کورونا اسیری میں لاہوری سہیلیوں کے لیے خط

یہ تحریر 2815 مرتبہ دیکھی گئی

قہر دی کالی رات ہے اصغر

ڈیکھ بلال کوں چوکھی دیر اے

پیار سے پیاری سہیلیو ! امید ہے تم سب ہمیشہ کی طرح  سب پیاروں میں پیار تقسیم کر رہی ہو گی۔ دعا ہے تا حیات صحت و عزت کے ساتھ سر بلند جیو۔

 اب جب کہ موت ہر گھر کی منڈیروں پہ منڈلا رہی ہے اور خوف ناک قہقہے لگاتے ہوئے انسان کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہی ہے تو ایک بات پہ کامل یقین ہو گیا ہے کہ سب کچھ ایک بلبلے کی مانند ہے۔ کبھی بھی کچھ بھی دائمی نہیں۔

ایک چھوٹے سے وائرس نے امریکہ اور چائنہ جیسے ممالک کی معیشت کو زمین بوس کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کی جھوٹی انائیں بھی اپنی موت آپ مر گئی ہیں۔ چند روز پہلے ایک ویڈیو دیکھی جس میں نیویارک کی سنسان گلیوں میں ایک شخص چِلا رہا ہے کہ ابھی بھی ظلم کرنا بند کر دو ہمارا خدا ہم سے ناراض ہے اُٹھو اور اُسے منا لو ایسا نہ ہو کہ سب کچھ ختم ہو جائے اور ہم بے بسی سے خاموش تماشائی بنے اپنے پیاروں کو خود سے جدا کرتے رہیں۔ وہ گورے ہیں ایسے پاگل پن کر سکتے ہیں۔ ہم “بلڈی کونٹینینٹلز” ہیں ہمیشہ “ہنوز دلی دور است” کے نظریے کے قائل رہے ہیں ایسی وبائیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کہ ہم تو ہمیشہ سے اناوں کے بُتوں کے پُجاری ہیں۔ بے وقت کی اموات دیکھ کر بے وقت کی اذانوں سے فضا کو پریشان کُن بنانے لگے۔مگر اپنے پیاروں سے پیار کرنا ہمیں ابھی بھی معیوب لگ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نا اہلی سے روزانہ کسی نہ کسی کے رُخصت ہونے کا دکھ سہنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب ان مایوسی بھرے دنوں میں افواہیں پھیلانے والوں کا اتنی شرم ناک حرکتیں کرتے ہوئے دل بھی نہیں دہلتا۔  ہر طرف خاموشی اور مایوسی ہے مگر میرے دل میں امید کی ایک کرن کہیں نہ کہیں روشن رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سب کی خیریت پہ مکمل اعتقاد ہے۔ کیونکہ کچھ اُلٹا سیدھا سوچنے کی جرات  کرنا بھی حقِ دوستی کے خلاف سمجھتی ہوں۔

 یہ محصوریت کے دن بڑے عجیب ہیں۔ تم سب سے دوری اور پھر جبری طور پہ کی گئی نظر بندی، نفسیاتی طور پہ عجب تنہائی نے آ دبوچا ہے۔ چائے خانوں کے قہقہے اور انارکلی کی ونڈو شاپنگ سب کچھ ایک خواب ہو گیا ہے۔ جیسے نائن الیون کے اثرات اب تک ہم ادب اور زندگی کے دیگر دائرہء کار میں دیکھتے آئے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ  Covid 19 کے بعد بھی ایک نئی زندگی جنم لے گی۔ اُس نئی زندگی کے انتظار میں اگر ہمیں اس لیے قید کیا گیا ہے کہ کچھ دن کے بعد نفرتیں نہ رہیں گی ہم فرد سے لے کر قوم تک حقیقی طور پہ “ہم ایک ہیں” کا نعرہ بلند کریں گے تو یہ اسیری زیادہ مہنگی نہیں۔

مگر پچھلے چند روز کے دل دہلا دینے والے سانحوں نے مجھے مزید مایوسی کی طرف دھکیل دِیا ہے۔ کیرولا میں ہتھنی پہ جو ظلم کِیا گیا، امریکہ میں ایک انسان سے محض اس لیے سانسیں چھین لی گئیں کہ اس کی رنگت سیاہ تھی اور پھر طوطے کو آزاد کرنے پہ معصوم بچی سے جینے کا اختیار چھین لینا۔۔ یقین مانو یہ سب مظالم سن کر دل کانپ اُٹھا ہے اور بطور انسان دیکھا جائے تو ہم سب کہیں نہ کہیں انسانیت سے عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے واقعات سن کر دل مزید سُکڑ جاتا ہے اور انسان ہونے پہ مزید شرمندگی ہونے لگتی ہے۔

