نیر مسعود کا افسانہ “مراسلہ”

یہ تحریر 2224 مرتبہ دیکھی گئی

”مکرمی! آپ کے مؤقر اخبار کے ذریعے میں متعلقہ حکام کو شہر کے مغربی علاقے کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج جب بڑے پیمانے پر شہر کی توسیع ہو رہی ہے اور ہر علاقے کے شہریوں کو جدید ترین سہولتیں بہم پہنچائی جا رہی ہیں، یہ مغربی علاقہ بجلی اور پانی کی لائنوں تک سے محروم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کی تین ہی سمتیں ہیں۔ حال ہی میں جب ایک مدت کے بعد میرا اس طرف ایک ضرورت سے جانا ہوا تو مجھ کو شہر کا یہ علاقہ بالکل ویسا ہی نظر آیا جیسا میرے بچپن میں تھا۔ ۱۔رومانی افسانہ ہی اصل ہے؟ ۲۔ سماجی افسانہ ہی اصل افسانہ ہے؟ ۳۔ نفسیاتی افسانہ ہی اصل افسانہ ہے؟ ۴۔ جنسی افسانہ ہی اصل افسانہ ہے؟ ۵۔۔۔۔۔۔ ۶۔۔۔۔۔ افسانے کے ساتھ رومانی، سماجی، نفسیاتی، جنسی سابقوں کی مدد سے ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان سابقوں میں اضافہ ممکن ہے۔ افسانہ رومانی ہو سکتا ہے، سماجی ہو سکتا ہے، نفسیاتی ہو سکتا ہے تو کچھ اور کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس کچھ اور کا فیصلہ ابھی تک اردو افسانے کے ناقدین نے نہیں دیا۔ سو ہم قارئین اردو افسانے کو انہی اضافتوں کے ساتھ سمجھنے پر مجبور ہیں۔

قارئین کو اس فیصلے کے انتظار میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ افسانہ اگر اس چلتی زندگی کا بیان ہے تو پھر ثابت ہوتا ہے کہ اسے ہم سابقوں، لاحقوں کی مدد سے نہیں سمجھ سکتے۔ زندگی اگر ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے (اور اس میں کیا شک ہے) تو پھر ہماری سمجھ کے پیمانے اتنے محدود کیوں ہیں۔ اس تحریر میں نیرمسعود کی کہانی ”مراسلہ“ کو توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔ نیرمسعود کی اردو فکشن میں تخصیص یہ ہے کہ وہ افسانہ لکھتے ہیں، صرف افسانہ، جس پر رومانی، سماجی، نفسیاتی اور جنسی افسانہ نگاری کا ٹھپا نہیں لگ سکتا۔ افسانوی تنقید کی ان مہروں میں سے اگر کوئی ایک مہر بھی نیرمسعود کے افسانوں پر لگ جاتی تو آج ان کے فن پر تنقیدی تحریروں کی وضاحتی فہرستیں بن رہی ہوتیں۔ لیکن شکر ہے کہ افسانے کے ناقدین کو منٹو کی جنس نگاری اور پریم چند کے سماجی شعور کو بیان کرنے سے ہی فرصت نہیں۔ اگر فرصت ملی تو وہ حیات اللہ انصاری، عظیم بیگ چغتائی، سید ابوالفضل صدیقی، سید رفیق حسین، ضمیر الدین احمد، محمد احسن فاروقی، نیرمسعود، اسد محمد خاں، حسن منظر، خالدہ حسین اور محمد سلیم الرحمٰن پر ضرور کچھ لکھیں گے۔ پتا نہیں ایسی کون سی وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہ کہانی کار اردو فکشن کے ناقدین کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اگرچہ اس غیاب سے ان تخلیق کاروں کی فنی و فکری چابک دستی پر تو کوئی فرق نہیں پڑا تاہم اس نوع کے احتراز سے چند استفہامیوں نے ضرور جنم لیا ہے۔ پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ ہم رائج موضوعات و اسالیب سے کب تک اپنے آپ کو دلاسے دیتے رہیں گے۔ یعنی جس کہانی کار کے ہاں ظالم اور مظلوم، جابر اور مجبور کرداروں کی بہتات ہے، وہ کہانی کار درست سمت کی طرف سفر کر رہا ہے جب کہ اس کے برعکس جو افسانہ نگار اپنے فن کی بنیاد زندگی کی ہماہمی اور تنوع پر رکھتا ہے وہ ذہنی تلذذ کا متلاشی ہے اور بس۔ جیسے ذہنی آرام کوئی کم اہم چیز ہو۔ اصل مسئلہ ذہنی تلذذ کی پھبتی نہیں، معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ ہم نے ان کہانی کاروں کی دنیا میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر ہم اس جرم کا ارتکاب کر لیتے تو ان لکھنے والوں کے باطنی حسن اور تنوع سے اپنی زندگیوں کو روشن کر سکتے تھے۔ ان کہانی کاروں کی باطنی فضا قدرے مختلف ہے۔ اس فضا میں داخل ہونے سے پہلے پرانے سبق بھولنے پڑتے ہیں۔ کاش ہم اردو افسانہ نگاروں کی فہرست میں تعینِ قدر کے اعتبار سے اعتماد سے کام لیتے۔ جس کے لیے عمیق مطالعہ جیسی مشکل منزل سے گزرنا ہوگا جو اس منتشر زندگی میں ایک خواب سا بن گیا ہے۔ ”مراسلہ“ نیرمسعود کی کہانیوں کے مجموعے ”عطرِکافور“ کا پہلا افسانہ ہے۔ نیرمسعود کی کہانیوں کے چار مجموعے اب تک چھپ کر سامنے آئے۔ ”سیمیا“، ”طاؤس چمن کی مینا“، ”عطرِ کافور“، ”گنجفہ“۔ ”مراسلہ“ کا پلاٹ پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں افسانہ نگار کا اپنی والدہ سے جڑت کا بیان ہے:

