پَرلوک بیٹھک

یہ تحریر 2098 مرتبہ دیکھی گئی

موجو کا بڑا دکھ ہے مجھے، جیواں۔ کہنے کو تو وہ میرا بھتیجا تھا مگر تجھے تو معلوم ہی ہے کہ وہ میرا بیٹا تھا۔
چھوڑ جبرو ان باتوں کو۔ یہ تو پرانی بات ہوگئی۔
پر جیواں، مجھے تو یہ کل کی بات لگتی ہے جب کھپرو تجھے بیاہ کے لایا تھا۔
میں نے کہا نا کہ چھوڑ ان باتوں کو۔ تو سنا تیرا کیا حال ہے، کھپرو کیسا ہے؟
اری پاگل! کیسے چھوڑ دوں ان باتوں کو؟ موجو تیرا کچھ نہیں لگتا تھا؟ تو جو اتنی بیگانہ ہوگئی ہے اس سے۔ تجھے اس کے مرنے کا گَم نہیں کیا؟
مجھے اس کے مرنے کا گَم کیوں نہیں ہوگا۔ میری تو کوکھ سے وہ نکلا تھا۔ کتنا سندر تھا جب وہ پیدا ہوا تھا۔
سندر کیوں نہ ہوتا۔ پُوت کس کا تھا؟ اور تونے وہ اکھان نہیں سنا، کہ باپ پر پُوت پِتا پر گھوڑا/ بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ اور وہ تھوڑا تھوڑا بھی نہیں پورا ہی مجھ پر گیا تھا۔ اور ہاں، کھپرو جب تجھے بیاہ کرلایا…
(جیواں بات کاٹ کر) نہ، جبرو نہ۔ رام رام کر۔ پاپ پاپ ہی ہوتا ہے۔
ارے مجھے بات تو مکمّل کرنے دے۔ تو پاپ پُن کا جھمیلا لے بیٹھی۔ بندہ تو جنم جنم کا پاپی ہووے۔
دیکھ جبرو، میں نے بڑی سجا کاٹی ہے۔ آج میں تجھ سے نہیں اپنے موجو سے ملنے آئی تھی۔
موجو کہاں سے لادوں تجھے اب؟ (آنکھوں سے ٹپکتے ہوے آنسو پونچھتے ہوے) وہ تو باژی ڈالتے ڈالتے مرگیا۔
پر کچھ بتلا تو سہی؟ کیا ہُوا اُسے؟
اری پگلی، کیا بتلاؤں تجھے؟ سپیرے سانپ کے ڈنگ سے ہی مرتے ہیں۔ بھگوان کا لکھّا کون مٹائے۔ نیلے چوبارے والا جو لکھّے پکّی شیائی سے لکھّے۔
پر تُو کیوں نہ مرا؟
میں نے تو باژی بہت پہلے چھوڑ دی تھی۔ پرمیں کون سا جندہ ہُوں اُس کے بِناں۔ سانس کی آواجائی کا نام جیون تھوڑی ہے!
اچھا تُو موجو کی سنا۔
لے سن۔ موجو کو کچھ سمے سے سک ہوگیا تھا کہ کھپرو اس کی پتنی کو بری نجر سے دیکھے ہے۔
ہائے رام! باپ اپنے بیٹے کی پتنی کو…
ارے مورکھ! کھپرو موجو کا باپ کب تھا؟ تجھے تو…
(جیواں کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان ابھر آئی اور اس نے جبرو سے آنکھیں چُرا لیں۔)
کنیا گئی ناپگلی! تیری یہی کنیانے کی عادت ہی تو مجھے لے ڈوبی تھی۔
اچھا چھوڑ، تو موجو کی سنا۔
موجو جب سے گوماں کو بیاہ کر لایا تھا وہ اُسی سمے سے اُس کی نگرانی میں لگا رہتا تھا۔ گوماں تھی بھی بہت سندر، اور پانچ ہجار کی رقم کچھ کم بھی نہیں ہوتی۔ پورے پانچ ہجار بھرے تھے اِس نے اُس کے۔ رام جھوٹ نہ بلوائے، میں نے اپنی آنکھ سے تو نہیں دیکھا پر پوری وستی میں کانوں کان یہ بات چل رہی تھی کہ موجو نے گوماں اور کھپرو کو ایک ہی کھاٹ پرلیٹے دیکھ لیا تھا۔
مگر یہ بات جھوٹ بھی تو ہوسکتی ہے۔
رام جانے جھوٹ ہی ہو مگر آنکھوں دیکھی بات جھوٹ کب ہووے! بس اُسی روژ سے موجو کے من میں گانٹھ سی پڑ گئی تھی۔
پر تو نے بھی کھپرو کو نہ سمجھایا۔
