کشکول

یہ تحریر 537 مرتبہ دیکھی گئی

وہ جن ہاتھوں نے
کھلونوں سے کھلنا تھا
جس عمر میں
جھولوں پہ جھولنا تھا
یہ کسی کی ستم ظریفی نے
ان کے ہاتھوں میں
ٹوٹے کشکول تھما دیے
جن کی آرزوئیں، خواب اور خوشیاں
کشکول میں کھنکتے
سکوں سے منسوب ہوگئی
فٹ پاٹ پہ کھڑی
بوجھل سی معصوم آنکھیں
جو حیا سے جھکی ہوئی ہے
آنسوؤں سے ٹوٹے کشکول کے
پیندے کو تر کر رہی ہے

ریحان علی کی دیگر تحریریں