پَرلوک بیٹھک

یہ تحریر 2256 مرتبہ دیکھی گئی

(٢)
o

سدّے، سدّے۔ مکھیا کی آواز سُن کر سدّے بھاگا بھاگا مکھیا کی ڈھاری میں گیا۔
(مکھیا مُونڈھے پر بیٹھا ربڑ کی لمبی نال منھ سے لگائے گُڑگڑی پی رہا تھا۔)
حکم سرکار!
آ، بیٹھ سدّے(سدّے مکھیا کے چرنوں میں بیٹھ گیا)۔
سدّے، نیچے نہیں پیڑھے پر بیٹھ جا اور سنا گُجر بسر کیسی چل رہی ہے تیری؟
سرکار، آپ کے ہوتے ہوے کِس چیج کی تھوڑ ہے بھلا!
اچھا، یہ بتا کہ آج کل کھپرو کہاں ہے؟
کھپرو؟ سرکار کھپرو باژی ڈالنے شیام گوٹھ گیا ہوا ہے۔ وہاں ان دنوں میلا لگتا ہے نا۔
پھر تو پورا جیا جنت گیا ہوگا اس کے ساتھ؟
نہیں، سرکار جبرو کو تاپ ہے، وہ اپنی جھونپڑی میں ہی پڑا ہے اور چندو بھی اس کی سیوا کے لیے یہیں رہ گئی ہے۔ سنا ہے کہ کھپرو تین روژ کے بعد لوٹے گا۔
اچھا، سدّے یہ بتا آج کل راتوں کو اندھیاری ہوتی ہے یا چاندنی؟
سرکار اماوس کی آخری تریخیں چل رہی ہیں۔ اندھیرا ہی ہوتا ہے۔
سدّے، تُو سیانا بندہ ہے، ایک بات تو بتلا۔ یہ جو کبھی کبھی جھونپڑی میں آگ بھڑک اٹھتی ہے تو اس کا کیا کارن ہوتا ہے؟
سرکار گلتی سے ہی ایسا ہوتا ہے۔ کبھی چولھے میں آگ کی چنگاری دبی رہ جاتی ہے جسے ہَوا اُڑا کر چھانا پتاور میں پھینک دیتی ہے اور کبھی…
اور کبھی کیا؟
سرکار، کچھ نہیں،کبھی حقّے بیڑی سے بھی ایسا ہوجاتا ہے۔
(مکھیا کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان پھیلنے لگی اور اس نے حقّہ گڑ گڑاتے ہوے مونچھوں کو ہلکا سا تاؤ دیا۔)
اچھا، یہ بتلا جبرو حقّہ بیڑی پیتا ہے کیا؟
پیتا تو ہے سرکار، پر…
پر کیا؟
کچھ نہیں سرکار، کچھ نہیں (سدّے نے پہلو بدل کر اٹھنے کی کوشش کی)۔
یہ لے، رکھ لے۔ پورے پانچ سو ہیں۔ تونے اتنی اکٹھی رقم پورے سال میں نہیں دیکھی ہوگی۔
وہ تو ٹھیک ہے سرکار، پر میں اتنی رقم کا کیا کروں گا؟ پہلے بھی تو آپ کا دیا ہی کھاتے ہیں۔ وہی کافی ہے۔
رکھ لے۔ رکھ لے۔
سرکار، مگر…
مگر کیا؟
کچھ نہیں، سرکار۔
پھر بھی…
سرکار، مجھے ڈر بہت لگتا ہے۔
ارے ڈر کاہے کا؟ میں کون ہوں بھلا؟
آپ سرکار ہیں، جی سرکار!
نہیں، کُھل کے بتا۔
آپ مکھیا ہیں سرکار۔
صرف مکھیا!
