نہ تم تاروں کی چھاں مانگو
اور نہ چاند پکارو سائیں
نہ تم پھول کو جیب میں ٹانکو
نہ چاہو تم خوشبو سائیں
تیری رات کی مٹکی الٹی
سوکھے جام، نہ دارُو سائیں
نہ تم مانو ہستی مستی
کیا صوفی، کیا سادھو سائیں
تیرے بھید مَیں کیسے جانوں
تیری خود سے، مٰیں تُو سائیں
تم کو بھائےآتش پیالہ
نہ پانی نہ آنسو سائیں
میں اک موتی، بوند یا مچھی
تم ہو ساغر ساتوں سائیں
میں کملی اک ناری نرتک
رقصاں باندھ کے گھنگرو سائیں
جنگل، بیلے، دریا، پربت
جا جا تجھ کو ڈھونڈوں سائیں
کیوں نہ اپنے ماتھے لکھ لوں
ہک تُو، ہک تُو ، ہک تُو سائیں
نظم
یہ تحریر 454 مرتبہ دیکھی گئی