ن م راشد کی نظم ”تعارف“ کی معنویت

یہ تحریر 4307 مرتبہ دیکھی گئی

تعارف

اجل، ان سے مل،

کہ یہ سادہ دل

نہ اہل صلوٰة اور نہ اہل شراب

نہ اہل ادب اور نہ اہل حساب

نہ اہل کتاب۔۔۔۔۔۔

نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین

نہ اہل خلا اور نہ اہل زمین

فقط بے یقین

اجل، ان سے مت کر حجاب

اجل، ان سے مل

بڑھو، تم بھی آگے بڑھو

اجل سے ملو،

بڑھو نو تونگر گداؤ

نہ کشکول دریوزہ گردی چھپاؤ

تمہیں زندگی سے کوئی ربط نہیں

اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!

بڑھو، بندگانِ زمانہ، بڑھو بندگانِ درم

اجل، یہ سب انسان منفی ہیں

منفی زیادہ ہیں، انسان کم

ہو ان نگاہ کرم !

راشد کی یہ نظم ”تعارف“ ان کے شعری مجموعے لا=انسان سے لی گئی ہے،راشد اس نظم ”تعارف“ کے شعری مجموعہ لا= انسان کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

”میں اپنے تیسرے مجموعہ کلام کا نام لا=انسان رکھنا چاہتا ہوں۔شاید یہ نام آپ کو کسی قدر الجبریائی سا معلوم ہو، لیکن میری مراد یہ ہے کہ زندگی کی مساوات میں انسان ایک گمشدہ ہندسہ ہے جس کی قیمت ہمیں معلوم نہیں اور شعر ہو یا فن گویا اس قیمت دریافت کرنے کی کوششیں ہیں۔ اس لا کی اصل قیمت تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے گی لیکن حساب کی اس مشق میں ہم سب کے لیے لذت ہے اور یہ اپنا اجر آپ ہے۔۔۔“

دیباچہ میں راشد کہتے ہیں کہ ”زندگی کی مساوات میں انسان ایک گمشدہ ہندسہ ہے“ اگر ہم اس جملے پر غور کریں تو اس کے دو مطلب نظر آتے ہیں، ایک مطلب تو سامنے کا ہے کہ زندگی کی مساوات میں انسان کی قدروقیمت کہیں مفقود ہو چکی ہے اور دوسرا ہمیں اس جملے میں مذہب سے بغاوت بھی نظر آتی ہے چونکہ مذہب مساوات کی بات کرتا ہے جبکہ سائنس اس کے برعکس کہتی ہے کہ انسان برابر نہیں ہیں، راشد یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر سب انسان برابر ہیں تو پھر انسانی زندگی میں اونچ نیچ کیوں ہے؟  سائنس انسان کے ارتقا کے حوالہ سے انسان کی مساوات کو قطعی طور پر رد کرتی ہے اور اس کی کئی ایک وجوہات بتاتی ہے۔آگے چلیں تو دیباچہ میں ہی جس طرح راشد صاحب لا کی اصل قیمت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ کبھی معلوم نہ ہو سکے گی۔اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ سارا فلسفہ ہی لا میں پوشیدہ ہے جب تک انسان لا نہیں کرے گا تب تک (بالخصوص علم کی دنیا میں) کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔

دیباچہ کے مذکورہ الفاظ و تعبیر کے تناظر میں دیکھیں تو راشد اس نظم میں انسان کی بے یقینی کی کیفیت سے مایوس نظر آتے ہیں اور ایک تشویش کی سی صورت حال کو پیش کرتے ہیں ، انسان کی اس بے یقینی کی کیفیت کو راشد اپنے اشعار میں یوں پیش کرتے ہیں:

نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین

نہ اہل خلا اور نہ اہل زمین

فقط بے یقین

 میں اس نظم کا ڈسکورس انسان کی کشمکش سے قائم کروں گا کیونکہ شاعر نے انسان کے کھوکھلے پن کو کچھ یوں بے نقاب کیا ہے کہ اس سے اب  اپنی ذات و منزل کا تعین بھی نہیں ہو پا رہا اور مسلسل ایک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے اور یہی کیفیت اسے مزید تضادات کا شکار بنا چکی ہے۔ اگر ہم بنظرِ غائر جائزہ لیں تو راشد صاحب انسان کی اس کنفیوژن سے نالاں نظر آتے ہیں اور تبھی تو اجل کو پکار اُٹھتے ہیں کہ ان سے مل، یہ سادہ دل لوگ ہیں، بے خبر ہیں، اب یہ زمین پر ماسوائے بار کے کچھ نہیں، زمین کو ان لوگوں کے بار سے آزاد کر دے۔ پہلے ہم یہاں راشد کے اس حوالہ سے اشعار پیش کرتے ہیں اور پھر ساتھ ہی ان کی مزید وضاحت پیش کریں گے، اشعار ملاحظہ کریں:

 اجل، ان سے مل،

کہ یہ سادہ دل

نہ اہل صلوٰة اور نہ اہل شراب

 راشد کے یہاں سادہ دل سے مراد کم عقل لوگ ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نہ تو نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہی شراب پیتے ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اہل شراب سے راشد صاحب کی مراد وہ لوگ ہیں جو دنیا دار ہیں اور دنیا کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں، کہتے ہیں یہ لوگ نہ تو مذہبی بنے  اور نہ ہی دنیا دار، مطلب  یہ دونوں چیزوں سے غافل ہو چکے ہیں۔راشد صاحب کہتے ہیں کہ اگر یہ مذہبی ہوتے تو نماز پڑھتے اور اپنے مذہبی احکامات سے جڑے رہتے، دوسری طرف کہتے ہیں یہ لوگ دنیا دار بھی نہ بنے اور بنتے تو اپنے اسی گھر کو مزید خوب صورت بناتے، مطلب دونوں ہی اپنی اصل سے غافل ہو چکے ہیں۔اہل شراب کا ایک مطلب غیر مذہبی بھی بنتا ہے، ایک طرف راشد صاحب جب اہل صلوٰة مطلب مذہبی لوگوں کی بات کرتے ہیں تو ساتھ ہی دوسری طرف اہل شراب کا ذکر بھی کر دیتے ہیں تو یہاں ایک طرف مذہبی اور دوسری طرف اس کے برعکس غیر مذہی ہی بنتا ہے۔ غیر مذہبی کا یہ مفہوم بھی اپنی جگہ درست ہے کہ یہ دنیا دار ہوتے ہیں لیکن جب راشد صاحب اہل زمین کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب دنیا دار لوگ ہی ہیں اور پھر  اغلب گماں اس طرف جاتا ہے کہ اہل شراب کی یہاں تعبیر غیر مذہبی ہی بنے گی کیونکہ غیر مذہبی ضروری نہیں کہ وہ دنیا دار بھی ہوں۔

