پاکستان: ایک کہانی ، ایک کردار

یہ تحریر 2373 مرتبہ دیکھی گئی

یہ اگست 1947 میں ہونے والے بٹوارے کی وہ کہانی ہے جو راقمہ نے اپنی مرحومہ والدہ کے خالو  سے سُنی۔ نانا اٙبّا محمد علی جو اُس وقت سترہ برس کے تھے یہ ان کی آپ بیتی ہے۔

 شام کے وقت ہندوستان کی ہر بستی اور گاوں میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ مسلمان یہ علاقہ خالی کر دیں ورنہ بُرے نتائج کے  ذمہ دار خود ہوں گے۔ ضلع جالندھر کے شہر ہوشیار پور کے چھوٹے سے گاوں میں نانا جی کی والدہ ماں باوی نے بستی کے سکھوں کی امانتیں واپس کیں،  ضرورت کی غرض سے روپیہ اور زیور ساتھ باندھ لیا۔ رات ابھی زیادہ گہری نہ ہوئی تھی کہ محلے کی سکھ خواتین نے ماں باوی کے جانے کے غم میں اُداس ہوتے ہوئے اشک بار آنکھوں سے انہیں رُخصت کرنا چاہا مگر تاریک رات کی خاموشی میں گھر کے صحن میں کھڑی گائے نے پیاس کی شدت پہ قابو نہ پاتے ہوئے کُرلانا شروع کر دِیا ۔ گائے کی آواز سُن کر ہندووں کے ہاتھوں میں پکڑی شمعیں اور بُوٹوں کی چاپ گھر کے دالان تک آن پہنچی۔ بوڑھی ماں باوی بہت حوصلے والی خاتون تھی اُس نے سِکھ سہیلیوں کی مدد سے اپنے بیٹے محمد علی اور جوان بیٹی فاطمہ کو گھر کے پچھلے دروازے سے بھگا دیا۔ نانا محمد علی بتاتے ہیں کہ میں نے گھر کی پچھلی دیوار کی اوٹ سے دیکھا کہ ایک فوجی نے برچھی کی مدد سے ماں باوی کی گردن پہ وار کیا ہے اور وہ بیٹھے بیٹھے ہی ڈھیر ہو گئی۔

 ماں کی جُدائی کا غم دِل میں چُھپائے دونوں بہن بھائی گِرتے پڑتے آخر کار ہوشیار پُور اسٹیشن پہ اُس ٹرین تک پہنچ گئے جو پاکستان جاتی تھی۔ نانا بتاتے ہیں کہ بٹوارے سے چند ماہ قبل ہی فاطمہ کی شادی ساتھ والے گاوں میں کی گئی تھی۔ فاطمہ کو دو کلو زیور میں بیاہا گیا تھا۔ نہ جانے خاوند کی جدائی تھی یا اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتی ماں کی تصویر کہ ریل گاڑی میں بیٹھتے ہی فاطمہ کی حالت بگڑنے لگی۔ راستہ طویل ہونے کے ساتھ ساتھ پُر خطر بھی تھا ۔ فاطمہ سارے راستے اسہال جیسی تکلیف دہ اذیت میں مبتلا رہی،  آخر کار بدن میں کمزوری اور پانی کی کمی کا شکار ہو کر دم توڑ گئی۔ جوان بہن کی لاش کو ایک کپڑے میں باندھتے ہوئے مجبور بھائی اب ٹرین رُکنے کے انتظار میں تھا۔ کسی انجان اسٹیشن پہ جیسے ہی ٹرین رُکی تو سترہ سالہ مُحمد علی نے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر بہن کو تھوڑا بہت مٹی کے پردے میں چُھپانے کا عمل شروع کیا۔ ابھی یہ کام جاری ہی تھا کہ ریل گاڑی نے اپنی روانگی کا پیغام دے دیا۔ انجان جگہ پہ بہن کی قبر میں سے ٹانگیں جھانک رہی تھیں کہ اُس  نے مُردہ بہن کو آخری سلام کرتے ہوئے پاکستان کی طرف رُخ کِیا۔

پاکستان پہنچ کر کیمپوں میں پیش آنے والی مشکلات اور اپنے بچھڑے ہووں کی تلاش میں خوار ہونے کے مناظر بیان کرتے ہوئے میں نے اِس جی دار بوڑھے کو کئی دفعہ اشک بار ہوتے دیکھا ہے۔

یہ ایک عام سی کہانی ہے مگر ہمارے بڑوں نے اس سے بھی زیادہ بڑی قُربانیوں سے یہ ملک حاصل کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ملک کے وقار کو قائم رکھنے کے لیے اپنے حصے کا چراغ جلا رہے ہیں یا آنے والی آندھیوں کا ہم بے ضمیروں کے ذہن پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔ چودہ اگست کو پاکستان زندہ باد کہہ دینے سے کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہو گئے ؟ آج  یہ سوال ہم سب کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے۔ کیا ہم آزادی کی نعمت کا حق ادا کر سکے یا نا شُکری کی انتہا پہ پہنچ کر محض یہ کہنا سیکھ سکے ہیں کہ ” پاکستان زندہ باد”۔۔۔۔