نظم

یہ تحریر 617 مرتبہ دیکھی گئی

ہم کہ دنیا آپ ہیں، سمجھیں گے کیسے
کس لیے ہم ہیں یہاں پہ اور دنیا کیوں ہے، کیا ہے؟
اپنا چہرہ دیکھنے تک سے ہیں قاصر،
خود سے ناواقف سراسر۔
دوسرے کہتے ہیں، تم ہو۔
ہم اُنھیں کہتے ہیں،
تم بھی تو ہو سوچو ذرا گر۔
اصل میں سب اجنبی ہیں۔
اک بڑا آسیب ہے یہ خود فریبی:
ہم یہاں ہیں، ہم وہاں ہیں،
مرکزِ کون و مکاں ہیں۔
ہم نے طوطوں کی طرح
نہ جانے کیا کیا رَٹ لیا ہے۔
پھر بھی محتاجی ہے اتنی،
دوسرے گر پاس نہ ہوں،
ہم نہ سمجھیں گے کہ ہم خود
کون ہیں، کیوں ہیں، کہاں ہیں۔
دوسروں کے آئنے میں دیکھتے ہیں اپنی شکلیں۔
دوسروں سے آسرا ہے، ہم نہیں شاید اکیلے۔
اور اگر کوئی اچانک پوچھ لے کہ کون ہو تم،
جھانکنے لگتے ہیں بغلیں۔
۲۰۱۵ء