سرکار آپ ٹھاکُر ہیں ٹھاکُر۔
خالی ٹھاکُر نہیں۔ راجو مل ٹھاکُر کہو۔ راجو مل ٹھاکُر۔
جی سرکار۔
تو ٹھیک ہے، رامے اور سجّو کو ساتھ لے لینا۔ بھروسے کے آدمی ہیں۔ چہرے چھپا لینا۔ شاید کوئی کُتّا بِلاّ جاگ رہا ہو آدھی رات کو، اور ہاں، چندو کو بچالینا۔ اُسے بھا نہیں لگنی چاہیے۔ ڈھاری میں پہنچا دینا جرا سنبھال کے۔
جو حکم سرکار۔
سرکار نہیں ٹھاکُر کہو۔ ٹھاکُر را جو مل۔ (ہا ہا ہی ہی۔)
O
تُو سو گیا تھا کیا جبرو؟ میں تجھ سے موجو کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔
ہاں، اونگھ آگئی تھی۔ تَو میں کہہ رہا تھا موجو نے رسّے پر ناچنا شروع کیا اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر۔ سبھی لوگ واہ واہ کررہے تھے۔ سبھی شاوا شاوا کررہے تھے۔ سبھی تانتا باندھ کر اُسے دیکھ رہے تھے کہ گوماں کرموں جلی، اُس کی پتنی، رام بیڑا ڈبوئے، ٹھمکتی ٹھمکتی پِڑ میں آگئی۔ کپڑے لتّے، کجلا، مِسّی، دنداسا، ہار سنگھار، چھلّے، ٹوماں، جیور سب پہن وہن کر۔ پاؤں میں پا جیبیں باندھے، سیسوں والا سرخ گھاگھر۱ پہنے،ماتھے پر بندیا لگائے، مانگ میں سیندور بھرے۔ کچھ نہ پوچھ۔ کچھ نہ پوچھ۔
پھر کیا ہوا؟
پھر کیا ہونا تھا؟ وہ پِڑ میں ناچنے لگی۔ وہ ناچی بھی ایسے، کہ کیا بتاؤں۔ سارا مجمع موجو کی طرف سے نجر یں ہٹا کر اُسے دیکھنے لگا۔
پھر کیا ہوا جبرو؟
پھر کیا ہونا تھا۔ تجھے تو پتا ہے کہ رسّے پر ناچنے کے لیے پاؤں کی تھرک اور مہارت سے جیادہ نجر کی سیدھ جروری ہووے۔
تو کیا موجو سیدھی سیدھ میں نہیں دیکھ رہا تھا؟
دیکھ تو رہا تھا پر دیکھتے دیکھتے اُس کا دھیان بٹ گیا۔ بس ایک نجر گوماں پر ڈالنے کی دیر تھی…
جبرو، اچھا یہ تو بتا، گوماں بھی موجو کے جیسی سندر تھی یا پھر…
اچھی صورت کی تھی۔ میں کیا بتلاؤں؟ میری تو بہو تھی۔ میرے موجو کی پتنی۔ اُسے گودھر پنڈ سے بیاہ کر لایا تھا۔ پر کھپرو کامن صاف نہیں تھا۔ مجھے تو ساری ملی بھگت کھپرو اور گوماں ہی کی لگتی ہے۔
پر وہ کیسے؟
جرا توہی بتا کوئی چلتی باژی کے بھیتر میں پِڑ میں آکر ناچتا ہے بھلا؟
اچھا، تو موجو رسّے سے گر گیا کیا؟
تو اور کیا ہونا تھا؟ وہ کہتے ہیں ناکہ بھگوان من کی چُوک معاف کردیوے پر نجر کی چُوک کبھی معاف نہ کرے۔ اِدھر اس نے گوماں کو دیکھا اور اُدھر وہ پٹکھنی کھا کر سر کے بل دھڑام سے پھرش پر آرہا۔
ناتو ہاتھ کے وانس نے بھی کچھ سہارا نہ دیا اُسے؟
ہائے رام! کیا بتلاؤں؟ آج تو اس نے ہاتھ کا وانس بھی ناچتے ناچتے نیچے جمین پر پھینک دیا تھا۔ بس وہ رسّے پر ایسے ناچ رہا تھا جیسے کوئی پنچھی پورے پَرکھولے آکاش میں لہرا رہا ہو۔
جمین پر گر کر تڑپا تو بہت ہوگا میرا موجو؟
اُس کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا تھا۔ بس ایک ہی بار جور کی تڑپا اور پھر اُس نے میری نجروں کے سامنے…
اور پھر؟
اور پھر کہرام مچ گیا مجمعے میں۔ مجھے تو تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ میرا گبھرو پُوت تھا نا وہ۔ جو ان۔ گبھرو۔ سُندر۔ کڑیل۔ جیوٹ۔ میں تو دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ جوان پُوت کی لوتھ میرے سامنے پڑی تھی۔ میری چور محبّت کی نشانی۔ ہائے رام!
اور کھپرو؟
دفان کر کھپرو کو۔ ابھی اُس کی چتا کی آگ بھی ٹھنڈی نہ ہوئی تھی کہ اُس نے گوماں کے ساتھ پھیرے لے لیے تھے۔
اور مکھیا کمینہ!
