کن رسیا

یہ تحریر 719 مرتبہ دیکھی گئی

بچپن سے ہی عمر کو کن رسیا کہا جاتا تھا،ماں نے اندازہ لگایا کہ اگر موسیقی کی آواز ہو تو عمر سکون سے بستر میں لیٹا رہتا ہے۔ماں نے ہی یہ دلچسپ انکشاف کیا تو سارا گھرانہ ہی تجربے کرنے لگا۔عمر کے کانوں میں موسیقی کی آواز رہتی تو پر سکون سا ہاتھ پاؤں چلا چلا کر ترنم کا ساتھ دیتا اور اگر ٹی وی بند کیا جاتا یا آواز دھیمی کرتے تو وہ بیکل ہو کر فیڈر بھی پھینک دیتا اور بعض اوقات تو بطور احتجاج رونے بھی لگتا۔عمر کو خوش رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ نغمہ گیت یا پھر سازوں کی آواز رہے،بڑا ہوا تو اسے گیتوں سے اور بھی رغبت ہوئی آوازوں کے بارے میں وہ بے حد حساس تھا۔بارش برستی تو اس میں بھی ترنم مل جاتا۔ندیوں کی آوازیں، وادیوں میں تیز ہواؤں کا چلنا۔وہ اکثر کہا کرتا کہ ہواؤں کی اپنی ایک لے،ایک گت ایک ترنم ہے۔چونکہ ہم ہواؤں کی زبان نہیں سمجھ پاتے اس لیے دور دیس سے ٹنڈرا کے میدانوں سے آنے والی ہواؤں کی محض سردی ہی محسوس کرسکتے ہیں،صرف ان کا وہ اثر جو دل پہ ہوتا ہے سردی سینے میں تو اتر جاتی ہیں۔لیکن ہواؤں کا ترنم اجنبی زبانوں کے گیت ہم کب سنتے ہیں۔ان کا ہمیں کچھ بھی احساس نہیں ہوتا۔اسے جو بھی جیب خرچ ملتا وہ موسیقی پہ خرچ کر ڈالتا۔صبح اٹھتے ہی وہ گیت لگا لیا کرتا۔جس پہ اس کے ابا بڑا فروختہ ہو جایا کرتے ” رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جہاں گیتوں کی آواز ہو۔موسیقی کی آواز ہو۔یہ مراثی کا پتر ہمارے گھر میں کیسے جم گیا “ عمر رفتہ رفتہ دشنام سہنے کا عادی ہو گیا،ابا بعض اوقات جوتا اچھال پھینکتا جو لحاف کی ڈھال سے عمر روک لیا کرتا۔
کالج میں اس نے ایک مصرعہ سیکھ لیا۔جب ابا جھینکتا تو وہ مسکرا کر جواب دیتا ” یاں وہ نشہ نہیں جنہیں ترشی اتار دے “
عمر کو سرکاری ملازمت بھی ملی تو وہ کانوں میں ہیڈفون Ear piece لگائے فائلوں پہ کام کرتا رہتا۔کئی افسروں نے ڈانٹا ڈپٹا تو وہ یونین کے صدر کو حمایت میں لے آیا۔صدر نے آنکھیں دکھائیں کہ جب کام پورا کرتا ہے تو کانوں سے آپ کا کیا تعلق؟ بلکہ میوزک سے تو وہ اچھا کام کرتا ہے۔ویسے بات بھی خدا لگتی تھی۔باقی کلرک ادھر ادھر بھاگ جاتے۔کچھ تو لڑکیوں کے کالجوں کو سٹک جاتے۔بعض ویمن کالج کی راہ پہ مورچہ جا سنبھالتے۔مختلف مسجدوں میں ظہر کی نماز ان مسجد والوں کی اپنی اپنی مرضی سے ہوا کرتی۔یہ بھی عجیب اتفاقی حادثہ ہے کہ کاتب تقدیر نے نماز ظہر کا جو وقت رکھا تھا دوزخ کے کندوں نے وہی وقت کالجوں یونیورسٹیوں کی چھٹیوں کا رکھ چھوڑا تھا۔اگر افسر کچھ اعتراض کرتے تو پھر یونین کود پڑتی ” ساب آپ عقیدوں میں مداخلت نہ کریں۔ورنہ ہم توہین لگادیں گے “ افسر گھیگھیانے لگتے ” ارے بھائی ہم بھی مسلمان ہیں دفتر کی مسجد میں نماز ادا کر کے پندرہ بیس منٹ میں واپس آ جاتے ہیں۔کلرک گھنٹہ بھر تو وضو میں لگا دیتے ہیں۔یہ وضو بناتے ہیں کہ ریلوے کے انجن کی سروس کرنے جاتے ہیں منہ ہاتھ دھونے میں بھلا وقت ہی کتنا لگتا ہے؟“
