نیا عہد نامہ: میں روشن خیالی کے بنیادی اشارے

یہ تحریر 725 مرتبہ دیکھی گئی

نیا عہد نامہ، یعنی انجیل (کتاب مقدس) میں کٸی جگہوں پر ایسی باتیں ہیں جو آپ کو مابعد الطبیعاتی دنیا سے مادی دنیا میں لاتی ہیں، اور آپ ان باتوں کو مادی حوالے سے سوچنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں، جیسا کہ خدا کو تجرید کی دنیا سے نکال کر اسے مادی سطح پر لانا مثلا ”مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلاٸیں گے“ اب اس میں خدا کے بیٹے کہلانا کیا ہے? پھر آگے دیکھیں ”آسمان خدا کا تخت ہے اور زمین اس کے پاٶں کی چوکی ہے“اب خدا کے پاٶں کی چوکی کیا ہے? اور یسوع بارہا اعتراف کرتا ہے جو باتیں میں آپ کو بتانے آیا ہوں وہ آپ پہلے ہی سن چکے ہو یعنی آپ کو معلوم ہیں، ایک جگہ پہ یسوع کہتا ہے میرا کام توریت کو منسوخ کرنا نہیں بلکہ پورا کرنا ہے اور پورا وہ معاصر ضروریات کے تحت اپنے احکام جاری کرنے کی صورت میں کرتا ہے، نہ کہ کسی الہیاتی حکم کے تابع رہ کر، یسوع کیسے توریت یا نبیوں کی کتابوں کو پورا کرتے ہیں ? اس دعوی کی تکمیل ان آیات سے بھی ہوتی نظر آتی ہے، آگے چل کر اس دعوی کے حق میں ہم مزید دلاٸل بھی پیش کریں گے، آپ پہلے ان کے یہ الفاظ دیکھیں پھر ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں;

” تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا۔ پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلاٸے تو اسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لیے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جاٸے۔ اور اگر تیرا دہنا ہاتھ تجھے ٹھوکر کھلاٸے تو اس کو کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لیے یہی بہتر ہے کہ اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ جاٸے۔“

اواٸل احکام میں زنا سے محض ممانعت تھی، یسوع اس کو ذرا بہتر شکل دے کر کیسے پورا کرتے ہیں? وہ بری خواہش سے عورت پر نگاہ کو بھی اچھا نہیں سمجھتے ، ان کے مطابق زنا محض جسمانی نہیں ہوتا بلکہ اس حوالہ سے مرد کی بری خواہش کو بھی وہ جرم کے داٸرے میں داخل کرتے ہیں اور زنا کی ایک نٸی قسم سے اپنے لوگوں کو آگاہ و خبردار کرتے ہیں، ان کے اس کہے سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ عورت کی قدر ان کی ترجیح میں بنیادی حیثیت رکھے ہوٸے تھی۔ اگلی آیات میں سزا میں نرمی دیکھنے کو ملتی ہے مثلا دہنی آنکھ کے جرم کی سزا صرف دہنی آنکھ کو ملے گی نہ کہ پورے جسم کو ، اسی طرح دہنے ہاتھ کے جرم کی سزا صرف اسی ہاتھ کو ملے نہ کہ سارے بدن کو۔ جبکہ زنا اور اس کی سزا کے احکام آخری کتاب فرقان حمید میں ان کے بالکل الٹ رقم ہیں، بلکہ اس میں یہ درج ہے کہ جرم کوٸی کرے گا اور اس کی سزا کوٸی اور پاٸے گا۔

اچھا یہیں پر ایک دلچسپ بات یسوع کرتا ہے جس کی تاٸید آخری الہیاتی کتاب میں نہیں کی گٸی، ملاحظہ ہو۔
” تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت، لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھ اور اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کر تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو“

اس بات سے دو نکات سامنے آتے ہیں جو سوچنے پہ مجبور کرتے ہیں، اس میں پہلی بات تو یسوع پہلے کے جاری کردہ احکام سے انکاری ہے اور اپنا ہی فیصلہ صادر کرتا ہے جسے عقل بھی تسلیم کرتی ہے دوسری بات آخری کتاب تو اس دشمن سے محبت والی بات کو بھی رد کرتی ہے تو تاٸید کا نعرہ پھر کہاں گیا? پس ثابت یہ ہوا یسوع کی آٸیڈیالوجی انسان دوست تھی بصورت دیگر معاملہ بڑا سخت ہے۔

پھر آگے دعا کے متعلق یسوع اپنے لوگوں کو بڑا شاندار پیغام دیتا ہے کہ یہ تمہارے باپ یعنی خدا اور بیٹے یعنی اس کے بندوں کے درمیان پوشیدگی کا معاملہ ہے، اسے بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر نہ مانگا کرو، یہ ایک پوشیدگی ہے جو تیرا خدا بہتر جانتا ہے وہ تجھے دے گا، اس سے اگلی آیت میں وہ کہتا ہے ”دعا کرتے وقت غیر قوموں کے لوگوں کی طرح بک بک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب ہماری سنی جاٸے گی“ آگے وہ فرماتا ہے کہ حالانکہ ایسا کچھ نہیں تمہاری احتیاج کو وہ تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے، جبکہ آج مذہب اسلام میں دعا کا معاملہ اس کے برعکس ہے، تو یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گزشتہ الہیاتی پیغام کی تاٸید آنے والا متن نہیں کر رہا۔ مندرجہ بالا یسوع کا دعا کے متعلق احکام میں ایک قابل غور نکتہ پنہاں ہے کہ دعا بازاروں کے موڑوں پر اور بہت بول کر مانگنے کے اس عمل سے دوسرے لوگ بھی مضطرب ہوتے ہیں، اس زاویے سے دیکھا جاٸے تو یسوع کی بات عقل کے زیادہ قریب معلوم پڑتی ہے۔

