پس نوشت پر کچھ باتیں

یہ تحریر 2239 مرتبہ دیکھی گئی

شاعری کسی خاص تہذیب میں ہوتی ہے، کبھی اُس سے ہم آہنگی کی حالت میں اور کبھی انحراف کی صورت میں۔ خورشید رضوی صاحب کی شاعری کا مجموعی سیاق و سباق تہذیبی ہے۔ آج بہت کم شاعر ایسے رہ گئے ہیں جو تہذیب اور اس کے اصول ومظاہر کو مربوط رکھنے والی نسبت کے ضروری اجزا پر نہ صرف یہ کہ ذہنی دسترس رکھتے ہوں بلکہ یہ نسبت اخلاقی اور جمالیاتی زاویوں سے ان کا تجربہ بھی بن چکی ہو، اور یہ تجربہ فکر کی تشکیل میں صرف ہونے کے ساتھ ساتھ قلبی اور نفسیاتی احوال میں بھی ڈھل جاتا ہو۔ تہذیب کا ایک دماغ بھی ہوتا ہے، شاعر اس دماغ سے پیدا ہونے والے خیالات کو ان کے تنوع اور بنیادی وحدت کے ساتھ ایک جمالیاتی در وبست دیتا ہے۔ اسی طرح تہذیب کا ایک دل بھی ہے جہاں وہ خیالات احوال بنتے ہیں۔ تہذیب سے ہم آہنگ شاعری میں وہ احوال ایک احساساتی وحدت اورایک وجدانی اکائی بننے کے عمل میں نظر آتے ہیں۔ ایسی شاعری میں اظہار کے تمام اسالیب اپنے تہذیبی اصول کے متنوع مظاہر کی طرح ہوتے ہیں۔ خورشید رضوی صاحب کی پوری شاعری در اصل تہذیب کے ضمیر میں راسخ آئیڈیا کو طرح طرح سے ادراک کرنے اور نئے نئے انداز سے اظہار دینے کا ایک ایسا عمل ہے جس کی تکمیل کا شاید کوئی بھی مرحلہ نشاطیہ نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی لمبا سفر ہے جو اِدھر اُدھر بھٹکے بغیر ایک المیاتی یکسوئی اور انہماک کے ساتھ جاری ہے۔ زیرِ نظر مجموعہ ”پس نوشت“ بھی، ظاہر ہے، اس المیہ وفور سے خالی نہیں جس سے خورشید صاحب کے تخلیقی تجربے کی بنیادی معنویت اور کیفیت تشکیل پاتی ہے۔مثلاً ایک غزل کے کچھ اشعار دیکھیے:
لیا ہے خاک میں خود کو ملا، ملا نہیں کچھ
یہ کارِ زیست عبث ہے، یہاں رکھا نہیں کچھ
سخن وری بھی، فقیری بھی، پادشاہی بھی
سب ایک آگ میں جھونکے گئے، بچا نہیں کچھ
یہ گردبادِ حوادث ہے، کس کو چھوڑتی ہے
یہ تند سیلِ زمانہ ہے، دیکھتا نہیں کچھ
زمیں لرز اٹھے گی، آسمان گر پڑے گا
ہزار طرح کے اندیشے تھے، ہوا نہیں کچھ
نہ گنبدوں میں صدا ہے نہ آئنوں میں شبیہ
گئے ہم ایسے کہ اب دور تک پتا نہیں کچھ
تمام عمر خموشی کے بعد حاصلِ عمر
کہا تو ہم نے، کسی نے مگر سنا نہیں کچھ
اس پوری غزل کا آہنگ ہی ایسا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ناکامی پر ایسا فخر کیا جا رہا ہے جو کامیابی کے غرور سے زیادہ ہے۔ اور جو شخصیت اس تجربے کے تاریخی، تہذیبی اور نفسیاتی احوال سے گزر رہی ہے، وہ اُس دیوار کی طرح ہے جو تعمیر ہو کر ادھوری تھی اور منہدم ہوکر مکمل ہوگئی۔ یہ ایک paradox ہے جو خورشید صاحب کے ہاں مزاجِ ادراک کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی کی بدولت اِن کی شاعری میں متضاد اور متصادم احساسات کو بھی ایک تالیفی وحدت میں کھپا دینے کا نادر وصف جابجا نظر آتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں المیے اور نشاطیے کا معروف خطّ ِ امتیاز مدّھم پڑ جاتا ہے۔ نشاطیہ در حقیقت تاریخ کی فتح ہے انسان پر۔ انسان ایک متن کی طرح ہے جس پر تاریخ خطِ تنسیخ پھیرتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی اور کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس متن کا کوئی حصہ تاریخ سے نظرانداز ہو جاتا ہے۔ بس نشاطیہ یہی ہے۔ جبکہ المیہ تاریخ کے کھینچے ہوے خطِ تنسیخ کو متن کی معدومی کا سبب نہیں بننے دیتا، بلکہ اسے بھی متن کی معنویت میں اضافے کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ المیہ تاریخ کی طرف سے مسلط کی جانے والی معدومیت کے متوازی انسان کی بعثت ثانیہ کا وہ مسلسل عمل ہے جس میں تاریخ کی بھی قلبِ ماہیت ہوتی رہتی ہے۔ خورشید رضوی صاحب کے یہاں جا بجا نظر آنے والی المناکی، جو کہیں کہیں مایوسی بھی بن جاتی ہے، المیے کی اسی جہت سے پیدا ہونے والا احساس و تصور ہے جو ہمیں زندگی کی تاریخی حدود سے نکلنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور اس حقیقت تک رسائی کا وسیلہ بنتا ہے کہ آدمی تاریخ سے متاثر تو ہے مگر مغلوب نہیں۔
المیہ چونکہ گہرائی کا موتی ہے اس لیے اس کی مناسبت اضطراب سے کم ہے، اطمینان سے زیادہ۔ خورشید صاحب کے یہاں المیہ محض کسی تجربے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ وجود کی شرط اور حاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں طمانیت کا عنصر رسمی المناکی پر غالب ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض مقامات پر ان کے ہاں ایک حزنیہ فضا بھی محسوس ہوتی ہے لیکن مجموعی طور پر وہ حُزن بھی ایسا ہے جو مایوس کرنے کی بجائے بے نیازی کے اُس عزم کو ایک شکوہ کے ساتھ بیدار کر دیتا ہے جو آدمی کی سب سے بڑی قوتوں میں سے ایک ہے اور اسے تاریخ کا بے بس قیدی نہیں بننے دیتی۔ یہ استغنا اُن کے یہاں کسی بلند آواز نظریے میں نہیں ڈھلتا بلکہ ایک روزمرہ کی واقعاتی بناوٹ کے ساتھ ان کی اپنی شخصیت کو حوالہ بنا کر اظہار کرتا ہے۔ اور یہ شخصیت بھی محض ایک اسمِ نکرہ کی طرح ہے، انفرادیت کی فلسفیانہ، شاعرانہ یا نفسیاتی ساخت نہیں رکھتی۔ اپنے اندر عام آدمی کی حفاظت کیے بغیر شخصیت میں خاص بننے کا عمل شروع بھی نہیں ہوسکتا۔ ایسی انفرادیت محض ایک تصور ہے جو اجتماعی وجود بننے کی کامیاب یا ناکام کوشش کا نتیجہ نہ ہو۔