یونین تو انتظامیہ کو دیوار سے لگائے رکھنے کے حق میں رہتی ” ساب اپنے فقہہ کی مسجد میں جاتے ہیں۔اس پر بھی کیا پابندی لگائیں گے؟“
عمر کو ایک برتری تو حاصل تھی کہ وہ دفتر میں گیت سنتا کام کرتا رہتا۔کبھی سازوں کی آواز Instrumental Music سے دل بہلایا کرتا۔بعض دوستوں کو یقین تھا کہ وہ دراصل اپنے آس پاس کی دنیا سے فرار چاہتا ہے۔ملک غربت میں ڈوب گیا۔ضمانتوں پہ جینے والے باعزت بری ہوئے بغیر ہی دوبارہ اقتدار میں آکر لوٹ مار کرنے لگے۔اس ملک میں حکومت کے علاوہ ان کا اپنا کچھ بھی نہ تھا۔زمین جائیداد کاروبار بچے سبھی کچھ تو دیگر ملکوں میں تھا۔انہیں کیا؟ وہ تو حلوہ مانڈہ کھانے والے فقیر تھے۔سر پہ ہما نے بوٹ رکھے دھم سے آن بیٹھا تو ان فقیروں کے وارے نیارے ہو گئے۔گمشدہ لوگ،مسخ شدہ لاشیں،خودکش حملے۔سول وار کے تیور! مگر عمر سبھی سے بے نیاز ہی رہتا کبھی کچھ سوال جواب ہوتا تو عمر سچائی سے کہتا کہ خالق نے اس کا ذہن ہی ایسا بنایا ہے۔اسے یہ بھی یقین تھا کہ زندگی ختم ہونے پر انسان موسیقی بن کر فضا میں گھومتے پھرتے رہیں گے۔اسے ذرا بھر دلچسپی نہ تھی کہ ڈالر کے بوٹ تلے روپیہ پسا جاتا ہے۔
شادی کی بات چلی تو سسرال تک یہ بات پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔
” سنا ہے کہ آپ کا بیٹا موسیقی کا بہت دلدادہ ہے “ ابا پہلی بار برخوردار کے سامنے آ کھڑے ہوئے ” ہاں! اچھا شوق ہے۔شکر ہے کہ کوئی بری عادت نہیں ہے۔اور یہ بھی مولا کا کرم ہے کہ نماز جمعہ میں پہلی صف میں موجود ہوتا ہے“
” سبحان اللہ……. سبحان اللہ “ دین دار سسر کھل اٹھا۔
” بس بھئی خالی جھولی ہم نہیں بھجوائیں گے۔رشتہ پکا ہی سمجھیں۔ویسے اندر کی بات ہے کچھ بالائی آمدنی بھی ہوتی ہے یا کہ تنخواہ پر ہی جوتے چٹخاتے پھرتے ہیں برخوردار ؟“
ابا کا سینہ تن گیا سر فخر سے دو ہاتھ بلند ہو گیا ” بھائی کسی سرکاری محکمے میں کڑکی ہے؟ لوگ تو لہروں سے بھی کما لیتے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ ماشاءاللہ بلوچستان کو عالمی اداروں نے بھی کرپٹ ترین صوبہ قرار دیا ہے۔کام کیا یہاں تو بات کرنے کے بھی پیسے لیتے ہیں “
شب زحاف عمر کو یوں لگا کہ اس کی بیوی نورین بھی ایک سندر۔مدھر۔کومل گیت ہے۔قدرت کا لکھا ایک ایسا گیت ہے جسے ایس ڈی برمن نے کمپوز کیا ہو۔دھن کلیان جی آنند جی اور شمشاد علی نے بنائی ہو۔اور جسے لتا،ہیمنت،رفیع،مکیش،طلعت نے مل کر گایا ہو۔جیسے آسمان اور زمین کا دلکش Duet جیسے کائنات مل کر شبدھ دے رہی ہو۔
” تم ایک حسین گیت ہو “ اس نے گھنگھٹ اٹھاتے ہی کہا۔نورین ایک Killing Beauty تھی۔دل کی گہرائیوں میں اترتا ہوا نغمہ۔
