نگھر یا گھر آ

یہ تحریر 394 مرتبہ دیکھی گئی

حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا بلند مرتبہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان سے منسوب اشلوک بھی اپنی سادگی اور تہ داری کی وجہ سے صدیوں سے مشہور چلے آ رہے ہیں۔ بعض محققین نے یہ ثابت کرنا چاہا تھا کہ یہ اشلوک ان کے نہیں۔ لیکن پنجابی کے لائق محقق، محمد آصف خاں، نے ان تشکیک زدہ محققوں کے دلائل کو بڑی ژرف نگاہی سے رد کر دیا ہے اور اب کوئی شک نہیں رہا کہ اشلوک بابا فریدؒ ہی کا کلام ہیں۔
یہ تقریباً آٹھ سو سال پرانے اشلوک ہیں اور نقل در نقل ہو کر ہم تک پہنچے ہیں۔ اس لیے اگر متن میں کہیں کہیں کوئی لفظ بدل گیا ہو تو تعجب نہیں۔ تاہم خیال کی جو وحدت اشلوکوں میں جاری و ساری ہے وہ قوی دلیل اس کے حق میں ہے کہ یہ کسی فردِ واحد کے شعری کمال کا نتیجہ ہیں۔ زبان خاص پرانی ہے اور خیال آتا ہے کہ مسعود سعد سلمان نے جو ہندوی دیوان مرتب کیا تھا اس کا لب و لہجہ بھی مختلف نہ ہوگا اور اسے ہندوی کے بجائے پنجابی کی اولیں شکل قرار دینا صحیح رہے گا ( بہ شرطے کہ کبھی دستیاب ہو جائے)۔
ان اشلوکوں کے جو تراجم ارشد محمود ناشاد نے کیے تھے وہ پہلی مرتبہ 1999ء میں شائع ہوئے تھے۔ موجودہ نظرثانی شدہ ایڈیشن 2017ء میں سامنے آیا۔ 1999ء کا ایڈیشن میری نظر سے نہیں گزرا۔ زیر نظر ایڈیشن کی خصوصیات کا ذکر کرتا ہوں۔ فاضل مرتب اور مترجم نے ہر اشلوک کا پہلے متن دیا ہے۔ اس کے بعد دو مصرعوں میں مقفیٰ ترجمہ ہے۔ منظوم ترجمے کے بعد نثری ترجمہ بھی درج ہے۔ اس کی افادیت ظاہر ہے۔ منظوم ترجمے میں وزن اور قافیے کی پیروی کی خاطر اصل متن میں کچھ نہ کچھ رد و بدل کرنا پڑتا ہے۔ اس کمی کو نثری ترجمے کی مدد سے دور کر دیا ہے۔ آخر میں بعض مشکل لفظوں کے معنی دیے گئے ہیں۔ ان چار حصوں کی یکجائی سے اشلوکوں کی تفہیم میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی۔
ارشد محمود ناشاد اردو کے معروف شاعر اور نقاد ہیں۔ فارسی سے آگاہ ہیں۔ بڑی بات یہ کہ مزاجاً تصوف کی روایت اور اسرار و رموز کے گرویدہ ہیں۔ اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ اشلوکوں کے منظوم تراجم کے لیے موزوں فرد ہیں اور ان کی کارکردگی پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ شریف کنجاہی صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ اس ترجمے سے “وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں گے جن کی مادری زبان اردو ہے اور وہ بھی جو پنجابی زبان کے صدیوں پرانے اسلوب ہی سے نہیں صدیوں پہلے کے نا مانوس الفاظ سے ناآگاہ ہیں۔”
صوفیا کا اصل مقصد تبلیغِ حق تھا۔ فارسی مقتدر حلقوں کی زبان تھی اور باباؒ صاحب کو معلوم ہی ہوگا کہ صاحبانِ اقتدار ان کے ارشادات پر چاہے کتنی ہی عقیدت کا اظہار کریں، اپنی روش بدلنے والے نہیں۔ اقتدار کا تعلق دنیاداری سے ہے اور اہل اقتدار خوب سمجھتے ہیں کہ حاکمیت کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ ملک گیری اور شے ہے، دلوں کو جیتنا کارے دیگر ہے۔ دنیا کی ناپائے داری، مال و دولت جمع کرنے اور محلات بنانے کی لاحاصلی، سیدھی سادی زندگی گزارنے کی اہمیت، رب سے لو لگائے رکھنے کی ضرورت، آخرت کا خیال، غرض کہ وہ تمام امور جن کی طرف عام لوگوں کو توجہ دلانا مقصود تھا وہ سب یہاں موجود ہیں۔ جو زبان برتی گئی ہے وہ عام فہم ہو گی۔ ایک بات کی کمی اب بھی محسوس ہوتی ہے۔ ہر اشلوک کی شرح کی ضرورت ہے تاکہ اصل معنی تک پہنچا جائے۔ ارشد محمود ناشاد کی یہ کوشش قابلِ تعریف ہے اور ان کا منظوم ترجمہ بڑا رواں ہے۔
کتاب میں بعض غلطیاں سمجھ میں نہ آ سکیں۔ ان کا تعلق متن یا ترجمے سے نہیں۔ مثلاً جو اشلوک ص 40 پر درج ہے وہی ص 76 پر بھی موجود ہے۔ متن میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ منظوم اور نثری ترجمہ مختلف ہے اور مشکل الفاظ کا اندراج بھی ایک سا نہیں۔ اس سے زیادہ عجیب یہ کہ ص 30 پر جو مشکل لفظ درج ہیں وہی ص 37 اور ص 43 پر دہرا دیے گئے ہیں حالاں کہ ان صفحوں پر جو اشلوک درج ہیں ان میں یہ لفظ ہیں ہی نہیں۔ یہ معما سمجھ میں نہ آ سکا۔ شاید ناشر کا کارنامہ ہو۔
اشلوک از بابا فرید شکر گنجؒ
انتخاب و تہذیب و ترجمہ: ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
ناشر: ادارہء یادگارِ غالب، کراچی
صفحات: 110؛ تین سو روپیے