ایک بات واضح رہے اس کتاب مقدس میں خدا کے بارے ”آسمانی باپ“ کا لفظ بار بار استعمال ہوا ہے اس سے قاری کا خیال ہر دو جانب جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے ایک تو باپ کی شفقت بھرا احساس اور دوسرا ہمیں اس سے خدا کوٸی مجرد شے نہیں معلوم ہوتا بلکہ تغیر پذیر پوزیشن میں نظر آتا ہے۔ ایک جگہ پر یسوع کہتا ہے کہ ”جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں“ اس آیت سے ہم پر کچھ پیچیدہ اور پوشیدہ باتیں عیاں ہوتی ہیں، کیا جھوٹے نبی واقعی جھوٹے تھے? اور جو سچے تھے تو وہ کن بنیادوں اور معیاروں پر سچے تھے? ہم جھوٹے اور سچے کا فرق مابعدالطبیعاتی احکام کے تناظر میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں، ایک بات تو طے ہو جاتی ہے جو اپنے آپ کو سچے نبی کہتے تھے وہ اپنے سچے ہونے کی دلیل میں خداٸی احکام کو پیش کرتے تھے اور جو جھوٹے تھے یقینا وہ بھی اپنے آپ کو خداٸی احکامات کی روشنی میں ہی پیش کرتے ہوں گے، اب ان کی حقیقت کی طرف آتے ہیں جن نبیوں کی تعلیمات غیر منافی ہوتی ہوں گی وہ جھوٹے قرار پاتے ہوں گے اور جن کے احکام عملی سطح پر انسانوں کے موافق ٹھہرتے ہوں گے وہ یقینا سچے ثابت ہوتے ہوں گے۔ جھوٹے اور سچے نبیوں سے ایک بات عیاں ہو جاتی ہے کہ لوگ نبی ہونے کا دعوی تو کرتے تھے لیکن ان کے جھوٹے یا سچے ہونے کا فیصلہ ان کی تعلیمات کو معیار بنا کر ان کے عوام ہی کرتے ہوں گے ۔ اگر مابعدالطبیعاتی کاٸنات سے نبی ڈکلیٸر ہوتے تھے تو پھر یقینا ان کو عطا کردہ معجزاتی طاقت کے اظہار سے لوگوں پر فی الفور واضح ہو جاتا ہو گا مگر ایسا کچھ نہ تھا، تبھی ہمیں ان لوگوں کے نبیوں کے ساتھ ہر طرح کے سوال کرنے اور مکالمے پڑھنے کو ملتے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ معجزے نام کی کوٸی شٸے نہ تھی، اگر ہوتی تو بات شاید سوال اور مکالمے تک نہ آتی، ان کی تعلیمات کی لوگوں پر اثر پذیری اور موافقت ہی یہ طے کرتی ہو گی کہ آیا سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے? اس بات کو آج بھی ہم اپنے معاصر ناصحوں کی تعلیمات پر اپلاٸی کر سکتے ہیں، یعنی ہم ہی ان کو سننے کے بعد یہ طے کرتے ہیں کہ کس کی باتیں مدلل اور عقل کے قریب تر ہیں اور کس کی باتیں غیر عقلی اور کمزور دلاٸل پر مبنی ہیں۔ یہ درج بالا جھوٹے اور سچے کا قضیہ یوں اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح رہے ہم نے یہ سچے اور جھوٹے کا قضیہ مذہبی تناظر میں رقم کیا ہے جبکہ سچے اور جھوٹے کا قضیہ جدید دور میں کوٸی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ہر نظریے کا ابطال ہوتا رہتا ہے اور جو نظریہ جس دوسرے نظریے کا ابطال کرتا ہے وہ ایک خاص وقت میں سچ ٹھہرتا ہے پھر اسی سچ کا جب کوٸی اور نظریہ ابطال کرتا ہے تو وہ ابطال کرنے والا سچ ہو جاتا ہے اور اسی طرح سچ ایک اضافی حالت میں رہتا ہے۔

یہاں ایک اور نکتے کی صراحت بھی ہم کریں گے، متی کی انجیل میں ایک آیت کچھ یوں رقم ہے ”جب وہ گھر پہنچا تو وہ اندھے اس کے پاس آٸے اور یسوع نے ان سے کہا کیا تم کو اعتقاد ہے کہ میں یہ کر سکتا ہوں? انہوں نے اس سے کہا ہاں خداوند“ اس آیت میں ذکر کردہ استفسار پر لوگوں کے جواب سے تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یسوع کی انسان دوست آٸیڈیالوجی کو دیکھ کر خدا، یسوع کی سطح پہ آ جاتا۔ چونکہ لوگوں کے نزدیک یسوع ہی خداوند ہے۔ ایک دلچسپ بات یہاں یہ ہے کہ جب انہوں نے یسوع کو خداوند کہا تو یسوع آگے سے ان کے کہے کا رد نہیں کرتا بلکہ تاٸید کرتا ہے، انجیل میں تاٸیدی بیان ملاحظہ ہو، ”تب اس نے ان کی آنکھیں چھو کر کہا تمہارے اعتقاد کے موافق تمہارے لیے ہو“

جاری ہے۔۔۔۔