عمر کی فصل پک گئی، زردیِ رُخ سے ہے عیاں
خواب میں دیکھتا ہوں میں چاروں طرف درانتیاں
سحرِ بہار میں مگن، زادِ سفر سے بے نیاز
بُھول چکے قفس کے رنج اور نشاطِ آشیاں
ماہ رُخوں کو کیا خبر، عرضِ ہُنر ہے جُوئے خوں
حرفِ غلط ہے اِن دنوں کوہ کنوں کی داستاں
گرد و غبار اَوڑھ کر ہو گئے خاکِ رہ گزر
ناصر کے سر پہ پھر بھی تھا دھوپ کا کوئی سائباں
۲۰۱۶ء