اری پاگل، میں کیا سمجھاتا اس کو! جس کا اپنا گھر کُوڑے سے بھرا ہو وہ دوسرے کوآنگن صاف کرنے کی کیا صلاح دے، اور پھر میرا من کون سا صاف تھا؟ میں بھی تو کھپرو کی پتنی جیواں کے ساتھ…
(جیواں نے شرما کر منھ پھیر لیا۔)
اچھا، آگے کی سنا۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہم ساتھ کی وستی میں باژی ڈالنے گئے تھے۔ بڑا مجمع آیا تھا اس روژ کرتب دیکھنے کو۔ ہم نے وانسوں کے دو سانگے کھوب اچھی طرح سے جمین پر جمائے اور ٹیک کی رسّیاں کس کے لکڑی کے کیلوں کے ساتھ باندھ دیں۔ پھر اوپر کا رسّا وانسوں کے بیچ میں کس کے تان دیا۔ ڈھولچی، بجنتری، طبلچی، ڈانڈیے سب اپنے اپنے ساژ سنبھال کر بیٹھ گئے۔ آج گنیش چوتھ کا تیوہار تھا۔ تماشا بینوں میں سے کئیوں نے برت رکھّا ہوا تھا اور چوکھا دان ملنے کی اُمّید تھی آج۔ لڑکے،بالے، بالڑیاں، کنیائیں، پُرش سب اکٹھے تھے۔
تو نے بھی برت رکھّا تھا کیا!
نابھئی، مجھ جیسے پاپی کے نصیبوں میں یہ کہاں اور پھر برت رکھّیں بھی کیا۔ ہم پہلے کون ساپیٹ بھر کے بھوجن کرتے ہیں جو برت بھی رکھّیں۔ تو نے وہ اکھان نہیں سنا کہ آتما میں پڑے تو پرما تما کی سُوجھے۔ بس روکھی سوکھی کھا کر پیٹ کا دوجکھ جھونک لیتے ہیں۔ جیواں، تو سنا، تجھے وہاں پیٹ بھر کے کھانے کو ملتا ہے یا دونوں سنسار ایک کے جیسے ہیں۔ لگتا ہے وہاں بھی امیروں کے ہی مژے ہوں گے۔
جبرو، تیری جبان بہت چلتی ہے۔ دوسرے سنسار کی چھوڑ تو موجو کی سنا۔
ہاں، موجو کی تو سنا رہا ہوں تجھے۔ کیا کہہ رہا تھا میں بھلا، یہی کہ آج گنیش چوتھ کا تیوہار تھا اور چوکھا دان ملنے کی آس تھی۔ بس سب تیاری مکمّل تھی۔ ڈھول، تاشے، طبلے، گھنگرو، ڈانڈیے سب تیار؛ باجے، گاجے، گیت،گانے، گندھار، نکھاد سب جوروں پر۔ موجو نے پاؤں میں گھنگرو باندھ لیے تھے۔ جونہی وہ تنے ہوے رسّے پر ناچنے کے لیے وانس پر چڑھا سب ساژبجنے لگے۔ میں اور کھپرو ہیئی ہیئی ہیئی شاوا، ہیئی ہیئی ہیئی شاوا کی ہانکیں لگانے لگے۔ تال سے تال اور سُر سے سُر ملنے لگے۔ چھورے چھوریوں، بال بالڑیوں نے وہ شور مچایا کہ آکاش سر پر اٹھالیا۔
ہیئی ہیئی ہیئی شاوا، ہیئی ہیئی ہیئی شاوا، میں اور کھپرو، لَے سے لَے ملائے، کہہ رہے تھے۔ بال بالڑیوں نے بھی ہمارے ساتھ لَے ملانا شروع کردی۔ جیواں، یہ تو بتا جب موجو نے تیری کوکھ سے جنم لیا تھا تو اس سمے تیرے من میں کیا تھا؟ تو نے سوچا تو ہوگا کہ وہ بڑا ہو کر کیسا گبھرو، کیسا سندر جوان بنے گا۔ مجبوط اور گٹھے ہوے شریر والا گبھرو جوان۔ اپنے باپ کی طرح۔
ہاں، کھپرو کی طرح۔
اری مورکھ، تو پھر کھپرو کا نام لے رہی ہے۔ کھپرو اُس کا باپ تھا کیا؟ باپ تو اس کا میں تھا۔ میں، جبرو۔ جبرو، جیواں کا عاسک۔
رے جبرو، کچھ شرم کر۔ تجھے لاج نہ آوے ایسی باتیں کہتے ہوے! تیرا بیٹا ہوتا تو اُس کی کونپل کاماں کے پیڑو سے نہ پھوٹتی؟ پھیرے تو تو نے کاماں کے سنگ لیے تھے نا۔
