وہی راستے، وہی اُلجھنیں

یہ تحریر 758 مرتبہ دیکھی گئی

رات کے سرچشموں سے بہتی نیند میں قیام۔ نیند ٹخنوں ٹخنوں، پھر کمر کمر، پھر سر سے گزرتی ہوئی۔ نیند سربسر گزر جائے تو مزاحم کون! خواب مسلّح ہو کر مجھے گھیر لیتے ہیں۔ کسی ہتیاری روشنی میں ان کے برچھوں اور اَنیوں کی چمک، تلواروں کی بُرّانی۔ وہ مجھے لیے جاتے ہیں۔ میرے قدم بھاری ہیں، مشکل سے اٹھتے ہیں، جیسے کوئی مظلوم بے دلی سے مقتل کی طرف بڑھتا ہو۔ سیاہ اور سفید خواب میں دائیں بائیں صورتیں، جیسے کاٹ کر چپکائی ہوئیں، بھیانک بے تعلّقی سے تکتی ہیں۔ بے دید آنکھیں۔ کہیں آگے کہانیوں کا الاؤ بھڑکتا ہے جس سے ناآسودہ منظر پھلجھڑیوں کی طرح بکھرتے ہیں۔
راحت کے سرچشمو، سیمیا سے بہارے ہوے راستو، تم کہ لاینحل بن چکے، اس دنیا میں، جو خود ہمارے خیال کے سوا کہیں نہیں، کس لیے ایسی من چلی چونپ ہو جس کے سہارے پر بھولا بھٹکا یہ گمان کرتا ہے کہ وہ گھر پہنچ گیا جہاں آرام سے سونا ملے گا؟ جو بھی یہاں ہے، اور سمجھتا ہے کہ ہے، دن رات اُدھڑتا جاتا ہے۔ دھوکے کی نقابو، حیرتوں کے حجابو، گھات میں لگے خوابو، کیا دنیا صرف تمھارا پیکھنا ہے؟ جلّادی ہواؤں تلے، تالیوں اور سسکیوں کی لپیٹ میں آکر، میرا ہارا بدن تھرتھراتا ہے۔
۲۰۱۶ء