دلہن نے رواج کے مطابق شرمانے کی کوشش کی۔
” سنا ہے کہ آپ کو موسیقی سے عشق ہے؟ تو میرا کیا ہوگا“
عمر ہنسا ” وہ موسیقی مجسم ہو کر نورین بن گئی ہے “
کوئی ہفتہ بھر ہی میں نورین اکتا گئی ” میں آپ کی موسیقی کے ساتھ تو گزارہ کر لوں گی، مگر اتنے بڑے خاندان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔لگتا ہے کہ مچ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بیٹھی ہوں چین کا ملک ہوتا تو اتنے بچے پیدا کرنے پر آپ کے والدین کو گرفتار ہی کر لیتے “
عمر نے بھاگ دوڑ کر کے کچھ دے دلا کر سرکاری کوارٹر بھی حاصل کر لیا۔اور نورین کے ساتھ ٹھاٹھ سے رہنے لگا۔عمر کے بھائی بہن یوں تو ملنے آتے مگر بلا پلیٹ فارم آنے والوں کی طرح آتے اور چلے جاتے۔اس گھر پہ اب ان کا حق نہ تھا۔نہ ہی وہ کوئی تبدیلی کرسکتے۔ایک کمرہ تو عمر کے آلات موسیقی سے بھرا پڑا تھا۔پرانے ٹیپ ریکارڈ، ڈی وی ڈی، جو کب کے متروک ہو کر اجنبی فقیروں کی طرح پڑے تھے۔عمر انہیں خود سے الگ نہ کرتا۔جبکہ نورین کا اصرار تھا کہ انہیں فروخت کر دیا جائے” کباڑیے کو دے آؤ “ عمر بہت ناخوش ہوا۔
” اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ اپنے نانا دادا بھی کباڑیے کو دے آؤں۔ان کے ساتھ میری زندگی گزری ہے۔یہ میرے ساتھی ہیں۔“
اس نے نورین کو ڈانٹ دیا،سمے حسین انداز میں گزر رہا تھا کہ ان کی زندگی میں بھونچال آگیا جب موبائل پر وہ تانی سے متعارف ہوا۔کیا آواز تھی اس کی۔کیا زیروبم تھا۔اس کے لہراتے ہوئے گیسو،تیز ہواؤں کی اٹھکھیلیاں شام کے ڈوبتے سائے۔اس نے موبائل پر تانی کو فرینڈ بھی کر لیا۔ان کی دوستی محبت میں بدلنے لگی۔تانی بھی اس کی چاہت میں گرفتار ہوئی جاتی تھی۔اس نے بتلایا کہ وہ ایک یتیم لڑکی ہے۔والدین بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ایک بے اولاد رحم دل جوڑے نے اسے یتیم خانے سے حاصل کیا تھا۔وہی اس کے والدین ہیں وہ کیا ہے،کون ہے کوئی نہیں جانتا۔وہ خود بھی نہیں جانتی۔اس دکھ بھری کہانی سے عمر کے دل میں تانی کی محبت اور بھی بڑھ گئی۔اس نے سوچا کہ وہ تانی سے شادی کرے،وہ چار شادیاں بہت سی لونڈیاں بھی تو رکھ سکتا ہے۔کوئی قانون اسے روک نہیں سکتا تھا۔
اس نے نورین سے اظہار کیا تو وہ پاگل ہوگئی۔ایک حسین دلربا نغمہ تیزی سے گزرتی چیختی چلاتی کوچ کا بھیانک ہارن اور سنگریزے اڑتے ٹائروں کا شور بن گیا۔نورین نے موبائل چھین کر دیوار سے دے مارا،گھر میں لائن فون تھا نہیں۔اس چڑیل کی پٹاری ہی نورین نے توڑ ڈالی۔عمر نے نورین پر ہاتھ نہ اٹھایا وہ جانتا تھا کہ نورین کے بھائی اور کزن دوڑتے ہوئے آئیں گے اور دم بھر میں اسکا بھرکس نکال دیں گے۔وہ تھے بھی لحیم شحیم اور سخت جنگجو۔ہتھ چھٹ۔بات بعد میں کریں دھول پہلے جمادیں۔نورین یوں بھی خاندان کی لاڈلی تھی۔اوکھلی میں سر دینا مناسب نہ تھا۔خون کے گھونٹ پی کر عمر دوڑا گیا اور بازار سے ایک استعمالی موبائل خرید لایا۔جس میں مرحوم موبائل کی روح ڈالی تو وہ جی اٹھا۔دوبارہ تانی اسکی زندگی میں داخل ہو گئی۔گھریلوں سختیوں کے باعث تانی صرف رات میں ہی بات کر سکتی تھی۔وہ بے حد پریشان تھی۔
