کوئی صورت ایسی

یہ تحریر 923 مرتبہ دیکھی گئی

 (نظمِ معرّٰ ی)

کِتنی تاخیر سے مہر اُبھرا تِری مہر کا آج

خِیرہ آنکھوں کی ہے مجبوری کوئی دھندلا پن

سامنے آ جا مگر دھیمی ذرا سانس کی لَو

اور سُلگا دے کوئی بیتے سمے کا صندل

پھِر خموشی کی کُٹھالی میں سبھی یادیں اُنڈیل

سینت کر دِل کے نہاں خانوں سے لاؤں مَیں بھی

داستانیں کہ جنھیں ہونٹ نہ عنوان ملے

گوندھ کر عرقِ خجالت میں بصد فن کاری

ان سے پھر دونوں کشیدیں کوئی صورت ایسی

اُنگلیاں جس پہ نہ اُٹھّیں ، ہاں نگاہیں اُٹھّیں

وقت کا ریگِ رواں جس کو نہ دھندلا پائے

جس کا رومان نہ لے جائے کہیں ماضی میں

جس کے موجود ہی میں خود کو سمویا جائے

وقتِ آئندہ کو بھی جس میں ڈبویا جائے