نہ اہل ادب اور نہ اہل حساب

نہ اہل کتاب۔۔۔۔۔۔

نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین

نہ اہل خلا اور نہ اہل زمین

فقط بے یقین۔۔۔۔۔

راشد صاحب یہاں یہ کہتے ہیں کہ یہ اہل ادب ہیں اور نہ ہی اہل حساب، مطلب لوگوں کو ادب سے دلچسپی رہی اور نہ ہی حساب سے، نہ اہل کتاب ہیں مطلب علمی انسان معدوم ہو گیا ہے، اہل مشین بھی نہ ہیں مطلب لوگ جدید بھی نہ بنے اور بدلتے معاصر تقاضوں سے لا علم ہیں، جدید کو یہاں آرٹ کے معنوں میں لیں۔اہل خلا بھی نہ بنے، اہل خلا یہاں سائنسی ترقی کا استعارہ ہے اور اہل زمین سے مراد اسی دنیا کو حقیقت سمجھنے والا انسان مطلب دنیا دار انسان، راشد صاحب اہل زمین کے ذکر سے اہل شراب والی بات کا ایک طرح سے اعادہ کر رہے ہیں کیونکہ کم و بیش اسی مفہوم کو وہ پہلے اہل شراب کے الفاظ میں پیش کر چکے ہیں جبکہ یہاں اُسی مفہوم کو  اہل زمین کے الفاظ میں دوہراتے نظر آتے ہیں، یہاں ایک بات جو صائب معلوم پڑتی ہے کہ راشد صاحب کے نزدیک  اہل زمین ہی اہم ہیں، اس کی ایک دلیل ہم راشد صاحب کے اسی شعری مجموعہ کے دیباچہ سے دیں گے جس مجموعہ سے یہ نظم ”تعارف“ لی گئی ہے، دیباچہ میں راشد صاحب جب لا کا ذکر کرتے ہیں تو یہ واضح کر دیتے ہیں کہ ”اس لا کی اصل قیمت تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے گی“ پہلے ہم  لا کی تھوڑی وضاحت کرتے ہیں، مذہب میں لا ممکن ہی نہیں کیونکہ مذہب نام ہی عقیدے کا ہے اور جہاں عقیدہ آ گیا تو وہاں لا کی کیا وقعت رہے گی۔ یہ الگ بحث ہے کہ مذہب بات تو لا کی کرتا ہے  مگر اس کی تمام تر تعلیمات میں عقیدہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ اہل زمین کے ذکر کو وہ اہل شراب کے مفہوم میں دوہراتے نظر آتے ہیں اور وہی اہل زمین مذہب سے کوسوں دور  ہوتے ہیں وہ اسی دنیا کو ہی حقیقی سمجھتے ہیں جبکہ مذہبی لوگ ایک اگلی دنیا کی تعبیر کرتے نظر آتے ہیں اور اُسی پہ یقین رکھتے ہیں۔ راشد صاحب  یہاں گہرے دکھ کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں کہ یہ لوگ  مادی ترقی سے بھی دور جا چکے ہیں اور اہل صلوٰة کا تو چلو یہ نظریہ ہے کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے جبکہ اہل زمین کی تو یہی دنیا ہے یہ لوگ اس سے بھی بے اعتنائی برت چکے ہیں۔حقیقت میں راشد صاحب کو یہاں لوگوں نے دونوں حوالوں سے مایوس کر دیا ہے اور اب ان لوگوں کے پاس فقط بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

راشد صاحب، اجل کو اس لیے پکارتے ہیں کہ ان کی نظر میں انسان اپنے برتر مقام کو بھول چکا ہے اور اب ایک ایسے ریوڑ کا حصہ بن گیا ہے جسے کوئی بھی اور کہیں بھی ہنکائے لیے جا سکتا ہے۔ یہ اپنے آپ سے بے خبر ہو چکے ہیں اور انہیں معاصر تقاضوں کا کچھ پتا نہیں ہے کہ دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں یہ بس اپنی دنیا میں مگن ہیں اور ایک ایسے دو راہے پر کھڑے ہیں جہاں یہ  درست سمت کا تعین کرنے سے بھی قاصر ہیں، شاعر اسی کیفیت کو بے یقینی کا نام دیتا ہے اور اجل کو پکار اٹھتا ہے۔

راشد صاحب کے اسی شعری مجموعہ لا= انسان کے حوالہ سے ہم یہاں خلیل الرحمٰن اعظمی کے الفاظ کو پیش کرتے ہیں۔ اعظمی صاحب کے خیالات راشد صاحب کی اس نظم ”تعارف“ کا بالخصوص اور شعری مجموعہ لا= انسان میں پیش کی گئی فکر کا بالعموم احاطہ کرتے نظر آتے ہیں، الفاظ ملاحظہ کیجیے:

” لا = انسان میں اب راشد کی شاعری کا مرکز و محور وہ آفاقی انسان ہے جو قدروں کی شکست و ریخت میں اپنے وجود کا معنی و مفہوم کھو بیٹھا ہے۔ ان نظموں میں زندگی اور وجود کی لا حاصلی اور بے معنویت کا شدید کرب اور انکشافِ ذات کی منزل تک پہنچنے کی سعی ملتی ہے۔جو آج پوری دنیا کی جدید شاعری کا نقطہ ارتکاز ہے۔“