وہ بڑا برودھی، بڑا جالم ہے۔ میں نے بتلایا نا کہ اُس کی نجر چندو پر تھی اور اب اس کے راستے کا ایک اور کانٹا نکل گیا تھا۔ تُو تو اُس کے جال سے بچ گئی تھی پر اُس کا جنم بَرچھک کے بُرج میں ہے۔ آگے سے ایک معمولی بے جرر کیڑا اور پیچھے سے بِس ہی بِس۔
پر تیرے ساتھ کیا بیتی جبرو؟
ارے، میرے ساتھ کیا بیتنی تھی؟ وہی، جو تیرے سنگ بیتی تھی۔ جل مرناتو عاسکوں کے نصیب میں لکھّا ہووے۔
کچھ بتلا بھی۔
بتلاتا ہوں، جرا حقّے کا دم لگا لینے دے۔

o

سدّے، سدّے۔ مکھیا ڈھاری سے چنگھاڑا۔ سدّے تو کہاں مر گیا؟ اتنی دیر لگادی؟ (کمرے میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھومتے ہوے۔)
او سدّے، تجھے رام مارے۔ کہاں مر گیا ہے تو؟
جی سرکار، میں آگیا؟
اتنی دیر سے تو کہاں تھا؟ میں تجھے کب سے ڈھونڈ رہا تھا۔
سرکار میں جرا جنگل پانی کرنے چلا گیا تھا۔
کام ہوگیا؟
جی سرکار، ہوگیا۔
بختوں مارے کچھ بتلا بھی۔
سرکار ہم تینوں جھونپڑی میں گئے۔ جبرو تو پہلے ہی تاپ سے پھنک رہا تھا۔ رامے نے اُسے قابو کرلیااور سجّو نے اس کا گلا اس وقت تک دبائے رکھّا جب تک وہ بے سدھ نہ ہوگیا۔ پھر میں نے اُس کی جُلّی کو آگ دکھا دی، حقّے کی چلم کو پھرش پر گرا دیا اور ایک بیڑی سلگا کر جبرو کی انگلیوں میں تھما دی۔
واہ، سدّے واہ، تُو تو بڑے کام کا بندہ نکلا۔ پر یہ تو بتا ایسی کارستانی تیرے بھیجے میں آئی کیسے؟
سرکار، آپ کا نمک جو کھایا ہے۔ رات اکیلا پڑا دیر تک وچار کرتا رہا کہ کام ہو تو ایسے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
وہ تو ٹھیک ہے سدّے، پر تمھیں آتے جاتے کسی بندے پرندے نے…
نہ، سرکار نہ، کسی کو کانو کان کھبر نہیں ہوئی۔
پھر بھی سدّے۔
نہیں، سرکار نہیں، ہم کوئی کچّی گولیاں تھوڑی کھیلے تھے! ہم تو وستی کے بھیتر میں سے گُجرے بھی نہیں۔ ہم تینوں راستہ بدل کر کھیتوں کی ا ور سے گئے اور کام نمٹا کر راجباہ کی ا ور سے دبے پاؤں اپنی اپنی ٹھاؤں پر لوٹ آئے۔ سرکار رات تو یوں لگتا تھا جیسے پوری وستی کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ آدمی تو کیا کسی جنور تک کی آواژ کان نہ پڑی۔ میرے کھیال میں تو اب تک وہ بختوں مارا آدھے سے جیادہ جل چکا ہوگا۔
چل، ٹھیک ہے سدّے، میں نے سُن لی تیری رام کہانی پر کچھ چندو کے بارے میں تو بتا، اُسے کس کے پاس چھوڑ آیا ہے؟
جھونپڑی میں تو جبرو اکیلا ہی تھا سرکار۔ بالکل اکیلا۔
ہائے، بدبختو۔ مچھلی ہاتھ سے پھر پھسل گئی نا۔
پر سرکار اس میں ہمارا کیا دوس؟
دوس کا بچّہ۔ جا دفع ہوجا۔ نکل جا ڈھاری سے۔ جیبھ کو بند رکھنا۔ منھ کھولا تو کھوپڑی توڑ دوں گا تیری، نمک حرام۔ جا، بھاگ جا۔
جی سرکار۔ جی سرکار۔

o