پھیروں کی بات چھوڑ۔ میں کاماں کو بیاہ کے جرور لایا تھا پر میرا من تو کہیں اوراٹکا ہوا تھا۔ گندھرپ وواہ تو میں نے تیرے سنگ رچا رکھّا تھا نا۔ پھر کاماں اور تجھ میں فرق بھی بہت تھا۔ وہ کرموں جلی تو جنم جنم کی روگی تھی۔ پورے آٹھ ہجار بھرے تھے میں نے اُس کے۔ بڑے چاؤ سے بیاہ کے لایا تھا اُسے، پر اُس کے پیٹ کا سُول ہی کبھی نہ گیا۔ وید، حکیم، جوگی، سنیاسی، منتری —- کس کے پاس اُسے لے کر نہیں گیا تھا؟ مگر وہ بھلی ہونے میں ہی نہ آئی۔ وید بتاتے تھے اس کے پیٹ میں رسولی ہے جڑوں والی۔وہ دو سال دس مہینے جندہ رہی پر ایک بچونگڑا بھی نہ جَن سکی۔
رے جبرو، تو موجو کی بات سنا۔
ہاں، سنا تو رہا ہوں کہ بڑی بھیڑ تھی اُس روژ۔ میں اور کھپرو ہیئی ہیئی ہیئی شاوا کی ہانکیں لگا رہے تھے اور موجو نے تنے ہوے رسّے پر ناچنا شروع کردیا۔ ہیئی ہیئی ہیئی شاوا، ہیئی شاوا بھئی ہیئی شاوا۔ سارا مجمع ایک ہی لَے میں ہانک لگا رہا تھا۔
اچھا، جبرو ایک بات تو بتا۔ تجھے کاماں اچھی نہیں لگتی تھی کیا، تو جو میرے سنگ…
اچھی تو لگتی تھی، پر میں کیا کرتا؟ تو مرد کی جات کو نہیں سمجھتی۔ مرد میں بھگوان نے بھنورے کی روح بھردی ہے اور کاماں تو ویسے بھی سدا کی روگی تھی اور تُو… تُو مجھے بڑی سندر لگتی تھی۔ کیا کرتا، من مچل گیا۔
پرتجھے لاج نہ آئی؟ میں نکھپّن تو تیری بھر جائی…
آئی تھی۔ آئی تھی، پر تجھے کیا بتلاؤں! لاج کچّے سوت کی ڈوری ہووے۔ نہ توڑو تو بڑی مجبوط اور توڑنے پر آجاؤ تو ایک جھٹکا بھی نہ سہے۔ اب کھپرو کو ہی دیکھ لے۔ موجو اُس کا بیٹا نہ سہی پرجنم پتری میں جو باپ کا کھانہ ہووے اُس میں تو اُسی کا نانْوں ہے نا! اس کی آنکھ بھی تو گوماں پر… اپنی بہو پر…
اچھا، یہ بتلا میں اب بھی تجھے اچھی لگتی ہوں کیا؟
لے…یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔
پوچھنے کی بات کیوں نہیں؟ اتنا سمے گُجر گیا۔ سمے گُجر نے کا کوئی اثر نہیں پڑتا؟
پڑتا ہے، پڑتا ہے، پر اتنا بھی نہیں پڑتا جتنا تو سمجھتی ہے۔ اور پھر ایک جیسا سمے بڑھا ہے ہم دونوں کے لیے، نہ کم نہ جیادہ۔
بڑا کھوٹا ہے تیرا من۔ تو مرد ہے نا، اسی لیے تیرا بھیجا ابھی تک پک رہا ہے۔
پگلی بھیجا ٹھنڈا ہو بھی جاوے تو ہڑک نہ جاوے مرد کی۔ پر تیرے جیسی کپڈھ اور مورکھ عورت کی سمجھ میں یہ بات نہ آوے۔
پر میں پوچھتی ہوں یہ عسک تیرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا؟
یہ پیچھا چھوڑ بھی دیوے تو اس سے باجو چھڑانے کو جی نہ چاہوے۔ جیواں، تجھے گراما پُھون کی آواژ آرہی ہے کیا؟
آ تو رہی ہے پر بہت دھیمی۔ شاید دُور وستی میں کسی نے توا لگا رکھّا ہے۔
ہاں، مگر جرا کان لگا کے تو سن، گانے والی کیا کہہ رہی ہے۔
تو ہی بتا دے نا۔
وہ گا رہی ہے:
میاں یہ عسک ہے اور آگ کی کھبیل سے ہے
کسی کو کھاک بنا دے کسی کو جر کر دے
اور تو آگ سے نہیں ڈ ر تا کیا؟
نہیں، مورکھ میں آگ سے کیوں ڈروں؟ وہ پتنگا ہی کیا جو آگ سے ڈرے!