” تمہارا موبائل گھنٹوں بند رہا،خیر تو تھی؟ تم نے تو میری جان ہی نکال دی۔کیا ہوا تھا “
عمر نے ایک کہانی گھڑ لی کہ موبائل گر کے ٹوٹ گیا تھا۔تانی بہت دیر تک گفتگو کرتی رہی۔گیت سناتی رہی۔اسے بہت سے گیت یاد تھے۔تانی کو یقین تھا کہ 1956 سے 1958 کے دوران بننے والی تمام بھارتی فلموں کے گیت سپر ہٹ ہو گئے تھے۔عموماً بہت گیت سنایا کرتی۔تانی سے بات کر کے گیت سن کر عمر کو سکون ملا اور وہ گہری نیند سو رہا۔تانی کی مالی دشواریوں کے پیش نظر وہ ایزی پیسہ سے اسے رقم بھجواتا رہتا۔تانی کی والدہ اور والد کے آپریشن کے لیے تو دوستوں سے ادھار بھی پکڑتا۔آمدنی دو حصوں میں بٹنے کے باعث نورین نے باقاعدہ محاذ کھول لیا۔پھر ایک روز اس کے بھائیوں کی فوج چلی آئی۔اس کے آلات موسیقی۔یو ایس بی وغیرہ اٹھا کر چلتے بنے۔
نورین کی خاطر وہ اپنے خاندان کو تو پہلے ہی تج چکا تھا۔مدد کے لیے کسے پکارتا۔مجبوراً خاموش ہو لیا کہ پیار و محبت سے واپس مانگے گا۔جھگڑے میں تو شاید وہ سب کچھ توڑ ہی ڈالتے۔
عمر شام کو گھر لوٹا تو میدان صاف تھا۔نورین نے بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
” کن رسیا۔کانوں کے اندر جنت بسائے بیٹھا ہے۔دل چاہتا ہے کہ تمہارے کان ہی کاٹ دوں یا پرانے بادشاہوں کی طرح ان میں سیسہ ڈلوا دوں “
عمر کو نورین کے جارہانہ انداز زہر لگتے ” موسیقی کانوں میں نہیں دل میں رہتی ہے۔افسوس کے تم بے ذوق ہو “
نورین نے چھاپہ مار کاروائیاں شروع کیں وہ نماز مغرب کے بعد پارک میں درختوں تلے بیٹھ کر تانی سے گیت سنا کرتا۔آواز میں ایسا جادو تھا کہ وہ مسحور ہو کے رہ جاتا۔یہ سارے ہی گیت بلا موسیقی ہوا کرتے۔اگر ان گیتوں میں موسیقی طبلے کی سنگت ہوتی تو جادو بن جاتے۔تانی سے شادی کر کے وہ اسے جنگلوں صحراؤں میں لیے پھرتا۔
تانی اس کا گھر اجاڑنا نہیں چاہتی تھی۔
” تمہیں آواز سے محبت ہے تو آواز تک ہی رہو۔مجھے گھر میں قید کیوں کرنا چاہتے ہو تمہاری بیوی بھی ناراض ہوگی۔مفت میں لڑائی جھگڑے ہوں گے اب وہ پرانی بیویاں کہاں جو درجن بھر بیویاں لونڈیاں قبول کر لیتیں “
عمر اسے قائل کرتا ” بلبل کوئل کنیری اور جل جیسے پرندے بھی تو لوگ پنجروں میں رکھتے ہیں۔ان کو درختوں باغوں میں آزادانہ گانے کی اجازت کہاں دیتے ہیں۔میں بھی چاہتا ہوں کہ چاندنی راتوں ، سرد موسموں میں تمہارے گیت سنوں۔اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ تمہیں حاصل کر لوں “
