وارداتیں

یہ تحریر 1015 مرتبہ دیکھی گئی

نیر مصطفےٰ نے اپنی فکشن نویسی کے بارے میں جو لکھا ہے وہ آپ بیتی کم، فکشن زیادہ معلوم ہے۔ شاید سچ ہی ہو جس پر گپ کا التباس ہو سکتا ہے۔ تین (اپنے خیال میں ناکام) کتابیں لکھنے کے بعد بارتھ کا یہ قول نظر سے گزرا کہ مصنف تو مر مرا چکا۔ متن کا اصل خالق تو قاری ہوتا ہے۔ اس انکشاف سے نیر مصطفےٰ، جو ایک پس ماندہ ملک کے نہایت پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھتے تھے، خاصے خوف زدہ ہوئے اور عالم بدحواسی میں اپنی تینوں کتابوں کو عاق کر دیا۔ اس اقدام کو ان تینوں کتابوں کے پڑھنے والے احباب نما دشمنوں نے خوب سراہا۔ ہمارے سامنے ایک سہمے ہوئے ادیب کی تصویر آتی ہے جس پر کسی فرضی موت کے خیال سے لرزہ طاری ہے۔

چور چوری سے گیا تو کیا ہیراپھیری سے بھی گیا۔ کچھ عرصے بعد نیر مصطفےٰ، کی سمجھ میں آ گیا کہ مصنف بھی قاری ہو سکتا ہے بلکہ پہلا قاری وہی ہوتا ہے۔ جو خوف طاری تھا وہ بھاپ بن کر اڑ گیا۔ دوبارہ قلم سنبھالا۔ ابتدا دیباچہ نگاری سے کی۔ پہلا دیباچہ لکھنے کی دیر تھی کہ ملک بھر سے شاعروں اور نثرنگاروں کے مسودے آنے شروع ہو گئے۔ انھیں مدت بعد ایسا خوشامدی نقاد میسر آیا تھا جو پیتل کے کڑے کو سونے کا کنگن لکھنے میں تامل نہ رکھتا تھا۔ پھر اپنے ہی افسانوں کو کاٹ چھانٹ اور الٹ پلٹ کر نئی شے ترتیب دے ڈالی۔ نام رکھا “سینٹرل چوک” اور اسے چربہ شدہ کتاب قرار دیا اور علمی بددیانتی اور تنقیدی نقب زنی کی معراج۔ چوک کے لفظ کو اردو کے بجائے انگریزی choke سمجھ لیا جائے تو بھی خوب ہے۔ مرکزی choke جو اقتدار کی پھسلواں گدی پر براجمان ہر حکومت ہر چیز کا گلا گھونٹنے پر تلی رہتی ہے۔

