نظم

یہ تحریر 454 مرتبہ دیکھی گئی

نہ تم تاروں کی چھاں مانگو
اور نہ چاند پکارو سائیں
نہ تم پھول کو جیب میں ٹانکو
نہ چاہو تم خوشبو سائیں
تیری رات کی مٹکی الٹی
سوکھے جام، نہ دارُو سائیں
نہ تم مانو ہستی مستی
کیا صوفی، کیا سادھو سائیں
تیرے بھید مَیں کیسے جانوں
تیری خود سے، مٰیں تُو سائیں
تم کو بھائےآتش پیالہ
نہ پانی نہ آنسو سائیں
میں اک موتی، بوند یا مچھی
تم ہو ساغر ساتوں سائیں
میں کملی اک ناری نرتک
رقصاں باندھ کے گھنگرو سائیں
جنگل، بیلے، دریا، پربت
جا جا تجھ کو ڈھونڈوں سائیں
کیوں نہ اپنے ماتھے لکھ لوں
ہک تُو، ہک تُو ، ہک تُو سائیں