وہ جن ہاتھوں نے
کھلونوں سے کھلنا تھا
جس عمر میں
جھولوں پہ جھولنا تھا
یہ کسی کی ستم ظریفی نے
ان کے ہاتھوں میں
ٹوٹے کشکول تھما دیے
جن کی آرزوئیں، خواب اور خوشیاں
کشکول میں کھنکتے
سکوں سے منسوب ہوگئی
فٹ پاٹ پہ کھڑی
بوجھل سی معصوم آنکھیں
جو حیا سے جھکی ہوئی ہے
آنسوؤں سے ٹوٹے کشکول کے
پیندے کو تر کر رہی ہے
کشکول
یہ تحریر 537 مرتبہ دیکھی گئی