موسم میں بھی کہیں سے تازہ ہوا کا جھونکا آ جائے ۔ ہماری انگلیاں  نوحے لکھ لکھ کے شل ہوئی چاہتی ہیں۔ کسی ایسے موسیقار کا انتظار ہے جو آنے والے سال میں خوشیوں کے نغمے گائے ہو سکتا ہے اس سال کی دی گئی اذیتیں ماند پڑ جائیں اور ہم دوبارہ جینا سیکھ سکیں۔