تانی نے نقرئی قہقہہ لگایا ” حاصل کروں کا مطلب میں نہیں سمجھی مرد ہمیشہ ہی عورت کو حاصل کروں پر مغلوب کرتے چلے آئے ہیں۔ہم برابری کی سطح پر کیوں نہ محبت کریں۔یہ محبت ہے کہ ورلڈ ریسلنگ جس میں پچھاڑنا ضروری ہوا کرتا ہے۔حاوی ہونے کو تم حاصل کرلوں کہتے ہو “
ادھر نورین نے بھی کالونی کے کچھ بچے جاسوسی پہ لگا رکھے تھے۔جو چاکلیٹ یا اچھے بسکٹ لے کر سی آئی ڈی بنے پھرتے۔
” تم مسجد کے بعد پارک میں کیوں چلے جاتے ہو “ وہ بگڑ گئی۔عمر بھی جُل دینے کا ماہر تھا اس نے جھٹ تسبیح جیب سے نکالی ” میں کچھ ذکر اذکار کرتا ہوں۔نیچر کے ساتھ رہ کر اکیلے میں دل اللہ اللہ کرتا ہے “
نورین متامل تھی ” اس چڑیل کے تو پہلے گیت سنتے تھے میرے کن رسیا “
عمر نے یقین دلانے کی پوری کوشش کی مگر وہ اس کی قسموں پہ یقین نہیں کر رہی تھی۔عمر نے تانی کو ایک دوست کے ہاں ٹھہرانے کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔اس نے کئی بار ہوائی جہاز میں آنے جانے کا کرایہ بھی ایزی پیسہ سے بھجوایا۔مگر کچھ ایسی افتاد پڑتی کہ بس آخری لمحات میں ہی تانی کو رکنا پڑتا۔کبھی ابا کو دل کا دورہ پڑتا کبھی سیڑھیوں سے ماں گر جاتی۔اسکا مسئلہ ایف آئی کے ایک دوست نے حل کر دیا۔” ہمارے پاس Sim Detector ہے۔میں تمہیں اس لڑکی کا پتہ نکال دیتا ہوں “
عمر کو بہت خوشی ہوئی اسکے دوست نے بتایا کہ سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے کام لیتے ہیں۔مگر دوستی میں سسٹم محبوبہ کھوجنے کے لیے استعمال ہوگا۔جس کی اجازت بھی نہیں ہے۔
اگلے ہی روز اسے تانی کا مکمل پتہ مل چکا تھا۔البتہ یہ سم اس کے نام کی نہ تھی بلکہ کسی رزاق نامی لڑکے کی تھی۔دوست نے خوش خبری سنائی کہ اس علاقے کا تھانیدار بھی اس کا دوست ہے۔وہیں ٹھہرے اور اپنے کانوں کی شہزادی سے رابطہ کرے۔
” میں اللہ کے راستے میں لاہور جا رہا ہوں تبلیغ کے لیے۔چند روز میں آ جاؤں گا “
عمر نے نورین کے سامنے سنجیدگی سے اعلان کیا۔لاہور کفرستان تو نہ تھا مگر تبلیغ کا اپنا مقام ہے۔نورین کو خوشی ہوئی کہ عمر اب اللہ کی راہ میں چل نکلا ہے۔گانے بجانے جیسی کفری عادتوں سے باز رہے گا جو آخر اسے جہنم کے نچلے درجے میں لے جائیں گیں۔اپنا بیگ اٹھا کر شام میں وہ کوچ میں جا بیٹھا تو اگلے روز لاہور میں تھا۔اپنی تانی کے شہر میں اسکا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔تھانے دار سے موبائل پر پہلے ہی بات ہو چکی تھی۔اسے تھانے پہنچنے میں وقت نہ لگا بلکہ ٹیکسی ڈرائیور نے کھیسیں نکال دیں” آپ تھانیدار کے بھائی اور ہمارے مہمان ہیں “ کرایہ لیے بغیر ہی خوف زدہ سا رسہ تڑا کر بھاگ نکلا۔تھانیدار امجد تو چاہتا تھا کہ عمر کچھ آرام کر لے۔مگر دلِ عاشق میں قرار کہاں۔
