کرنا اب کیا چاہیے، اقوامِ شرق

یہ تحریر 860 مرتبہ دیکھی گئی

“پس چہ باید کرد، اے اقوامِ شرق”پانچ سو تیس اشعار پر مشتمل فارسی مثنوی ہے جو علامہ اقبال نے 1936ء میں قلم بند کی تھی۔ یہ عنوان اور مثنوی کے مندرجات اس وقت بہت بامعنی معلوم ہوتے ہوں گے۔ ستم یہ ہے کہ ان ملکوں کے حالات، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، کہیں زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ البتہ جاپان، دوسری عالمی جنگ میں تباہ و برباد ہونے کے بعد، معاشی طور پر دنیا کے مضبوط ترین ملکوں کی صف میں شامل ہو چکا ہے اور چین کی حیثیت اب سپرپاور جیسی ہے۔ اس طرح کی ترقی کسی اسلامی ملک کے حصے میں نہیں آئی۔ پاکستان سے لے کر الجزائر تک سب مغربی استعمار کے شکنجے میں ہیں۔ انگلستان کے عروج کا دور تمام ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے وقت سے اسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بغل بچے کے سوا کچھ نہیں سمجھا جا سکتا۔ امریکی انگریزوں سے زیادہ چالاک نکلے۔ بظاہر ان کا کسی ملک پر قبضہ نہیں لیکن مالی اور فوجی امداد کے ذریعے سب کو اپنا دست نگر بنایا ہوا ہے۔ قرائن یہ کہتے ہیں کہ ان ملکوں کی تباہی میں اضافہ ہوگا۔ اس اعتبار سے علامہ اقبال کی یہ مثنوی 1936ء کی نسبت آج زیادہ برمحل ہے۔ مشکل ہے تو یہ کہ اتنی مدت گزر جانے کے بعد بھی کسی اسلامی ملک کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان نادیدہ یا خفیہ زنجیروں سے کس طرح رہائی حاصل کریں جن میں مغرب یعنی سفید فام اقوام نے انھیں جکڑ رکھا ہے۔
مثنوی فارسی میں ہے اور فارسی جاننے والے پاکستان میں اب کم رہ گئے ہیں۔ اس لیے علامہ اقبال کا اردو کلام ہمیں جس قدر پُراثر اور جاندار معلوم ہوتا ہے، فارسی کلام کے کمالات کا اس طرح چرچا نہیں ہو سکتا۔
اقبال کی آرزو تھی کہ ایشیائی اقوام اپنے پرانے سرچشموں سے، جو مغرب کے زہریلے اثرات سے پاک تھے، رجوع کریں اور اپنی عظمت دوبارہ حاصل کر لیں۔ مثنوی کے مزاج سے ظاہر ہے کہ اس میں بنیادی طور پر مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ چین، جاپان اور بھارت کے لیے (جہاں کی موجودہ حکومت مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کا سوچ رہی ہے) یہ مثنوی کوئی معنی نہیں رکھ سکتی۔ صرف مسلمانوں کو اس ضمن میں فکر مند ہونا چاہیے۔ افسوس کہ ان کے ذہنوں میں بالکل واضح نہیں کہ کون سی راہ اختیار کرکے وہ دنیا میں دوبارہ کوئی اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض عرب ممالک تو تقریباً عرب یہودی بھائی بھائی اور عرب ہندو بھائی بھائی کا نعرہ بلند کرنے پر مائل نظر آتے ہیں۔ طمانیت کا پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے نعرے ہمیشہ ناکام ہی ثابت ہوئے ہیں۔
اقبال نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ مسلمان بیدار ہونے کے بجائے نیم مدہوش ہی رہیں گے۔ قائداعظم کی روح بھی حیران ہوگی کہ جس پاکستان کا خواب انھوں نے دیکھا تھا وہ کہاں گیا۔ مایوسی کی انتہا یہ ہے کہ مسلمان قیامت برپا ہونے کے تمنائی ہیں۔ نجات کی کوئی اور راہ انھیں نظر نہیں آتی۔ پہلے قیامت چودھویں صدی ہجری میں آنی تھی لیکن نہیں آئی۔ موخر ہو گئی۔ اب پھر دجال کا انتظار ہے۔ امام مہدی کے آنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
تحسین فراقی صاحب نے مثنوی کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ وہ فارسی سے خوب واقف ہیں اور اردو شاعر کے طور پر بھی انھیں سراہا گیا ہے۔ ترجمہ رواں ہے، شعری صفات سے آراستہ ہے اور اقبال کے مطالب کی ترجمانی کا حق ادا کرتا ہے۔ امید ہے کہ اسے مقبولیت حاصل ہوگی۔ زمانہ بالکل بدل گیا ہے۔ مسائل بہت پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ قارئین کو مثنوی سبق آموز بے شک معلوم ہو گی لیکن ان کی سمجھ میں نہ آئے گا کہ کیا کرنا چاہیے جو سوال 1936ء میں پوچھا گیا تھا وہ آج بھی جواب طلب ہے۔
اب کیا کرنا چاہیے اے اقوامِ شرق
مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی
ناشر: اقبال اکادمی، لاہور
صفحات: 190؛ پانچ سو ساٹھ روپیے