”میں نے ان کی اس صورت کا تصور کیا جو میری اوّلیں یادوں میں محفوظ تھی اور چند لمحوں کے لیے بوڑھے چہرے کی جگہ انھیں یادوں والا چہرہ میرے سامنے آ گیا۔“

”اتنا مجھے البتہ یاد ہے کہ وہاں ہر عمر کی عورتیں، مرد اور بچے موجود رہتے تھے اور ان کے ہجوم میں گھری ہوئی اپنی والدہ مجھے ایسی معلوم ہوتی تھیں جیسے بہت سی پتیوں کے بیچ میں کوئی پھول کھلا ہوا ہو۔“ دوسرا حصہ افسانہ نگار کے بچپن کی تلاش کا سفر ہے۔ اس حصے میں سفری روداد بیان کی گئی ہے۔ ”اپنے حساب میں بالکل سیدھی سڑک پر چلا آ رہا تھا۔ لیکن مجھے بارہا اس کا تجربہ ہو چکا تھا کہ دیکھنے میں سیدھی معلوم ہونے والی سڑکیں اتنے غیرمحسوس طریقے پر ادھر ادھر گھوم جاتی ہیں کہ ان پر چلنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی اور اس کا رخ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔“ تیسرے حصے میں افسانہ نگار اپنی والدہ کی ہدایت پر اپنے بچپن کی جگہ حکیموں والے چبوترے پر پہنچ جاتا ہے۔ ”مجھے ان آوازوں میں اپنی والدہ کا گھر کا نام اور اپنا بچپن والا نام بار بار سنائی دیا۔“ چوتھے حصے میں افسانہ نگار کی ملاقات بچپن کے بھولے ہوئے لوگوں سے ہوتی ہے۔ ”تمھیں تو اب کیا یاد ہوگا، چھٹپنے میں تم یہاں آتے تھے تو جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔“ ”تب بھی تم روتے ہوئے جاتے تھے۔“ انھوں نے لمبی سانس لی اور ان کی آواز تھوڑی کپکپا گئی۔ ”وقت نے بڑا فرق ڈال دیا ہے بیٹے۔“ افسانے کے پانچویں اور آخری حصے میں بچپن کی طرف مراجعت کا بیان مکمل ہوتا ہے۔ بچپن کی چھوڑی ہوئی کچھ جگہیں افسانہ نگار پھر سے دیکھتا ہے اور افسانے کا اختتام کر دیتا ہے۔ ”قبروں کی تعداد میرے اندازے سے زیادہ تھی، لیکن پتاور کا وہ جھنڈ غائب تھا جو ایک بہت پرانے سانپ کا مسکن بتایا جاتا تھا۔“

