کربلا کی چار دیواری میں آیات بکهری ہوئی ہیں
جو ازل اور ابد کے نقش بناتے ہوئے
دل پر دستک دے رہی ہیں
محرم کی چمک شہروں میں پهیل رہی ہے
دن یا حسین کی پکار کے ساته کون ومکاں کی دہلیز پار کر رہے ہیں
میں زمین کے خیمےمیں درد کی چادر اوڑه کر
کسی اسیر کی طرح نکلا ہوا ہوں
میں نے صحرا میں فرات کی طرح بہتے ہوئے
پیاس کے تسلسل کے مظاہر دیکهے
لفظوں کے بیابانوں میں آنکهیں بوئیں
تقدیر کے بکهرے ہوئے تاروپود سائبان بن کر پهیل گئے
میں کوفہ و بغداد کی گلیوں میں حسین کے لشکر کے ساته
لا الہ الا اللہ کے ورق پڑهتا ہوں
اور فرات کے کنارے جاتا ہوں
اے کربلا ! نامختتم صحرا میں دن گزرتے جا ریے ہیں
میں تیری ریت سے لب تر کرتا ہوں
آنکهوں میں شہیدوں کے لہو سے چراغاں ہے
میں تیرے نئے آثار پا کر سجدہ کرتا ہوں
لب التجا کی نمی میں ڈوبے ہوئے ہیں!
کربلا کی چار دیواری میں
یہ تحریر 2436 مرتبہ دیکھی گئی