“سینٹرل چوک” پر بات آگے بھی آئے گی۔ پہلے “ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری” پر نظر ڈال لی جائے۔ کتاب میں افسانے تو سبھی پڑھنے کے قابل ہیں لیکن جو بہتر ہیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ “بوڑھا چارلی اور ریمبراں” میں چارلی نام ایک ناکام مصور ہے جس کی بنائی ہوئی تصویروں کو خریدنا تو درکنار ان پر کوئی تھوکنے کو بھی تیار نہیں۔ بعد میں اس کے ہم زاد نے اسے قتل کر دیا۔ قتل پر خودکشی کا گمان گزرتا تھا۔ تب اس کی تصویروں کا شہرہ ہو گیا۔ یہ اس کی فنی خوبیوں کا اعتراف نہ تھا بلکہ موت سے پیدا ہونے والی ہم دردی کارفرما نظر آتی تھی۔ اور یہ بھی ہے کسی زندہ آدمی کا بھلا کرنے کے بجائے ہم اس وقت اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جب مرنے والے کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں، نقادوں سمیت، اچھے اور برے فن کی بہت کم پہچان ہے۔ “اشرف المخلوقات” اور “چاچا ممدو vs گاما تیلی” بھی بامعنی ہیں۔ ان میں طنز کا جو پہلو ہے وہ کوشش کے بغیر وجود میں آیا ہے۔ “نوانٹری” پر منٹو کا رنگ غالب ہے۔ اس کے باوجود اسے نقالی نہیں کہا جا سکتا اور انفردیت کا حامل ہے۔ “خرم اینڈ کمپنی” اور “اورکٹ ڈاٹ کام کی ایک پروفائل” آج کل ہی لکھے جا سکتے تھے۔ زندگی یا زندگی کے جس ڈھکوسلے سے ان میں واسطہ رکھا گیا وہ موبائل فون کے عام یا مبتذل ہونے سے پہلے ممکن ہی نہ تھا۔ “اوریجنل” ادبی حلقوں یا جلسوں میں ہونے والی تنقید برائے تنقید پر بہت دلچسپ مگر  الم انگیز چوٹ ہے۔ سب سے عمدہ افسانہ “سچ/جھوٹ” ہے۔ بمشکل تین صفحوں پر مشتمل ہے۔ اس میں معاشرے، عدالتی نظام،  ناانصافی اور ظلم کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ لرزہ خیز ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ حقائق کا سراغ لگانا ناممکن ہے۔ “بولنے والے طوطے اور ظالم بادشاہ کی کہانی” بھی تاثیر سے کم نہیں۔ اس میں ایک باپ اپنی ننھی بچی کو قتل کرنے کے ارادے سے ساتھ لے جا رہا ہے۔ کہانی کا تعلق ایسے دور سے ہے جب بچیوں کو قتل کرنا احسن اقدام تصور کیا جاتا تھا۔ اس قصے کو نیر مصطفےٰ نے بڑی ہنرمندی سے بیان اور ختم کیا ہے۔

“سینٹرل چوک” ایک ملغوبہ سا ہے اور اس کے تین حصے ہیں۔ پہلا مائکروفکشن اور نینوفکشن پر مشتمل ہے اور یہی متاثر کن بھی ہے۔ دوسرے حصے میں فکشن اور مختصر افسانے ہیں۔ تیسرے حصے کو شذرات، مضامین، دیباچوں اور خاکوں سے ترتیب دیا گیا ہے۔ سب سے اچھے خاکے ممتاز اطہر اور خالد سعید کے ہیں۔ تاہم جو کمال نیر مصطفےٰ نے نینوفکشن میں دکھایا ہے وہی اس کتاب کی جان ہے۔ ان کی معنویت اور کفایت کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ چند سطروں میں کسی کیفیت یا صورتِ حال کو سمیٹ لینا آسان کام نہیں۔ اس ضمن میں لطائف سب سے کامیاب ہیں جن کا مصنف کوئی نہیں ہوتا۔ انھیں صرف سنایا اور سنا جاتا ہے۔ اب نینوفکشن کی دیگ سے ایک دانہ آپ بھی چکھ لیں۔ معلوم نہیں یہ مصنف کی ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے یا سرقے کا ثمر۔

واردات

بھڑیوں کا ایک اگروہ گوشت خوری کی مذمت میں پریس کانفرنس کر رہا تھا۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ایک رپورٹر بکری ابھی تک اپنے گھر نہیں پہنچی۔ پولیس کو یقین ہے اس واردات کے پیچھے خرگوشوں کا ہاتھ ہے۔

اسے آپ پاکستان کے معاشرے یا سرکار پر منطبق کر سکتے ہیں یا کسی اور ملک پر۔ صورتِ حال تھوڑے یا بہت فرق سے ایک سی ہے۔ پتھرائے ہوئے اقتدار سے چمٹے رہنے والے ہمیشہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا جھوٹ جمع جھوٹ جمع جھوٹ آخر میں سچ کے برابر ہو جائے گا۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ صفرجمع صفر جمع صفر کا حاصل صفر ہی ہوتا ہے۔

ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری از نیر مصطفےٰ

ناشر: بک ٹائم

صفحات: 208؛ چار سو پچاس روپیے

سینٹرل چوک از نیر مصطفےٰ

ناشر: بک ٹائم

صفحات: 200؛ چار سو پچاس روپیے