جانے اس جلوہ گہِ ہست میں آئے کیوں ہیں
ہم کہ خود اپنے لیے ہیں نہ زمانے کے لیے


یعنی اس عالمِ وجود میں موجود ہونے کی ذمہ داری

وہی اٹھا سکتا ہے جو انفرادی اجتماعیت کے تقاضے

کوپورا کر سکے یا پھر اجتماعی انفرادیت کے مطالبے کی تکمیل کے لائق ہو۔ کیسی ٹریجڈی ہے کہ ہمارے اندر ہونے کے تمام امکانات ایک ایسی لاتعلقی میں کھپ گئے جس نے ہمیں ”ہم“ بننے دیا نہ ”وہ“۔ اس سے بڑا بحران کیا ہوسکتا ہے لیکن اِس میں بھی معمول کے ہست و نیست سے بلند ہونے کی ایک سرشاری واضح طور پر موجود ہے۔
خورشید رضوی صاحب کے یہاں دو چیزیں مضامین سے لے کر احساسات اوراحساسات سے لے کر تخیل تک میں سرایت کیے ہوے ہیں۔ اور انھی سے معانی کی نوع اور احوال کی ہیئت کا پتا چلتا ہے۔ وہ دو چیزیں تنہائی اور حیرانی ہیں جو ان کی بنائی ہوئی تمام چھوٹی بڑی عمارتوں کی مشترک بنیادیں ہیں۔ ان کے تمام مضامین حیرانی یا تنہائی پرمنتج ہوتے ہیں۔ یہ ان کے تمام افکار کا حاصل ہیں اور تمام احوال کا ماخذ۔ اپنے اندر جھانکنے کا نتیجہ تنہائی ہے اور اپنے سے باہر دیکھنے کا حاصل حیرانی۔ انھوں نے حیرانی اور تنہائی کے منطقوں کو ایک دوسرے سے ممتاز رکھا ہے جس کی وجہ سے ان کے یہاں تعلّی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلّی پیدا ہوتی ہے خود پر حیران ہونے سے جبکہ یہ غیر پر حیران ہوتے ہیں۔ اور تنہائی ذہنی زیادہ ہے لہٰذا اس میں خود رحمی کا عنصر نہیں ہے اور معمولی درجے کی رقّت کے مظاہر نہیں پائے جاتے۔


اُن کے دل میں ہے بہت درد ِ نہاں کی دولت
جن کے سینے پہ نہیں داغ دکھانے کے لیے

یہ مضمون میرے استاد سلیم احمد نے بھی خوب باندھا ہے۔
دل ہے شاید درد سے خالی سلیم
آپ کا لہجہ بہت غمناک ہے
تنہائی اور حیرانی ایک ہو جائے تو المیہ وجود میں آتا ہے۔ ایسا المیہ پرسنل نہیں ہوتا۔ باوجودیکہ تنہائی انا کاحال ہے، اِس میں غیرشخصی پن داخل کر دینا، یہ بڑے کمال کی بات ہے۔ یعنی اپنی شخصیت کو کھنگال کر اور رد کیے بغیر اِس سے اوپر اٹھ جانا اخلاقی وجود اور جمالیاتی شعور کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ البتہ خورشید صاحب کی تنہائی اورحیرانی رسمی معنوں میں عارفانہ اور عاشقانہ نہیں ہے۔ یہ ایک روایت پسند آدمی کے احوال ہیں جسے بالکل اجنبی بن کرجدید دنیا میں رہنا پڑ رہا ہے۔ یہاں روایت پسند آدمی سے کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو، اس لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ روایت پسند آدمی وہ ہوتا ہے جس کے لیے خدا کے بغیر وجود بے حقیقت ہے اور شعور بے اصل۔ روایت کو ایک ورلڈویو کی طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے، جس کا انکار کر کے جدید دنیا وجود میں آئی ہے:


کہاں بیان میں آتی ہے دل کی تنہائی

ستارہ رنگِ سحر سے بھی دور، شب سے بھی دور

بھول کر بھی اپنی محفل میں مجھے شامل نہ جان
تُو مجھے اک روحِ پارینہ کا پیراہن سمجھ
سخت تنہا ہو کے سُوئے خانہئ خورشید چل
اپنے سائے کو بھی تو اِس راہ میں دشمن سمجھ

