نظم

یہ تحریر 670 مرتبہ دیکھی گئی

اجنبی، تم کون سی رات اور کس دن سے یہاں وارد ہوے ہو؟
اک ارادے کے تحت جو مدّتوں پہلے پرانا ہو چکا تھا،
زود رنجی اور پشیمانی سے بوسیدہ، مرمّت پر مرمّت سے اٹیرن۔
دیر میں آتے ہیں سب اور دیر میں ان کی سمجھ میں تھوڑی تھوڑی
آ بھی جاتی ہے یہ دنیا۔ تم تو لیکن دیر اتنی کر چکے ہو،
اب یہاں آنے نہ آنے میں ذرا سا فرق بھی باقی نہیں ہے۔

جو تمھارے چاہنے والے تھے تھک کر جا چکے ہیں۔
دیر تک دنیا میں کوئی منتظر رہتا نہیں۔ سب ہیں گریزاں۔
موسمِ گُل ہو یا پَت جھڑ، گرمیاں یا سردیاں ہوں
یا ہمارے ان گلی کوچوں کو دھونے یا خود ہم پر
رونے والی بارشوں کا ہمہمہ، اچھے مناظر، اچھے چہرے،
سب کے سب، یکساں قرینے سے، یہاں پر رفتنی ہیں۔

اجنبی، تم نے جنھیں کھویا ہے یا جو خود تمھیں بھی جانے کب سے
کھو چکے ہیں، وہ ابھی رستے میں ہوں گے، جیسے ہم سب
زندگی کی رہ گزر میں، خاک اُڑاتے، بے محابا
خود کلامی میں ہمیشہ دل گرفتہ، گردشوں میں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں اُس دنیا کو جو باہر نہیں ہے،
جو ہمارا خواب ہے خود ساختہ گم شُدگیوں کا۔
۲۰۱۶ء