اپریل کے دنوں میں
اجنبی راستوں پہ یونہی کبھی چلتے چلتے
چیری کے درختوں پر کھلے گلابی پھولوں کو دیکھ کر
گاؤں کے سبز پہاڑ یاد آتے ہیں
جو اس موسم میں گلابی پھولوں سے ڈھک جاتے ہیں
موسمی پھول اس قدر نازک ہوتے ہیں کہ ہوا کے زرا سے تیز جھونکے
انہیں سارے میں اڑائے لیے پھر تے ہیں
ہوا کا کیا ہے
ہوا ہے ہی شوخ، نڈر، بد تہذیب ، بد بخت!
صدیوں کی محنت لمحوں میں غارت کرنے والی بد مست!
خیر سے پرندے ان موسموں میں خاصی احتیاط برتتے ہیں
وہ پھولوں والی ڈالوں پر اپنے گھونسلے تیار نہیں کرتے ہیں
اس احتیاط کے معنی اپنا گھر بچانے سے عبارت ہیں
یا پھولوں کی حفاظت سے
یہ بات کوئی پرندہ ہی بتا سکتا ہے
اور انسان ابھی تک پرندوں کی بولی سیکھنے میں ناکام رہا ہے
ارے ہاں اور وہ کبوتر!
انجان بستیوں میں
وہ کبوتر کبھی مجھ سے ملنے آتے ہیں
جن کے خاندان کی ایک ٹولی کا مسکن
گورنمنٹ کالج لاہور کی مین بیلڈنگ ہے
سفید گلیوں میں بجتا آرکیسٹرا
اکثر جب میرے کانوں سے ٹکراتا ہے
تو مجھے ہوش آتا ہے
کہ یہ گاؤں نہیں میونخ ہے
جہاں میرا وجود اس ناؤ کے جیسا ہے
جسکے پتوار ان جزیروں میں ہی رہ گئے ہیں
جہاں سانس لینے کو کچھ پل کے لیے دریا ٹھہر گئے تھے
نظم
یہ تحریر 824 مرتبہ دیکھی گئی