امجد چوڑے شانوں والا وجیہ جوان تھا،چہرے پہ البتہ کبھی کبھی تارا مسیح چھلک جاتا۔کاغذ پہ نام پتہ دیکھ کر امجد کا ماتھا ٹھنکا۔وہ اچھل پڑا ” اس لونڈے کو پہلے ہی کئی بار پکڑا ہے۔چھترول بھی کی ہے۔مگر رات میں چھوڑ دیا کہ سپاہی تھانے پر سکینڈل ہی نہ بنا دیں۔بڑی اعلیٰ وہگ لگاتا ہے کمبخت۔یہ مختلف ادا کاروں کی آوازیں نکال سکتا ہے۔عورت بن کر بھی بول سکتا ہے۔لگتا ہے کہ لڑکی بناتے بناتے قدرت نے اچانک ہی ارادہ بدل لیا اور اسے لڑکا بنا دیا۔اوئے رفیقے جا اس منڈے رزاق کو بلا لا “
” بھائی عمر میرے خیال میں ہمارے ملک میں دس فی صد مرد رہ گئے ہیں،اکثر مرد لڑکیاں بن کر مردوں سے مال پکڑتے یا ان چکروں میں موبائل ہی میں ڈوبے رہتے ہیں “
عمر کو یقین تھا کہ امجد کو سہو ہوا ہے ” شاید یہ تانی کا کوئی عزیز ہو۔وہ تو ایک معصوم سی لڑکی ہے۔مگر اسی رزاق سے ہی تو اسکا پتہ چلے گا “
کچھ ہی دیر میں رفیقا میر تقی میر کا وہ عطار کا لونڈا لے آیا جو تیخ بکف غیر کی طرف جانے کا عادی تھا۔اور جس کے تل پہ حافظ شیرازی سمر قند و بخارا بخشنے کے لیے تیار تھا۔وہ سہما ہوا سا با ادب کھڑا ہو گیا۔خوف سے اسکا حسن گہنا گیا۔
” یہ تانی کون ہے “ امجد نے میز سے بید اٹھایا ” پتر چمڑی اتاروں یا شرافت سے اگلو گے؟ “
” جی میں ہی ہوں! جب میں اسٹیج ڈراموں میں کام کرتا ہوں لڑکی بن کر تو یہی میرا نام ہوتا ہے۔سارے لوگ جانتے ہیں۔یہ تو فن ہے میں کوئی چوری تو نہیں کرتا۔آپ الحمراء فون کر لیں “
امجد پر تھانیداری طاری تھی۔وہ گرجا ” لتا کی آواز میں کوئی گانا سنا۔عورت کی آواز میں بول “ رزاق نے عورت کی آواز بنا کر امجد کو لجاجت سے بے گناہی کا یقین دلایا۔
عمر کے سندر سپنے ٹوٹ گئے۔سامنے تانی آ کھڑی ہوئی وہ گا رہی تھی ” راجہ کی آئے گی برات رنگیلی ہوگی رات “ لتا کی جادو اثر من موہنی آواز سے کمرہ بھر گیا۔مگر شیش ناگ کی طرح امجد پر اثر نہ ہوا۔اس نے بید میز پر مارا ” تم عمر صاحب کو بے وقوف بناتے رہے۔ابھی تم کو ڈک دوں گا۔دیکھنا کیا حال کرتا ہوں نہ ریڈی ایٹر بچے گا نہ ہی ہوز پائیپ“
رزاق لرز گیا اور گھیگھیانے لگا۔
” یہ مرد خود ہی بیوقوف بنتے ہیں۔عورت سے پیدا ہو کر عورت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔شاید پیدا ہی نہیں ہونا چاہتے وہیں واپس جانا چاہتے ہیں اسی لیے ہر بچہ پیدا ہوتے ہوئے روتا ہے “ رزاق چونکہ اسٹیج ایکٹر تھا اس لیے فر فر بولے جا رہا تھا ” چڑیل،پری، لونا چماری، جل پری ، دیونی، اور جنت کی حور ان کے لیے مرے جاتے ہیں۔حوروں کے لیے خودکش حملے کرتے ہیں۔یہ عمر صاحب خود ہی لٹو ہو گئے تھے میرا کیا قصور ہے۔خود ہی پیسے بھجواتے تھے میں کوئی پستول دکھاتا تھا۔یہ عورت کے دل کو بھی سرکاری دفتر سمجھتے ہیں جو رشوت سے چلتا ہے۔محبت تو یہ کرتا تھا اسے پکڑیں ایکٹو تو یہ تھا۔میرا تو Passive Love تھا۔مجھے تو فون بھی یہی کیا کرتا۔اور میری اصل جاپانی وہگ پر مرتا تھا۔بھائی وہگ سے محبت کرو مجھے کیوں چھیڑتے ہو “
