نظم

یہ تحریر 910 مرتبہ دیکھی گئی

اک گوشہِ خیالِ ہمیشہ بہار میں، تُو اور میں الگ۔
کوئی نہ آس پاس، ندارد ہوے لباس۔
بچھڑے کہیں پہ ہیں تو کہیں سے مِلے ہوے۔
چاروں طرف ہواؤں کے دَر ہیں کُھلے ہوے۔

دل بے مراد اور بدن محوِ گفتگو۔
درکار نہ سوال ہے، باقی نہ اب جواب۔
بانہیں ہری بھری تو نگاہیں حیا شِکن۔
راہِ طلب میں ماجرے کیا کیا ہیں بے نقاب۔

جنّت کی آرزو نہ کریں گے یہاں پہ ہم؛
دامِ ہوس میں خوش ہیں، ثوابِ قفس سے دُور۔
یاد آئیں واں کہاں سے زمانے کے خرخشے
یہ رنگ، یہ بلاس، یہ رُت ہو جہاں بہم۔
۲۰۱۶ء