اجل، ان سے مت کر حجاب

اجل، ان سے مل

راشد صاحب کہتے ہیں اے اجل! ان بے یقین لوگوں سے کیسا پردہ ہے، بلا کسی جھجھک کے تو ان سے مل، یہ ایسے وجودی ڈھیر بن گئے ہیں جو بالکل ساکت، لا چار ، لاغر ہو چکے ہیں اور شک و شبہ میں پڑ گئے ہیں۔ان لوگوں کا اب زندگی سے کوئی ربط نہیں رہا، تُو بس ان سے مل۔۔۔۔

بڑھو، تم بھی آگے بڑھو،

اجل سے ملو،

یہاں راشد صاحب اب براہِ راست انہی بے یقین لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اگر تم اس قدر ہی معاصر تقاضوں سے بے خبر ہو چکے ہو اور کسی کام جوگے بھی نہیں رہے ہو تو مسلسل بے یقینی کی سی زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ خود ہی آگے بڑھ کر اجل سے ملو، مطلب موت کو خود ہی اپنے ہاتھوں سے گلے لگا لو، راشد صاحب یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ موت کو گلے لگانے میں ہی ان لوگوں کا مداوا ہے۔

بڑھو نو تونگر گداؤ

نہ کشکول دریوزہ گردی چھپاؤ

تمہیں زندگی سے کوئی ربط نہیں

اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ

بڑھو، بندگانِ زمانہ، بڑھو بندگانِ درم

اجل، یہ سب انسان منفی ہیں

منفی زیادہ ہیں، انسان کم

ہو ان پر نگاہِ کرم

شاعر  یہاں کے سماج کی غلام ذہنیت کو تونگر گداؤ سے جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں نو دولتیے بھلے تمہارے پاس دولت ہے لیکن تمہارے ذہن سے گداگری کی سوچ نہیں نکلی اور جو بھیک کے کشکول تم لوگوں نے اٹھا رکھے ہیں یہ تمہاری غلام ذہنیت کو عیاں کر رہے ہیں، اسے اب کیوں چھپائے پھرتے ہو جب کہ مانگنا ہی اگر تمہارا مقدر ٹھہر چکا ہے تو پھر چھپانا کیسا ہے۔ یہ اشعار استعماریت کی پیدا کردہ ذہنیت کو بھی عیاں کرتے نظر آ رہے ہیں، استعمار نے یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا تھا اور ان مقامی لوگوں کے پاس اپنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اپنا نہیں تھا اور یہ اُنہی کے آگے کشکول اُٹھانے پہ مجبور ہو گئے تھے اور ان کے وظیفہ خوار و باج گزار بن گئے تھے، راشد صاحب یہاں نہایت گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب اگر تم نوآبادیات ہی بن گئے ہو تو پھر اس کو چھپاتے کیوں پھر رہے ہو، اب جبکہ تمہیں زندگی سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ تمہارا اس سے کوئی علاقہ و ربط باقی رہا تو پھر تمہیں موت کو ہی گلے لگا لینا چاہیے کیونکہ غلام ذہنیت اور گداگری والی زندگی سے تو موت کہیں بہتر ہے۔ راشد صاحب کہتے ہیں کہ یہی بندگانِ درم جن کا زندگی سے کوئی ربط نہیں رہا اور منفی انسان بن گئے ہیں، ان کو انسانیت سے کوئی محبت نہیں رہی بس یہ پیسے کے پجاری بن گئے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ زمانہ کے  لوگو اور بندگان درم آگے بڑھو اور موت کو مخاطب کرتے  ہوئے کہتے ہیں یہ سب انسان منفی ہیں بلکہ حد درجہ منفی ہو چکے ہیں اور انسان کے درجے سے بھی گِر چکے ہیں، اے اجل !  ان پر نگاہِ کرم کر اور انہیں اجیرن و بے یقینی کی  زندگی سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا دے۔۔۔ بے یقینی کی کیفیت انسان کو منفی بنا دیتی ہے پھر بعض دفعہ انسان، انسان سے ہی دور ہو جاتا ہے بلکہ انسان کی انسان سے یہ دوری اس کو انسان ہی نہیں رہنے دیتی، اسی بات کو شاعر منفی انسان زیادہ قرار دیتا ہے اور اجل کو پکار اٹھتا ہے کہ ان پر نگاہِ کرم کر اور انہیں زندگی سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا دے۔