نظم

یہ تحریر 484 مرتبہ دیکھی گئی

ہمیشہ سے
لوگ درباروں پرپھول چڑھایا کرتے ہیں
ہمیشہ سے
میں درباروں کے
پھول چرایا کرتی ہوں
یہ عادت نہیں ہے
ادا ہے
ایک ادا جِس سے میں نے صوفیوں کو جانا
ایک ادا
جس سے میں نے شاعروں کو مانا
یہ سلسلہ
شروع قصوری بابا بُلھے شاہ سے ہوا
اورختم کبھی نہیں ہوا
داتا صاحب لاہور سے لیکر
رومیِ کشمیر محمد بخش کی آرام گاہ سے ہوتا ہوا
کوٹلی شیر شاہ دربار تک پہنچا
آخری پھول
جو میں نے چُرایا تھا
وہ چِکڑی بہک کی سہیلی سرکار کا تھا
میاں فراز تو کہہ گئے
‘جسطرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں’
مگر اے دشمنِ جاں
کس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
جبکہ اُس کلیاتِ منیر میں
جو میری ہے
اب تک درباروں سے چُرائے پھول مہکتے ہیں
وہ سوکھ جانے کے بعد بھی سدا مرے دل میں چہکتے ہیں
پھولوں کا اب میں نے کرنا بھی کیا ہے
کہ وہ جسکے نام مَیں نظموں کے عوض
چُرائے گلابوں کی پتیاں دان کِیا کرتی تھی
وہ پہاڑی شاعر
اب اپنی نظمیں نہیں سناتا
سچ پوچھو تو
وہ کسی کو بھی اب اپنے دل کا حال نہیں بتاتا
میں پھر بھی اسکی یاد میں
ہر صبح چوری کے پھولوں کی زیارت کے لیے
مختلف کتابوں کی پرتیں کھولتی ہوں
ایک ایک معطر لمحے میں
شعر پڑھتی اور کہتی ہوں!