نظم

یہ تحریر 2369 مرتبہ دیکھی گئی

نزولِ عجز سے پہلے ، حصولِ خاک سے پہلے،

ملے گا کیا ہمیں ، دیکھیں ، خیالی قید خانوں میں

یہاں تدبیر کے نہلوں پہ ہیں تقدیر کے دہلے

کوئی کھڑکی نہیں کھلتی وباؤں کے فسانوں میں

بہت سے جال ہیں ، صیاد بھی آسیب ہے گویا

ہمارا جاگنا صحرا ، ہماری نیند ویرانہ

لہو کے گھونٹ پی کر آنسوؤں سے منھ کو ہے دھویا۔

پڑا ہے عمر کے ہر غم کو سو سو بار دہرانا۔

نئے دار و رسن سے ہے فضا پر تیرگی طاری۔

گلی کوچوں میں سرگرداں وہی نوحے ، وہی فاقے۔

وہی مر مر کے جینا ہے ، وہی چلنے کی تیاری۔

کسی پژمردگی کے رنگ میں کھنچتے ہوئے خاکے۔

مبارک باد ، اے مرگِ جہاں ، اے صبحِ ناداری۔

مکھوٹوں اور ماتھوں پر ہیں مہریں ثبت مقتل کی۔

نہ بہنے پائے گا خوں بھی ، یہ گجھی ضرب ہے کاری۔

خبر جب آج کی بھی نہ ہو ، کب آئے گی کل کی۔