جبرو اتنی بیڑی نہ پِیا کر۔ کھانسی تو تیری پہلے ہی نہیں رکتی۔ تو اپنی کچھ سنانے لگا تھا۔
موجو کے بعد اب اپنی کہانی کیا رہ گئی ہے؟ بتایا نا کہ شیام گوٹھ میں میqqلا تھا اورکھپرو نے وہاں کی تیاری کر رکھّی تھی۔ پر مجھے ُبکھار آنے لگا۔ کھانسی کا بھی کچھ جور تھا اس روژ۔ میں نے کھپرو سے کہہ دیا کہ تو اکیلا ہی چلا جا۔ چندو نے بھی کہا کہ میں چاچے کی سیوا کے لیے یہیں رہ جاتی ہوں۔ ویسے بھی جب سے کھپرو نے گوماں کے ساتھ پھیرے لیے تھے وہ ان دونوں سے کھچی کھچی سی رہتی تھی۔ کھپرو نے بھی کہا کہ چل ٹھیک ہے، تین دن کی تو بات ہے، تو چاچے کی سیوا کر، اُسے تاپ بھی ہے۔
یہ چاند کی آخری تریخیں تھیں۔ میں جھونپڑی میں پڑا آدھی رات تک موجو کے کھیالوں میں گم رہا۔ جب بندہ کھیالوں میں گم ہووے تو اسے کوئی سُدھ بُدھ نہیں رہتی۔ میں کبھی تیرے سنگ باتیں کرتا کبھی موجو کے سنگ۔ چلم میں شاید ہی کوئی چنگاری رہ گئی ہو۔ میں نے بیڑی سلگا لی۔ بس میں نے دو گھونٹ ہی بھرے تھے کہ میرا دم اُلٹنے لگا۔ میں باہر دروَجّے کی ا ور بھاگنے لگا پر مجھے دو آدمیوں نے وہیں ڈھیر کردیا۔
تونے پہچانا اُنھیں؟
نہیں، انھوں نے ڈھاٹھے باندھ رکھّے تھے۔ پہچان کر کرتا بھی کیا! مکھیا حرامی کے ہی آدمی ہوں گے۔ میں تو بے سدھ ہوچکا تھا۔
اور چندو؟
چندو اس رات داراں مائی کی جھونپڑی میں تھی، وہ بھی ہوتی تو…
جبرو، سُنا ہے مرنے کے بعد بھی آتما کچھ دن تک اپنی ٹھاؤں نہیں چھو ڑتی۔ بعد کی کہانی بھی تو سنوں۔ اچھا تو تُو جل بجھا، پھر…
پھر دن چڑھا تو چندو چاء کا کٹورا لے کر جیسے ہی جھونپڑی میں داخل ہوئی دھؤیں سے اس کا دم گھٹنے لگا۔ کٹورا ہاتھ سے گرگیا اور اس نے منھ کے آگے ہاتھ لہرا لہرا کر کچھ دیکھنے کی کوشش کی۔
”چاچا، تجھے کتنی بار کہا ہے کہ بیڑی نہ پیا کر۔ تیری تو جُلّی بھی جل کر سواہ ہوگئی ہے۔“اس نے جُلّی کو ایک کونے سے پکڑ کر جلدی سے جمین پر پھینک دیا۔ میرا شریر آدھے سے جیادہ جل چکا تھا۔ کھاٹ بھی آدھی بھسم ہو چکی تھی۔ اس نے مجھے باجو سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی۔ پر میرا باجو پٹّی پر ہی لڑھک گیا۔ چندو کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ اس نے چا چا، چاچا پکارتے ہوے اپنے سر کی اوڑھنی میرے آدھے جلے آدھے ننگے شریر پر ڈال دی اور آنکھیں پونچھتی ہوئی باہر نکل گئی۔
اور کھپرو؟
اگلے روژ کھپرو وَستی میں آیا تو مکھیا نے اس کے مونڈھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ رات جبرو کی بیڑی نے بڑی کھرابی کردی۔ کسی کو پتا بھی نہ چلا۔ پتا چلتا تو اسے بچا ہی لیتے، پر ہونی ہو کرہی رہتی ہے۔ اُوپر والے کے لکھّے کو کون مٹائے! اس کی اِچّھا اور مرجی کے آگے کسی کا کیا جور!
