نظم

یہ تحریر 798 مرتبہ دیکھی گئی

جن غموں کے پیچ و خم میں ہم نَوا کوئی نہیں ہے
اُن میں بھی اثبات اور تسکین کا پہلو کہیں ہے۔
قیل و قالِ آرزو میں دُور کی آواز ہوں میں۔
واہمہ آسا صدا کی کون سنتا ہے دہائی!
یہ دعائیں، التجائیں، جو بھی ہیں سو بے اثر ہیں۔
پارسائی میں بھی ڈھل جاتی ہے اکثر نارسائی۔

میری اِن شنوائیوں سے آگے کتنی ہے خموشی۔
بات میں، لمحہ بہ لمحہ، بات ہی کی پردہ پوشی۔
آخرش رُخ موڑ کر میں گفتگو کرتا ہوں خود سے؛
جتنا ہوں مانوس شاید، اتنا ہی ڈرتا ہوں خود سے۔
جان و دل کی تہ میں پوشیدہ کہیں جو انجمن ہے
اُس کی خاموشی ہمیشہ سے بجائے خود سخن ہے۔