چوگا

یہ تحریر 522 مرتبہ دیکھی گئی

۔۔۔
آج شہر میونخ کی اک شاہراہ پر
خلافِ توقع کبوتروں کو دیکھ کر
میری یاداشت کی رِیل پر اک دم
پیپر ماشی کی وہ ڈبیا آئی
جو پچھلے برس ایک اچھوتے مشورے کو ماننے کی خاطر
چکڑی بہک سے خریدی تھی میں نے
وہ تب سے پڑی ہے میرے بستے کے اندر
جب ہاتھ دکھانے کے شوق میں آ کر
اک شخص کو ہاتھ دکھایا تھا میں نے
وہ نہ تھا نجومی، نہ درویش، نہ عامل
شاید اسی لئے ہاتھ دیکھ کر
جو مشورہ اس نے دیا تھا مجھ کو
وہ باقی سب سے جدا اس قدر تھا
کہ فوراً سے جا کر
پرندوں کا چوگا خریدا تھا میں نے
ہاتھ دیکھ کر کہا تھا اس نے
“اے ری جھلی! لکیروں کا قسمت سے کوئی سمبندھ ہے؟
یہ بات ہر حال میں بحث طلب ہے۔
تم ایسا کرنا
اٹھ کے روزانہ
پرندوں کو دانہ
ڈالتی رہنا
سب کا بھلا، سب کی خیر”
تب سے وہ ڈبیہ پڑی ہے میرے بستے کے اندر
جس میں پرندوں کا کھانا دھرا ہے
یورپی پرندے آوارہ نہیں ہیں
یا ان کو منڈیروں سے نسبت نہیں ہے
جو بھی وجہ ہے بہت سمے سے
ممٹی کے اوپر یا سڑک کنارے
پرندے مجھ کو دکھے نہیں تھے
پر آج اچانک برف میں کھیلتے
کبوتروں کے جھنڈ کو
کشمیرکے کسی پنساری کی دکاں سے
خریدا ہوا چوگا پروسا ہے میں نے
اور پھر کچھ ہی لمحوں میں بڑی مشکلوں سے
خود کو پھر سے یاد ماضی کی دلدل میں
دھسنتے جانے سے روکا ہے میں نے۔ ۔ ۔!