تانی کمبخت اتنے پیسے کھا کر اب پہچاننے کا روادار بھی نہ تھا۔رزاق کے اندر سے تانی نہ بر آمد ہو سکی۔ایک گھاگ شاطر لڑکا تھا بس۔
امجد گرجا ” اسے باہر برآمدے میں بٹھا دو اور جب بولوں حوالات میں الٹا لٹکا دینا پھر دفعہ 377 میں پکڑے گئے مجرموں کے حوالے کر دینا “
امجد تجربہ کار افسر تھا۔اس نے بھانپ لیا کہ عمر کے حواس جواب دے چکے ہیں ڈھیر ہونے کو ہے۔محض مردانگی نبھانے کی خاطر کرسی پر سیدھا بیٹھا ہے۔اس نے پانی اور پھر چائے پلائی کہ مبادا دفتر میں ہی ڈھیر ہو جائے۔
” عمر صاحب حوصلہ کریں۔یار مرد بنیں “
امجد نے حوصلہ بڑھایا۔جب عمر کی حالت سنبھلی تو امجد نے رائے پوچھی۔
” چیل کے آلنے میں ماس کہاں۔روپیہ تو نہیں ملے گا۔رقم پوری کرنی ہے تو ہم ساتھ کر دیتے ہیں۔یہیں تھانے میں رہیں رقم پوری کرتے رہیں۔یا پھر ہیروئن وغیرہ میں ڈک دیتا ہوں۔آپ کیا چاہتے ہیں “
عمر کے سامنے کائنات گھوم رہی تھی جو شاید پہلے گھومے جا رہی تھی۔اسے اندازہ اب ہوا تھا۔
” مجھے کوچ اڈے پہنچا دیں مہربانی ہوگی “
اسکا بیگ سپاہی نے اچک لیا۔برآمدے میں رزاق بینچ پر بیٹھا آنسو بہا رہا تھا عمر لا تعلق سا گزر گیا۔
عمر مجھے تھانے سے تو بچا لو،میرے سیاں “
کوچ کے دفتر میں سپاہی دندناتا داخل ہوا۔
” یہ تھانیدار صاحب کے مہمان ہیں “
سپاہی نے عمر کا بیگ زمین پر پٹخ کر اعلان کیا تو منیجر گرم جوشی سے مصافحہ کرنے لگا۔چائے کا آرڈر دیا۔عمر کے بیگ میں تانی کے لیے تحفے تھے ان کا کیا کرتا اتنی قیمتی چیزیں پھینک بھی تو نہ سکتا تھا۔منیجر نے زبردستی لنچ کرایا ورنہ عمر کا جی تو چاہتا تھا کہ راوی کے پُل سے کود کر زندگی کا خاتمہ کر لے۔مگر خشک دریا تھا اپاہج ہی ہو سکتا تھا۔داتا دربار خیرات مانگتے عمر گزرتی۔کوچ میں بیٹھنے تک اس کے ہوش بجا ہو چکے تھے۔اس نے موبائل میں روح پھونکی ” نورین مجھے اندازہ ہوا کہ میں تمہارے بغیر رہ نہیں سکتا۔چاہے جنت ہی کیوں نہ ہو۔ایک خوش خبری میں واپس آرہا ہوں اور تمہارے لیے ایسے شاندار تحفے لا رہا ہوں کہ کھل اٹھو گی “ تانی کے تحفے تو یوں بھی بیگ سے غائب نہ ہو پاتے۔بہتر یہی تھا کہ گھر کا مال گھر ہی میں رہے۔چلو بیوی تو خوش ہوگی۔پرانی کدورتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔
نورین بھی بے حد مسرور تھی ” تمہارے لیے بھی خوش خبری ہے۔کل جو بھائی گھر پہ رہنے کے لیے آئے تھے وہ بھی تھانیدار امجد کے دوست ہیں۔پوری کہانی امجد نے انہیں بھی سنادی۔تم اکیلے ہی آ رہے ہو اس لیے تمہارا موسیقی والا کمرہ بھی آلات موسیقی سے سجا دیا ہے۔ویسے مجھے تانی پر اعتراض تھا۔رزاق کو تو اب بھی ساتھ لا سکتے ہو “

  • مرشدی غلام عباس کے افسانے کن رس سے یہ عنوان مختلف ہے۔

آغآ گل کی دیگر تحریریں