”مراسلہ“ پہلی نظر میں اوّل، آخر ایک سادہ بیانیہ محسوس ہوتا ہے لیکن یہ بیانیہ اتنا سادہ ہرگز نہیں۔ نیرمسعود کو اس بات کا شدت سے احساس رہتا ہے کہ معنی کے بغیر حرف بے توقیر ہوتا ہے۔ نیرمسعود کے ہاں معنی کے استخراج کے اعتبار سے بھی ایک اختصاص نظر آتا ہے۔ ایک خوبی تو یہ نظر آتی ہے کہ معانی کی سطح اوپری ہرگز نہیں۔ ایسا نہیں کہ آپ چھوٹتے ہی بے تکلفی سے ان کی تخلیق کردہ افسانوی دنیا میں داخل ہو جائیں۔ بھلا ایک عمر کی کمائی کو کوئی اتنی جلدی بھی لٹاتا ہے۔ نیرمسعود قاری کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا ساتھ جو وقتی ہرگز نہ ہو۔

نیرمسعود کہانی کی بنت میں قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ کہانی میں اسرار کو قائم رکھنے کے لیے بے جا تفاصیل سے اجتناب کرتے ہیں۔ کچھ دکھا دیتے ہیں اور کچھ چھپا کے رکھ لیتے ہیں۔ اس عمل میں ایسا لگتا ہے جیسے انھیں اپنے قاری پر اعتماد ہو۔ اگرچہ قاری پر اعتماد کے اس عمل میں انھیں ”مہمل“ اور ”لایعنی“ افسانہ نگار بھی کہا گیا۔ مگر جو قاری پڑھتے وقت ذہن پر زور دینا پسند نہیں کرتا اس سے ایسا جواب بالکل توقع کے مطابق ہے۔ ”مراسلہ“ کو پڑھتے وقت بھی قاری کے پاس راستے کی کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ مثلاً کہانی میں مہر کے سوا کسی کردار کا نام نہیں استعمال کیا گیا۔ مہر کا نام بھی افسانہ نگار نے نہیں بلکہ کسی اور کردار کی طرف سے ادا کیا گیا۔ اس اہتمام کی تو یہی سمجھ آتی ہے کہ بچپن کی یاد میں کرداروں کے نام لے لیے جاتے تو کہانی کا اسرار ختم ہو جاتا۔ اگر افسانہ نگار حکیموں کے گھر میں اس طرح داخل ہوتا کہ سلمیٰ نے دروازہ کھولا، عابدہ نے چارپائی پر بیٹھنے کو کہاتو بچپن کا وہ اسرار بیان نہیں ہو سکتا تھا۔ پھر افسانہ نگار تو سب کچھ بھول بھال گیا ہے، نام کیسے یاد رہ سکتے تھے۔

”مراسلہ“ کا آغاز حکامِ بالا کو لکھے گئے خط سے ہوتا ہے۔ اس خط میں اس علاقے کی پسماندگی کا ذکر کیا گیا ہے، جس علاقے میں مرکزی کردار کا بچپن گزرتا ہے۔ انسان عام حالات میں جب ایک جگہ کو چھوڑ کردوسری جگہ چلے جاتے ہیں تو پہلی جگہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسا نہیں کرتے جیسے اس افسانے کا مرکزی کردار جو بڑا عرصہ گزرنے کے بعد توجہ دلا رہا ہے کہ حکامِ بالا اس علاقے میں بنیادی انسانی ضرورتیں پہنچائیں جس علاقے میں اس کا بچپن گزرا ہے۔