خورشید رضوی صاحب کو لفظ پر ایک خاص طرح کی قدرت حاصل ہے۔ لفظ پر قدرت کبھی کلی اور ہمہ جہت نہیں ہوتی۔ میر و غالب اور انیس و اقبال کو بھی لفظ پر خاص طرح کی قدرت ہی حاصل ہے، ہر طرح کی نہیں۔ کیونکہ لفظ ادراک اوراظہار سے بڑا ہوتا ہے۔ یہ لفظوں کے درمیان غیرمعروف اورمجہول نسبتیں نہیں قائم کرتے۔ ایسی الل ٹپ نسبتیں ذہن میں کچھ تصویریں یقینا بنا دیتی ہیں، جیسے تیسے مفاہیم بھی پیدا کر دیتی ہیں اور کچھ اجنبی احساسات بھی ابھار دیتی ہیں، لیکن یہ سارا عمل جیسے بلبلے بننے کا عمل ہے۔ اگلے ہی لمحے سب کچھ غائب ہو جاتا ہے۔ یہ لفظوں میں پائی جانے والی معروف نسبتوں کو کام میں لاتے ہیں اور اگر کہیں کوئی نسبت ایجاد بھی کرتے ہیں تو یہ نئی نسبت معروف نسبتوں کی فہرست میں ایک اضافہ ہوتی ہے۔ اور تازہ نسبتوں کی تخلیق کا یہ عمل اظہار و بیان کے ایک باضابطہ نظام سے باہر نکل کر انجام نہیں پاتا۔ ان کا ایک ہنر یہ ہے کہ یہ الفاظ کی معروف نسبتوں کو چھیڑے بغیر نئے مضامین پیدا کر دکھاتے ہیں۔ اظہار کی طرح خورشید صاحب کے یہاں ادراک کی تشکیل کا عمل بھی ایک بڑی روایت کے اصولِ ادراک اور مزاجِ ادراک کے تابع رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں احساسات کی شدت بھی اعصابی نہیں ہوتی بلکہ ایک پہلو سے ذہنی ہوتی ہے اور دوسرے پہلو سے اخلاقی۔ معاصر شعرا میں شاید کوئی ایک بھی ایسا نہ نکلے جس کی شاعری میں آج کی زندگی اور دنیا کے بارے میں ایسی تند مغائرت کا رویہ پایا جاتا ہو جو خورشید صاحب کے یہاں جابجا نظر آتا ہے۔ تاہم اس تندی اور تلخی کی تعمیر میں جذبات و احساسات کا کوئی بنیادی کردار نہیں ہے۔ جذبات و احساسات اس کے اظہار کے ذرائع تو ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اسباب نہیں ہیں۔ اور یہ وہ وصف ہے جس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ خورشید رضوی صاحب اقبال کی روایت کے شاعر ہیں جو جمالیاتی شعور کو اس کے منتہا تک پہنچا کر اس سے ایمانی اور اخلاقی شعور کے ideals کو تازہ اور پرکشش رکھنے کا کام لیتی ہے۔ خورشید صاحب نے بڑی حد تک جمالیاتی شعور کو یہ ذمہ داری نبھانے کے قابل بنا دیا ہے اسی لیے ان کے یہاں جمالیاتی تسکین اور اخلاقی اطمینان یک حال اور ہم معنی ہے۔ اور یہ خلاصہ ہے اس روایت کا جس کے آخری نمائندے بلکہ مجدد اقبال ہیں:


جو نظر بھی نہیں آتا، اسے دل میں رکھ لیں
وہ جو باہر بھی نہیں ہے، اسے اندر کو بلائیں
راستے بھٹکے ہوے قدموں کو آوازیں دیں