اور کھپرو آگے سے کچھ نہ بولا۔
وہ کیا بولتا؟ ٹک ٹک وہ مکھیا کے منھ کو تکتا رہا اور پھر وہ چیخ چیخ کر چندو، چندو پکارنے لگا۔
مکھیا نے اسے تسلّی دیتے ہوے کہا کہ تو چندو کی چنتا نہ کر۔ داراں مائی اسے ڈھاری میں چھوڑ گئی ہے۔ وہ بالکل کھیریت سے ہے۔ جو ہونا تھا ہوگیا۔ تو بھی شانت ہوجا۔ اب جھونپڑی میں بھوبل ٹھنڈی ہوچکی ہوگی۔ جا، بھائی کے پُھول چن لے اور انھیں سینت کر رکھ لے۔ اگلا ورش بارھواں ورش ہے۔ اس ورش ہر دوار میں مہا کمبھ کا میلا لگے گا۔ اس وَستی سے بھی جا تری جاویں گے۔ کسی کو پھول دے دینا، وہ گنگا ندی میں بہادے گا۔ آخر سب کو بھگوان کے چرنوں میں پہنچنا ہے۔ سب کے پاپ گنگا ماتا کے چرنوں میں پہنچ کر ہی دُھلتے ہیں۔
تو دیکھ لیا جبرو، تیرا انجام بھی وہی ہوا جو میرا ہوا تھا۔ پاپ پاپ ہی ہوتا ہے۔
اری پگلی، جل مرنا پاپ ہے تو کسی کو مرنے سے پہلے جلا کر مار دینا پُن ہے کیا؟
ہائے کھپرو، رام جانے اب تُو کس حال میں ہوگا؟
کس حال میں ہونا ہے اس نے۔ جو رو جل مری، بھائی جل مرا، بیٹی مکھیا کی ڈھاری میں جا پہنچی اور گوماں، اُس کی پتنی، سدّے کے جھوٹے برتن باسن مانجھ کر پیٹ کا دوجکھ بھرتی ہے۔
پر جندہ تو ہوگا وہ؟
ہاں، جندہ ہے پرمُردوں سے بدتر۔ اس کا دماک چل گیا تھا۔ اس نے کپڑے لتّے پھاڑ کر کھاک سر میں ڈال لی اور اب ننگے شریر پر دھجّیاں چیتھڑے لٹکائے ”ہے رام“، ”ہے رام“ ککیا تا پھرتا ہے۔ ایسا جیون بھی کیا جیون۔ نہ بیٹی کا کنیا دان نہ پتنی اور بھائی کا کریا کرم۔ نہ دنیا نہ دھرم۔
بس سب اپنے اپنے کرموں کی سجا بھگتیں ہیں جبرو۔ ہمیں بھی اپنے کرموں کی ہی سجا ملی ہے۔ ہم نے بھی تو دھرم اور بھگوان سے منھ موڑ لیا تھا نا۔
اری پگلی، تو عسک کی بات بھول گئی اور دھرم کی بات لے بیٹھی۔ جرا یہ تو بتا کہ گریبوں اور امیروں کے لیے دھرم کے بٹّے الگ الگ کیوں ہیں؟ جب کبھی گریبوں امیروں کے بھیتر میں عجّت، گیرت، دولت،عدل، انصاف، حک حکوک اور بانٹنے چونٹنے کی بات چلتی ہے تو بھگوان اپنا سارا بوجھ مکھیا کے پلڑے میں کیوں ڈال دیتا ہے؟ کبھی تُو نے کسی مکھیا کی ڈھاری، کسی ٹھاکُر کی ماڑی کو جلتے دیکھا ہے!
اچھا، تو تُو دھرم کو نہیں مانتا پھر!
