نظم

یہ تحریر 510 مرتبہ دیکھی گئی

بس اک خیال کہ ہے کون جس کو دیکھا تھا
کسی وصال میں لرزاں جو آ سمایا تھا

مزاجِ یار کی تہ تک پہنچ سکا نہ کوئی
ستم میں جس کے بھلائی کا شائبہ سا تھا

سوادِ موسمِ گُل میں یہ سبز راہِ سفر
قدم قدم پہ تری خلوتوں کا دھوکا تھا

ہو بام و دَر یا دریچہ یا کوئی راہ گزر
شبِ ملال میں ماہِ منیر تنہا تھا
۲۰۱۶ء