سیپیاں موج میں گھلتے ہوے گوہر کو بلائیں

دیکھ سورج کی خاکساری دیکھ

خاک پر دھوپ آسماں سے آئی

ساتھ دوں گا عمر بھر، پل بھر کا دیوانہ نہیں

میں تو شعلہ ہوں ترا اے شمع، پروانہ نہیں

موجوں کا تلاطم سہتا ہوں

موتی کی طرح رہنے کے لیے

قصہ یہ مختصر مرے سارے دکھوں کا ہے
صرصر پہ بس نہیں، گلِ تر ہے بہت عزیز
ان اشعار میں جمالیاتی اور اخلاقی شعور کی ہم احوالی کی مختلف جہتیں کار فرما ہیں۔ اگر انھیں تجربات کا بیان سمجھا جائے تو ہر تجربے کی تشکیل جمالیاتی انفعال اور اخلاقی فعلیت سے ہوئی ہے۔ یعنی دونوں اپنی ساخت میں کسی تبدیلی کے بغیر ایک دوسرے میں اگر مدغم نہیں ہیں تو بھی آپس میں ہم آہنگ ضرور ہیں۔
ان کی شاعری کا مزاج چونکہ گہرائی کا ہے اس لیے اس میں وہ چمک دمک اور بلند آوازی نہیں ہے جس کی مدد سے اکثر جمالیاتی التباس اور اخلاقی تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔ جمالیات جس دید کے آداب کا مجموعہ ہے انھیں بجا لانے کی ذمہ داری صرف آنکھوں پر نہیں ہے۔ اسی طرح اخلاق جن احوالِ خیر سے عبارت ہے وہ اپنی بناوٹ میں اظہار سے زیادہ اخفا سے مناسبت رکھتے ہیں اور ان میں وفور کی کیفیت بھی نہ تو احساس میں پرشور ہوتی ہے نہ ہی بیان میں۔ یہ گہرائی، جس کا ابھی ذکر ہوا، ایک سادہ سی گہرائی ہے جس میں کوئی پیچ داری نہیں۔ یہ عمق فکری اور تخئیلی نہیں ہے، اخلاقی اور احساساتی ہے۔ یا ذرا بڑے لفظوں میں کہا جائے تو ذہنی نہیں ہے، وجودی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ شعر میں اظہار پانے والے تجربات ان کی شخصیت کے انکشاف کی طرح ہوتے ہیں۔ گویا ان کے یہاں object دراصل subject ہی کی توسیع کا ایک جز ہے۔ اسی لیے خورشید صاحب کو دوسرے کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کے لیے جمال کا روحانی آئیڈیا ہی کافی ہے اس کا مصداق ڈھونڈنے میں انھیں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ہاں، حسن و عشق کی شاعرانہ رسم پوری کرنے کے لیے کبھی کبھی ایسے اشعار بھی کہہ دیتے ہیں۔ تاہم ان شعروں میں بھی محبوب ایسا ہے جو نرے شاعروں کی تاک جھانک کا موضوع نہیں بن سکتا۔
وہ کہیں بھی مجھ کو ملا نہیں

نہ فراق میں نہ وصال میں

عافیت کہتی ہے پھر ایک ستم گر کو بلائیں

ریگِ ساحل کی طرح اپنے سمندر کو بلائیں

ترے فراق میں کاٹے ہیں کس طرح مت پوچھ
یہ چند روز کہ تھے عمرِ جاوداں کی طرح
کہاں ہے تو کہ پھر اک بار کاروانِ بہار
گزر رہا ہے مری عمرِ رائگاں کی طرح


شاعری اول و آخر لفظوں کو برتنے کا فن ہے، ان کی تمام تر بضاعت اور امکانات کے ساتھ۔ آج کل کی شاعری اس معاملے میں، الّا ماشاء اللہ، افلاس کا شکار ہے۔ نئے شاعروں کی بہت بڑی اکثریت لفظ سے تقریباً مکمل بے خبری کی وجہ سے اس کے ساتھ ویسی ہی چھیڑ چھاڑ کا رویہ اختیار کر چکی ہے کہ جو چڑیا گھر میں شیر کے پنجرے کے باہر کھڑے ہوے کچھ سورماؤں کا ہوتا ہے۔ خورشید صاحب چونکہ کلاسیکی لسانیاتی ذوق کے وارث ہیں لہٰذا ان کے یہاں الفاظ اپنی معروف دلالتوں اور نسبتوں کو محفوظ رکھتے ہوے علامت بننے کی امنگ سے بھرے نظر آتے ہیں۔ علامت وہ فارم ہے جس کے ذریعے سے حقیقت اپنا اظہار کرتی ہے مگر اس اظہار میں خود فارم بھی ظاہر رہتی ہے۔ تو لفظ کو اس کی مانوس معنویت اور دلالت پر برقرار رکھتے ہوے اسے حقیقت کا مظہر بننے کی قابلیت کے ساتھ استعمال کرنا، شاعری کا ایک بنیادی تقاضا ہے جو خورشید رضوی صاحب کے شعروں میں اسلوب کی سطح پر بھی تسلسل کے ساتھ پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔


جو کہو تو جال سمیٹ لوں
فقط ایک موج ہے جال میں


جس پہ گرنا ہے وہ دروازہ بس اب دُور نہیں
یہی دو چار قدم اور سنبھلنا ہے مجھے


میں آنکھ بند کر کے اُس کو جگا رہا ہوں
میرے کنارِ دل میں جو خواب سو گیا ہے
اک سمت عیشِ ساحل، اک سمت قعر ِ دریا
حیرت میں ہے سفینہ ، گرداب سو گیا ہے

اپنی فوری دلالت میں صرف ہونے کے باوجود ان اشعار کے بنیادی الفاظ علامت کی ساخت رکھتے ہیں۔ ان سے معنی اخذ کرنے کا ایک نامختتم عمل شروع کیا جا سکتا ہے اور یہ سب کچھ قاری کو تکلف اور تصنع بھی نہیں لگتا۔ خورشید رضوی صاحب کے کلام میں ایک وصف واضح طور پر موجود ہے کہ یہ پڑھنے والے کی خلّاقی کو ابھار دیتا ہے۔ حقیقی شاعر معنی کو اس کے substantial حدود میں رکھتے ہوے اس کے اندر معنی خیزی کے غیر محدود امکانات کو بروے کار رکھتا ہے۔
ہماری شعری روایت کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ کئی روایتوں کا مجموعہ ہے۔ مثلاً میر کی روایت، غالب کی روایت، اقبال کی روایت وغیرہ۔ اس روایت میں رہنے کے لیے اکثر شاعروں کو کسی بڑے شاعر سے منسوب ہو جانے والی ضمنی روایت کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس قبولیت کے کئی اسباب و محرکات ہو سکتے ہیں جن میں سے کچھ اختیاری ہوتے ہیں اور کچھ غیر اختیاری۔ خورشید رضوی صاحب کا تعلق، جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا، اقبال کی روایت سے ہے۔ اس روایت سے نسبت پیدا کرنے کے لیے کم از کم دو چیزیں ضروری ہیں: اخلاقی آئڈیلزم جو جمالیاتی شعور کا بھی مقصود بن سکے، اور اس کے علاوہ، تاریخی شعور کی جدلیاتی عملیّت (dialectical pragmatism)۔ خورشید صاحب کے یہاں تاریخ المیے کی نرسری ہے۔ اس کی دنیا میں رہنے کے لیے ایک باوقار، جارحانہ اور مؤثر بے نیازی کی بھی ضرورت ہے۔ ان کی اس کتاب میں ایک غزل ہے جس میں کم از کم دو شعر ایسے ہیں جنھیں غور سے دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ بتایا جا رہا ہے کہ تاریخ جمال کی دشمن ہے اور جلال کی باندی۔ یہ انسان کے ”تعمیری“ منصوبوں کو قبول نہیں کرتی اور اس کی ”تخریبی“ قوت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔
بس اب یہی ہے کہ سب کچھ جلا کے رکھ دیا جائے
پھر اس کے بعد یہ دفتر اٹھا کے رکھ دیا جائے
وہی بہت ہے قیامت جو آ چکی ہے یہاں
بس اب یہ صور لبوں سے لگا کے رکھ دیا جائے
مطلع کو ذرا مراقبے کی حالت میں پڑھیں تو شاید رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ایک تقدیری آہنگ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ تاریخ کو اس کے تمام اصول و مظاہر سمیت اپنے جذبہئ وجود کی آگ سے بھسم کر دو اور پھر وہ دفترِ ہستی ہی اٹھا کر طاقِ عدم پر رکھ دو جس میں تاریخ کو ایسا مرکزی کردار ودیعت کیا گیا ہے۔ پہلا مصرع یقینا اقبال کے اس شعر کی ادھوری گونج ہے کہ:


پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

لیکن دوسرے مصرعے میں جس ”تخریبی“ قوت کو

ابھارا گیا ہے وہ اقبال کے اس شعر سے اظہار پانے والی ”تعمیری“طاقت سے زیادہ محسوس ہوتی ہے یعنی اس جذبہئ نفی کا خروش اقبال کے جذبہ ایجاب سے بڑھ کر مؤثر معلوم ہوتا ہے۔ دونوں شعروں میں اصل passion انکار کا ہے لیکن اقبال کے یہاں یہ انکار ایک بڑے اقرارکی تمہید بن جانے کی وجہ سے معنی کی سطح پر تو کمال کو پہنچ گیا لیکن جذبے کے زور میں کمی آ گئی۔ جبکہ خورشید صاحب کے مطلع میں یہ passion ایک مسلسل اٹھان کی حالت میں ہے، اور اٹھان بھی ایسی کہ سارا نظامِ بود ونبود جیسے ایک بلند ہوتے ہوے بگولے کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ اسرافیل علیہ السلام کو اگر بالفرض ایک شعر کہنے کی اجازت ملتی تو قوی امید ہے کہ وہ یہی مطلع ہوتا۔ دوسرا شعر بھی عجیب ہے۔ تاریخ کا خاتمہ ہو جائے تو قیامت کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ قیامت تاریخ کے خاتمے ہی کے لیے برپا ہوتی ہے۔ مطلع میں بیان ہونے والا منصوبہ پورا ہو گیا تو اب معروف قیامت بے جواز ہے البتہ ایک رسم پوری کی جا سکتی ہے، وہ بھلے پوری کر لی جائے کہ ”یہ صور لبوں سے لگا کے رکھ دیا جائے“۔ اس شعر میں ایک اور کرشمہ بھی دکھایا گیا ہے۔ جو قیامت آ چکی ہے اس کے لیے ”وہی“ کا صیغہ استعمال کیا جا رہا ہے اور جس قیامت کو ابھی آنا ہے، اسے برپا کرنے والے صور کو ”یہ صور“ کہا جا رہا ہے! سب جانتے ہیں کہ ”یہ“ کا اشارہ قریب کی چیز کے لیے ہوتا ہے اور ”وہ“ دور کی چیز کے لیے۔ تو کیا اس شعر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ جس قیامت کا وعدہ تھا اس کے آنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں کہ اچانک ایک آدمی اٹھا اور حضرتِ اسرافیل سے کہنے لگا کہ آپ جو قیامت برپا کرنے چلے ہیں اس سے کہیں بڑی قیامت ہم پر بہت پہلے آ چکی ہے۔ اب اس قیامت کی بھد اڑوانے کی بجائے بہتر ہو گا کہ آپ علامتی طور پر صور کو منہ سے لگانے کی رسم ادا کر دیں اور ایک طرف کو ہو جائیں۔ صور میں سے آواز اتنی بلندنہیں ہو سکتی جتنی کہ وجود و عدم کے الاؤ کو اپنے زورِ نفس سے سرد کر دینے والے آدمی کے سینے سے نکل کر ہو چکی ہے۔ گو کہ یہ مضمون بھی اقبال کے یہاں پہلے بیان ہو چکا ہے:
حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا
لیکن خورشید صاحب نے محض ایک چھوٹے سے تکنیکی تصرف کے ذریعے سے اقبال کے ہوتے ہوے بھی اس پر اپنی ملکیت ثابت کر دی ہے۔
اقبال یہ فرما رہے ہیں کہ انسان کی پیدا کی ہوئی قیامت اسرافیل کی لائی ہوئی قیامت کے برابر ہو گی جبکہ خورشید صاحب یہ دکھا رہے ہیں کہ اسرافیلی قیامت انسانی قیامت سے چھوٹی ہو گی۔ اقبال معانی کے مینار بناتے ہیں، اردو شاعری کی زمین پر کھڑے سب سے اونچے مینار! ان کے کسی مرکزی مضمون میں کوئی نئی معنوی اور تخئیلی جہت نکال لینا بڑا کارنامہ ہے کہ نہیں؟
احمد جاوید