پتنگے کی مثال نہ دے جبرو۔ پتنگے کے من میں سچّی محبّت ہووے مگر تیرا من تو کپٹ کھیسہ ہے، تجھے تو دھرم کی لاج بھی نہ آئی۔
(ہنستے ہوے۔) رے پگلی، عاسک کا کون سا دھرم اور جاتی ہووے!
اچھا، تو موجو کی سنا۔
ہائے، موجو کی کیا سناؤں؟ بڑا سندر تھا وہ۔ بڑا گبھرو تھا۔ بڑا کسرتی شریر تھا اُس کا اور اُس کا رنگ۔ اُس کا رنگ تو تپے ہوے تانبے کی طریوں لِشکاں مارتا تھا۔ آخر بیٹا کس کا تھا۔ بالکل مجھ پر گیا تھا… مجھ پر… جبرو پر۔
اچھا، آگے کی سنا۔
آگے کی کیا سناؤں؟ سنا تو رہا ہوں کہ آج بڑی رونق تھی۔ پِڑ میں وہ گھمسان اور کچرگھان تھا کہ کھلکت ہی کھلکت تھی چاروں ا ور۔ چوکھا دان ملنے کی آس تھی سب کو۔ موجو کے من میں آج رام جانے کیا آئی کہ اُس نے سر پر مور پنکھوں والا مُکٹ بھی باندھ لیا۔ اور وہ تنے ہوے رسّے پر لہراتا، ناچتا ہُوا اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر۔ اور ہاں، اُس کے پاؤں کی دھمک سے اُس کے کان کے بالے جب لہراتے تو کچھ نہ پوچھ۔ میں تو جی ہی جی میں کہہ رہا تھا کہ رام بدنجری سے بچائے! اس کی سندرتا کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی آج۔
اچھا جبرو، آج سچّی بات تو بتلا۔ جس رات میں جلی تھی اُس رات کھپرو کہاں تھا؟ اُسی نے لگائی تھی نا جھونپڑی کو آگ۔ اُسے سک ہوگیا تھا نا کہ میں تیرے سنگ…
ارے پگلی، سک کا تو مجھے پتا نہیں۔ اُس روژ میں تو موجو کے بیاہ کے کپڑے لتّے لینے موجو اور چندا کے ساتھ شہر میں پکّے بجار گیا ہوا تھا۔ رات دیر سے آیا تو دیکھا کہ تیری جھونپڑی جل کر راکھ ہوچکی تھی۔
اور کھپرو!