کیوں نہیں مانتا؟ مانتا ہوں جبھی تو یہ حشر ہوا ہے، پگلی۔ دھرم تو گریبوں، لاچاروں، مجلوموں اور سیوا کاروں کو سورگ کے سبج باگ دکھاتا ہے۔ دوسرے جہان کی آس میں انھیں اس جہان میں…
اس جہان میں کیا؟
یہی کہ دھرم گریبو ں اور مجلوموں کو اس دنیا میں، اس جہان میں شانت رکھنے کو آتا ہے تاکہ یہ مکھیاؤں، ٹھاکُروں، برہمنوں، پروہتوں اور پنڈتوں کے کھلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں۔
رام بھجو۔ رام بھجو۔ جبرو کان پکڑ لے، کیوں اپنے لیے نرک کھرید رہا ہے؟
اری پگلی، کوئی بندہ نر کی یا سوَرگی نہیں ہوتا، بس بندہ بندہ ہوتا ہے اپنے پاپ، پُن اورکرموں سمیت۔
کان پکڑ لے جبرو، کان پکڑلے۔ میں تو سمجھی تھی کہ جل مرنے کے بعد تجھے سُرت آگئی ہوگی، پر…
جل مرنے کے بعد ہی تو سرت ٹھکانے آئی ہے میری۔ اچھا جرا یہ تو بتا کہ اونچی جاتی کا کوئی بندہ ہم جیسے شودروں اور دَلتوں سے چھو بھی جائے تو پلید ہو جاتا ہے پر جب وہ ہماری بہوؤں، بیٹیوں، کنیاؤں اور پتنیوں کو اپنی ڈھاری میں ڈال لیتا ہے تو پھر وہ بھرشٹ کیوں نہیں ہوتا؟ اُس وقت بھگوان کیوں چپ سادھ لیتا ہے؟
بھگوان کے کھلاف بولنا بند کردے جبرو۔ بھگوان…
سن پگلی، ہم جو برہما کے چرنوں سے پیدا ہوے ہیں چرنوں سے اوپر دیکھ ہی نہیں سکتے اور مکھیا کے چرن ہی ہمارے لیے بھگوان کے چرن ہیں۔
لے، اب میں چلتی ہوں۔ تیرا تو دماک پھر گیا ہے۔
میرا دماک نہیں پھر گیا۔ تو آپ بھی کبھی وچار کر کہ اوّل تو یہ موقع کبھی نہ آوے،پر اگر کبھی ٹھاکُروں اور باژی گروں کا آپس میں یُدھ پڑجاوے تو تجھے معلوم ہے بھگوان کدھر ہوگا؟
میں کیا جانوں!
پگلی، وہ ترنت چھلانگ لگا کر ٹھاکُروں کے سنگ جا کھڑا ہوگا۔
اچھا، میں چلتی ہوں اب۔
کہاں جاتی ہے تُو۔ پُورے آٹھ سال کے بعد ملے ہیں ہم ایک دوجے سے اور وہ بھی جل مرنے کے بعد پَرلوک میں۔ اب میں تجھے نہیں جانے دوں گا۔
چھوڑ دے میری وینی جبرو۔ یہ پاپ ہے۔ میں تیری پتنی نہیں۔ رام سے ڈر۔ وہ تجھے نرک میں جلائے گا۔
کیسے چھوڑ دوں تیری وینی، پگلی۔ تُو تو میرا پہلا عسک ہے۔ تُو تو میرے موجو کی ماں ہے۔ عسک میں جل مرنا اب میرے لیے کیا مسکل ہووے!
اچھا، وینی تو چھوڑ۔ نہیں جاتی۔
جائے گی بھی تو کہاں؟ سجا تو ہم نے بھگت لی ہے۔ سجا بھگتنے کے بعد تو قیدی بندی خانے سے چھوٹ جاتے ہیں؟ اب ہم بھی آجاد ہیں۔اور ہاں، جرا سن تو سہی یہ آواژ سی کیا آرہی ہے۔ مجھے تو یہ آواژ وہی لگ رہی ہے جو ہم نے پچھلے جنم میں سنی تھی۔ کیسا درد بھرا ہے اس آواژ میں:
میاں یہ عسک ہے اور آگ کی کھبیل سے ہے
کسی کو کھاک بنا دے، کسی کو جر کر دے
جیواں، کیا تو جانتی ہے یہ آواژ کہاں سے آرہی ہے؟
میں کیا جانوں؟ آرہی ہو گی کسی مکھیا کی ڈھاری، کسی ٹھاکُر کی ماڑی سے۔ پر تُو چھوڑ ان باتوں کو، آ ہم اپنے موجو کو یاد کریں۔ موجو جو ہماری چور محبّت کا پہلا پھل تھا۔ میٹھا پھل۔ آ اس کے لیے دو ہنجو ہی بہالیں۔ دو ہنجو۔
اچھا، جیواں جرا اِدھر میرے کھریب تو آ۔
نہ، جبرونہ، رام رام کر۔ تجھے لاج نہ آوے ایسی باتیں کہتے ہوے؟ میں تیری پتنی نہیں۔ چھوڑدے میرا باجو۔
بنتی کرت ہوں، پےّاں پڑت ہوں۔
ژاری کروں چھوڑو بےّاں ہماری۔
جُلمی بلموا بات نہ مانے۔
بے دردی مورا درد نہ جانے۔
بے دردی مورا…