کچھ دن پہلے فیس بُک پہ ایک رجحان سیٹ کیا گیا تھا کہ جب یہ لاک ڈاون ختم ہو گا تو ہم فلاں کے گھر ناشتہ اور فلاں کے گھر چائے پئیں گے ہم تو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ ہم صرف لاہور کا ٹکٹ کٹا کر انگلیاں ملائیں گے اور ایک کپ چائے کو صدیوں کی مسافت طے کرنے کے بعد گھونٹ گھونٹ اپنے وجود میں اُتار کر دائمی دوستی کا مزہ چکھیں گے۔

دیکھو ایک بات تم سب یاد رکھنا جیسے ہی لاک ڈاون ختم ہو گا ہمیں اس اداسی کو ختم کرنے کے لیے پورے لاہور کی سیر کرنی ہے تا کہ دوستی کے لباس سے جو بدبو کے بھبھوکے آنے لگے ہیں، اس میں ایک بار پھر زندگی کا عطر اُنڈیل کر زندگی کی رونقیں واپس لائی جا سکیں۔ مہوش تم اپنے نوح (بیٹا) کو سلا کے آنا اور جلدی واپس جانے کا کوئی بہانہ نہ بنانا، میرے لاہور پہنچنے کی خبر ملتے ہی ہمیشہ کی طرح طیبہ سب سے پہلے کال ملائے گی اور جلد ملنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وقت اور جگہ پوچھ کر اپنے آنے کی نوید سنائے گی۔ ثوبیہ مقبول کو بھی جیسے ہی پتہ چلے گا وہ بھی مجھے فون کرتے ہوئے پوچھے گی کہ ملنے آنے سے پہلے کون کون سی کتاب اٹھاتی لاوں اور اپنی مصروفیات سے وقت نکالتے ہوئے کوئین میری سے واپسی کا وقت بتائے گی اور یوں ایک کپ چائے پہ کتاب سے لے کر سماجی رویوں تک کئی نہ ختم ہونے والی باتیں ہوں گی۔ اگلی صبح ہم سب میٹرو سے سول سیکریٹریٹ کے اسٹیشن پہ اُتر کر ٹی ہاوس سے چائے پیئیں گے جس میں کئی شکووں شکایتوں کے بعد ایک مسکراتی سی سیلفی ہو گی۔ پھر دس بجے اورینٹل کا رُخ کریں گے۔ لائبریری کی واپس کرنے والی کتابوں کو لائبریری عملہ کے اقبال بھائی کو واپس کرتے ہوئے تمام اساتذہ کے دفاتر میں جھانکیں گے، سب اساتذہ کی مصروفیات دیکھتے ہوئے اورینٹل کے لان میں دیر تلک باتیں کریں گے۔ تب تک میں کسی نہ کسی بات پہ رُوٹھ چکی ہوں گی سو مجھے منانے کے لیے ثوبیہ کینٹین پہ چائے کا کہہ کر بات کا رُخ موڑ دے گی۔ اور اس طرح میں ایک کمینی سی ہنسی ہنس کے خاموش ہو جاوں گی۔ اس دوران سعدیہ، عزیزہ، سمعیہ اور کئی سہیلیوں کی ڈھیروں باتیں کریں گے۔  شام ہوتے ہی ہم گورنمنٹ کالج کے مینار تلے کچھ دیر آرام کریں گے اور پھر گول گپے کی کسی ریڑھی پہ کھڑے ہو کے زیادہ سے املی والے پانی کے ساتھ کھٹی میٹھی دوستی کے مزے لُوٹیں گے۔ جیسے جیسے شام ڈھلے گی دل ڈوبنے لگے گا کہ ہم ایک دوجے کو ایک ایک گھڑی تحفے میں دیں گے جو اس بات کا پیغام ہو گا کہ تم سب جہاں بھی رہو اس دوستی کے لیے وقت نکالتی رہنا۔

مایوسی بھرے دنوں میں آنے والے پُر امید لمحوں کا سوچ کر ہی اس پریشانی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تنہائی کیا ہوتی ہے ایک ایک لمحہ قیامت کیسے گزرتا ہے یہ سب کتابوں یا کہانیوں میں سنا ہوگا۔ حقیقی زندگی میں اس کو گننا اور جھیلنا نہایت کرب ناک ہوگیا ہے۔

مولا علیؑ کا فرمان ہے کہ میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ اب جب کہ اس اسیری نے ہمارے خواب اور ارادے سب اپنی موت آپ مار دیے ہیں تو  ایسے میں خوشیوں بھرا نغمہ لکھنا میرے بس میں نہیں۔ چند خوابوں کی ایک مالا تھی جو اس خط میں پُرو کے تم سب دوستوں کے نام بھیج رہی ہوں۔ یہاں تنہائی کو بٹانے کے لیے محض چند کتابیں ہیں جو مجھے اب تک زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ایک کر کے یہ بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ وقت کے بلالؓ کو آواز دو کہ اس خوف ناک رات کا اندھیرا ہم سے نوحے نہ لکھوائے کیوں کہ ابھی  ہم خوشی کے نغمے لکھنا چاہتے ہیں۔

والسلام تم سب کی سہیلی حفصہ مالک