کھپرو تو کلال کی ہٹّی پربے سدھ پڑا تھا۔ اس نے آج بُہتی دارو پی لی تھی۔
اور جب آگ بھڑکی تو میں بھاگ کیوں نہ پائی تھی وہاں سے؟
بھاگتی بھی تو کیسے؟ نسّے والی چائے جو پی رکھّی تھی تو نے۔
نسّے والی چائے! یہ تو کیا کہہ رہا ہے؟
سچّی بات یہی ہے۔
مگر یہ اُسی روژ کی بات ہے نہ جب سُورج گرہن کے کارن سب لوگ چوہوں کی طرح اپنے اپنے بِلوں میں گھسے ہوے تھے اور مکھیا نے ساری وستی میں دودھ بانٹا تھا۔ پھر ساری وستی تو بے سُدھ نہیں ہوئی تھی۔
لچھمی مائی نے مجھے مرنے سے پہلے بتایا تھا کہ مکھیا نے ایک گڑوی دودھ کی الگ سے دی تھی کہ یہ جیواں کی جھونپڑی میں دے دینا۔
اچھا، تو رام مارے مکھیا کے من میں میرے لیے ایسا جہر بھرا تھا!
تجھ پر آنکھ جو میلی تھی اس کی۔ وہ میرا بھی پکا دُسمن تھا کیوں کہ میں نے اُسے صاف کہہ دیا تھا کہ وستی سے نکالنا ہے تو بلاسک نکال دے مگر میرے جیتے جی تیرے من کی مراد پوری نہ ہووے۔ اُس نے مجھے کہا بھی کہ جیواں تیری کیا لگتی ہے؟ جب کھپرو چپ ہے تو تجھے کیا؟ پر جیواں، تُو تو میری محبّت تھی نا۔ اور اپنی محبّت، اپنے پریم کو مکھیا حرامی کے حوالے…
اورمیں نے بھی اُس حرامی کو چتاونی دی تھی کہ تو جو میلی نجر سے مجھے گھورتا ہے تیری آنکھیں نہ پھوڑ دوں تو جیواں نہ کہنا مجھے۔ پر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ کھپرو دارو تو پہلے بھی پیتا تھا پر آج کیا ہُوا اُس کو؟
رام جانے اس کی دارو میں بھی جیادہ نسّہ ملادیا ہو کلال نے۔ کلال بھی تو اُسی کی رعایا ہے۔ اُدھر وہ بے سُدھ پڑا تھا اور اِدھر تو۔ بس مکھیا کے بندوں نے کام دکھا دیا۔
رام مارے ایسے جالموں کو، جو رعایا کی کھبر گیری کی بجائے… اور ہاں، تو موجو کی بات سنارہا تھا۔
بس وہ رسّے پر ناچ رہا تھا۔ نیچے میں اور کھپرو ہیئی ہیئی ہیئی شاوا کی ہانکیں لگا رہے تھے۔ بال بالڑیاں، کنیائیں، مرد، عورتیں سب تانتا باندھ کر اُسے تک رہے تھے اور وہ آنکھیں جھپکے بغیر، سیدھ میں نجریں جمائے…
اچھا، جبرو، یہ تبا کہ میرے مرنے کے بعد ترا مکھیا سے کبھی ٹاکرا ہوا؟
ٹاکرا تو کئی بار ہوا۔ وہ تیری وجہ سے پہلے ہی من میں کرودھ لیے بیٹھا تھا اور اب اس کی نظریں چندو پر… تیری دھی چندو پر۔
چندو تیری کچھ نہیں لگتی بھلا۔ مجھے کاہے کو طعنے مارتا ہے۔
بس تیرے پیڑو سے تھی پر کھون تو وہ کھپرو کا ہی ہے۔
اچھا، اب تو وہ جوان ہوگئی ہوگی۔ کیسا رُوپ سُروپ نکالا ہے اُس نے؟
بالکل تیری مُورت ہے جیواں وہ۔ وہی قد بُت، وہی روپ سروپ اور جوبن تو ٹوٹ کرآیا ہے اس پر۔ پانی بھری چھا گل کی طریوں چھلکتا، تھل تھل کرتا۔
بیاہ کیوں نہیں کرتا کھپرو اُس کا؟
دارو بہت پینے لگا ہے وہ اور لو بھی لالچی بھی بہت ہوگیا ہے۔ کہتا ہے پندرہ ہجار سے کم نہیں لوں گا۔ گڑگاواں کے نٹّوں کی وستی سے دس ہجار کی بات آئی تھی اس کے لیے۔ چھورا بھی اچھا تھا پر کھپرو نے بات پھیر دی۔
موجو سے بھی جیادہ سندر تھا وہ کیا؟
ارے موجو کی بات نہ کر۔ موجو مرد تھا مرد۔ میرا بیٹا۔ میرا گھبرو بیٹا۔ جبرو کا بیٹا۔ ہائے رام۔ ہائے موجو۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