نظم

یہ تحریر 824 مرتبہ دیکھی گئی

اپریل کے دنوں میں
اجنبی راستوں پہ یونہی کبھی چلتے چلتے
چیری کے درختوں پر کھلے گلابی پھولوں کو دیکھ کر
گاؤں کے سبز پہاڑ یاد آتے ہیں
جو اس موسم میں گلابی پھولوں سے ڈھک جاتے ہیں
موسمی پھول اس قدر نازک ہوتے ہیں کہ ہوا کے زرا سے تیز جھونکے
انہیں سارے میں اڑائے لیے پھر تے ہیں
ہوا کا کیا ہے
ہوا ہے ہی شوخ، نڈر، بد تہذیب ، بد بخت!
صدیوں کی محنت لمحوں میں غارت کرنے والی بد مست!
خیر سے پرندے ان موسموں میں خاصی احتیاط برتتے ہیں
وہ پھولوں والی ڈالوں پر اپنے گھونسلے تیار نہیں کرتے ہیں
اس احتیاط کے معنی اپنا گھر بچانے سے عبارت ہیں
یا پھولوں کی حفاظت سے
یہ بات کوئی پرندہ ہی بتا سکتا ہے
اور انسان ابھی تک پرندوں کی بولی سیکھنے میں ناکام رہا ہے
ارے ہاں اور وہ کبوتر!
انجان بستیوں میں
وہ کبوتر کبھی مجھ سے ملنے آتے ہیں
جن کے خاندان کی ایک ٹولی کا مسکن
گورنمنٹ کالج لاہور کی مین بیلڈنگ ہے
سفید گلیوں میں بجتا آرکیسٹرا
اکثر جب میرے کانوں سے ٹکراتا ہے
تو مجھے ہوش آتا ہے
کہ یہ گاؤں نہیں میونخ ہے
جہاں میرا وجود اس ناؤ کے جیسا ہے
جسکے پتوار ان جزیروں میں ہی رہ گئے ہیں
جہاں سانس لینے کو کچھ پل کے لیے دریا ٹھہر گئے تھے