نیرمسعود اپنے فکشن میں کھوئے ہوؤں کو فراموش نہیں کرتے بلکہ ان کی تلاش اور تحفظ پر اپنے فن کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔ انسان تو ایک طرف نیر مسعود کے تئیں وہ جگہیں قابل احترام ٹھہرتی ہیں جن جگہوں سے یہ کبھی گزرے تھے۔ وہ اپنے فکشن میں قریبی لوگوں کا بیان تقدس اور متانت سے کرتے ہیں۔ ”مراسلہ“ ایک اعتبار سے بچپن، اپنی والدہ اور وہ جگہ جہاں ان کا والدہ کے ساتھ وقت گزرا، ایک خراج ہے۔ ماں سے محبت ہر ایک کرتا ہے لیکن اس محبت کا بیان اور اس بیان میں توازن کسی کسی کے حصے میں آتا ہے۔ توازن ان کے افسانوں کا بنیادی وصف ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم افسانے کے نام سے آدھے سے زیادہ افسانہ جان لیں۔ ”مراسلہ“ ایسا نام ہے کہ بظاہر لگتا ہے کوئی خبر ہوگی لیکن اس کی بنت ماضی کی تصویر بناتی نظر آتی ہے۔ ماضی سے محبت اور اس کے بیان پر فخر ایک اعتبار سے تہذیبی تفاخر ہی ہوتا ہے۔

”مراسلہ“ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ لکھنے والے کا بچپن نہایت شائستہ لوگوں میں گزرا ہے۔ اس گزران سے ہم ماضی کی معاشرت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں جس میں والدہ کے کردار کی مدد سے یہ دکھایا گیا ہے کہ چھوٹوں سے سلام کا طریقہ ہے کہ انھیں اپنے پاس بلاؤ اور اگر بڑوں سے ملنا تو ان کے پاس جا کر سلام کرو۔ وہ خود بھی وہاں کے کسی فرد کو فراموش نہ کرتیں۔ چھوٹوں اور برابر والوں کو اپنے پاس بلاتیں۔ بڑوں کے پاس آپ جاتی ہیں اور وہاں کے خاندانی جھگڑوں میں جو اکثر ہوا کرتے تھے، ان کا فیصلہ سب کو منظور ہوتا تھا۔“

”مراسلہ“ میں ایسا معاشرہ نظر آتا ہے جو ابھی بکھرا نہیں۔ ایک احاطے میں ایک سے زیادہ گھر آباد ہیں جن کی زندگی اکٹھی گزر رہی ہے۔ اگر کہیں شکست و ریخت ہے تو وہ باہر کے ماحول میں۔ گھر کے اندر کا ماحول مکینوں کے اندر کی طرح صاف اور اجلا ہے۔ ”دالان میں نیچے تختوں کا چوکا اور اس کے دونوں طرف بھاری مہریاں تھیں۔ سب پر صاف دھلی ہوئی چادریں بچھی تھیں جن میں سے بعض کا ابھی کلف بھی نہ ٹوٹا تھا۔“ افسانے کی جزئیات میں وقت کے پیدا ہوئے فاصلے کا بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مرکزی کردار کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ آج کی نسل اور پرانی نسل کے لوگوں میں مکالمہ کتنی عجیب صورت اختیار کر چکا ہے۔ مرکزی کردار گھر کے بچوں کی پسند ناپسند سے بے خبر ہے۔ اسے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے کیا اور کیسے بات کی جائے۔ گھر کے بڑے تو چوں کہ تہذیب کے لوگ اور ان کی تہذیب مکالمے کی کوئی نہ کوئی صورت نکال رہی ہے۔ لیکن نئی نسل کا انداز قطعی مختلف ہے۔ وہ مرکزی کردار پر پھبتیاں کس رہے ہیں اور اس کو پتا نہیں چل رہا کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ وہ اپنی سی کوشش بھی کرتا ہے کہ کسی طرح یہ فاصلہ ختم ہو گا مگر وقت کے پیدا کیے ہوئے فاصلے کب ختم ہوتے ہیں۔ وہ تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور گہرے ہو جاتے ہیں۔ ان کی یہی گہرائی ماضی کی نسل کا امتحان ہے اور جانے کب یہ امتحان ختم ہوگا۔ ”اس نے دالان کی طرف دیکھ کر کچھ اشارہ کیا اور لڑکیاں اٹھ کر چلی گئیں۔ کچھ دیر بعد قریب کے کسی درجے سے ان کے ہنسنے اور چینی کے برتن بجنے کی آوازیں آئیں۔ مجھے دونوں میں مبہم سی مشابہت محسوس ہوئی اور یہ بھی شبہ ہوا کہ لڑکیاں میرے بولنے کی نقل اتار رہی ہیں۔

