دو کمرے کے کچے گھر میں
میری نانی بستی تھی
لکڑی کے اک ٹکڑے سے تب
بوئے کی کنڈی چڑھتی تھی
دو پتھر کندھی سے ہٹا کر
روشن دانی بنتی تھی
جس میں دیکھ کے چوگا پانی
چڑیاں چگنے آتی تھیں
صبح سویرے نام خدا کا
لیکر نانی اٹھتی تھی
سبز کتاب غلاف چڑھا کر
اونچی چھتی پر رکھتی تھی
آنگن میں پانی کو چھڑک کر
جھارو پونچھا کرتی تھی
باغ سے کلیاں توڑ کے کچی
گلدانوں کو بھرتی تھی
اک ڈوری میں مرچیں پرو کر
منڈیر پہ لٹکا دیتی تھی
دن کو بیٹھ کے موزے بنتی
شام کو لکڑی چنتی تھی
تاک میں ایک دیا جلتا تھا
لکڑی پہ روٹی پکتی تھی
دن کو دانہ چگنے والی
چڑیاں رات کو سو جاتی تھیں
روشن دان کی خالی زمیں پر
چاند کہیں سے آ جاتا تھا
دو کمرے کے کچے گھر کو
چاندی محل بنا جاتا تھا
نظم
یہ تحریر 420 مرتبہ دیکھی گئی