نظم

یہ تحریر 698 مرتبہ دیکھی گئی

ہم ڈولیں چَو کُھونٹ اَناڑی، خالی ہاتھ لیے،
بھول بھلیّاں کھنکھ جڑوں سے کڑوے گھونٹ پیے۔
پھول نہ پتّے، رس نہ پھلیاں، پوری طرح برباد۔

کنچن نِیر کی گہری نہریں ہر پل پاس بہیں۔
پیاس کی چکنا چُور یہ کنتھا کتنی دیر کہیں؟
جن کی ہر نَس زہری ریکھا کبھی نہ ہوں آباد۔

پیتل چہرے، پتّھر آنکھیں، تن کج مج دیوار
جس میں گڑی ہوں خونی بھالیں اور چکریلے خار۔
کس نے بیجے، کس نے سینچے، یہ روڑھے جنجال؟

چڑیوں کی بِیٹوں میں لتھڑے چہرے زنگ آلود۔
قدم قدم پر بنیادوں میں بچھی ہوئی بارود۔
بھوگیں گے ہم جیسے تھوتھے جنم جنم اب کال۔
۲۰۱۶ء