یہاں پرانی اقدار کا احترام اس معاشرت کی ذہنی صحت کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ افسانے میں بیگم کے چہرے پر پریشانی کے آثار اس وقت نمودار ہوتے ہیں جب ایک جوان لڑکی یعنی مہر مرکزی کردار کے سامنے آنے لگتی ہے۔ یعنی اس تہذیب میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا کہ جوان لڑکی کسی اجنبی کے سامنے آئے۔ یہ سب کچھ آج کی معاشرت کو شوبھا دیتا ہے۔ جس میں تہذیبی قدروں کو کس آسانی سے تماشا بنا دیا گیا ہے۔ آج کا انسان ترقی کرنا چاہتا ہے، چاہے اسے اس منزل تک پہنچنے کے لیے اقدار کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ مستقبل پر ماضی کو قربان کرنے کا یہ سودا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھ رہے ہیں۔ ”مراسلہ“ میں دکھایا جانے والا یہ گھر تہذیبی اقدارکا گھر ہے۔ اس گھر میں گزرے ہوئے زمانے کے لوگ بھی ہیں اور نئی نسل بھی براجمان ہے۔ افسانہ نگار نے کہیں بھی تبصرہ نہیں کیا کہ ماضی اچھا تھا یا مستقبل اچھا نہیں ہوگا۔ ماضی کے لوگ بھی آپ کے سامنے ہیں اور حال کی پیداوار بھی دکھائی گئی ہے۔ اس تمام کیفیت کا بیان براہِ راست نہیں۔ آپ خود ان کرداروں کے خصائص سے جان سکتے ہیں کہ کون کیا ہے اور کیسا ہے۔ مرکزی کردار کی اس گھر میں آمد اس کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ یہاں بھی والدہ سے محبت جیسی نفیس قدر اسے اس گھرانے کے ہاں لے آئی ہے۔ مرکزی کردار جن لوگوں سے آ کر ملتا ہے، ان لوگوں نے بھی یکسر فراموش نہیں کیا بلکہ جس سبھاؤ سے وہ ماضی کی قدریں پروان چڑھی تھیں، اسی سبھاؤ سے وہ ایک ایک کرکے یاد آتی ہیں۔ یہ یاد اکیلے مرکزی کردار کا اثاثہ نہیں بلکہ ہر اس جدا ہونے والے کے لیے تسلی ہیں جو ایک زمانے بعد اپنے بچپن کو یاد کرتا ہے۔ کچھ چیزیں، کچھ مقامات انسانی زندگی میں ایسے آتے ہیں جنھیں وہ چھوڑنا بھی چاہے تو نہیں چھوڑ سکتا، بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھول سکتا۔ وہ جگہیں، وہ لوگ انسانی لاشعور میں ٹھکانے کر لیتے ہیں اور شکلیں بدل بدل کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ کبھی کہانی کی صورت میں، کبھی گیت کی صورت میں، کبھی خواب کی صورت میں۔ اور فرد ان کہانیوں سے اپنی زندگی کی خالی جگہیں پُر کرتا رہتا ہے۔

”’کیا مہر آئی ہیں؟“ انھوں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ مجھے ان کے آسودہ چہرے پر پہلی بار فکر کی ہلکی سی پرچھائی نظر آئی۔“ مراسلہ کا پلاٹ اور جزئیات نگاری کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ افسانہ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد سے شروع ہوتا ہے اور ایک دن کا زمانی دورانیہ مکمل کرنے کے بعد شام کے وقت ختم ہو جاتا ہے۔ (غنودگی اگر نیند کی علامت ہے تب) کیوں کہ مرکزی کردار اور بیگم دونوں پر غنودگی چھا جاتی ہے۔ ”مراسلہ“ ہماری توجہ اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کرواتا ہے کہ نیرمسعود جیسے لوگ تہذیبوں کا حافظہ ہوتے ہیں اور جو تہذیبیں اپنا فخر بھول جاتی ہیں ان کا حال ایسا ہو جاتا ہے جیسا اقوامِ عالم میں ہمارا حال ہے۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/