نظم

یہ تحریر 416 مرتبہ دیکھی گئی

یہ مری خاک راہِ جاں،
اس میں بھی ہل چلا کے دیکھ،
ہلچل کوئی مچا کے دیکھ۔
سونا ملا ہے خاک میں، دیکھ تو لے کہاں کہاں۔
فصل یہ صبحِ غیب کی میری ہی خاک راہ میں،
گویا اُفق سے تا اُفق کشتِ شفا نگاہ میں۔

جتنے ہیں پُر بہار کُنج، جتنے یہاں پہ ہیں چمن،
ان میں کوئی جدا نہیں، خار سے گُل الگ نہیں۔
موسمِ گل سے ہم کنار اپنے ہی رنگ میں خزاں
کیسی ہے راز کی مٹھاس، کیسا مٹھاس کا چلن۔

دیکھ رہا ہوں ہر ورق عالمِ بے مثال کا،
حسن ہے جس کا بے کنار، عشق ہی جس کا ہے شعار۔
کیا کیا لیا ہے مستعار اہلِ خیال سے یہاں۔
لفظوں میں حیرتوں کی گونج، معنویّتوں کے آستاں۔

جانِ جہانِ روز و شب، اے رگِ خوابِ بے طلب،
میں کہ اسیر بے سبب، میں کہ رِہا ہوں بے سبب،
آج کے خوف سے بَری، کل کے عتاب سے الگ،
اے مری خاک راہِ جاں،
پھولے پھلے تجھی میں کاش چَین کی فصلِ جاوداں۔
۲۰۱۵ء