نظم

یہ تحریر 657 مرتبہ دیکھی گئی

یہ اُلجھتی اور سُلجھتی ناتواں، مدھم لکیروں
جیسی راہیں جن پہ چلتا ہوں، ننداسا، منھ اندھیرے۔
مجھ کو سہلاتے ہیں پروائی کے جھونکے دھیرے دھیرے۔
میں اکیلا ہوں ابھی، بس ساتھ ہیں چند ایک چتکبرے کتورے۔

صبح کے نشّے سے جنگِ زرگری میں محو ہو کر
یا اُلجھ پڑتے ہیں یا یک لخت رک کر میری جانب دیکھتے ہیں۔
یہ کوئی طرزِ گدائی ہے یا طرزِ رہ نمائی یا سراپا دل ربائی؟
یہ بھی ممکن ہے کہ صبح دم میرا ہونا اُن کے حق میں ہو تماشا۔

دُور اُفق پر، رات کے سایے کے نیچے، نور کی ہلکی سی چھایا
جیسے کوئی اک نئے دن کے اُجالے کو سنبھالے، رکتا رکتا،
سیڑھیاں چڑھتا ہوا آتا ہو دوبارہ سے دنیا کو رچانے۔
جاگ اُٹھّے ہیں پرندے اور کتورے مست ہو کر دوڑتے جاتے ہیں آگے۔

زندگی کی اس فراوانی میں جو گنتی میں آسکتی نہیں ہے
کیا ہیں اور کس کے لیے ہیں باریاں یہ رات دن کی؟
جاگنے والوں کو اس سے کیا غرض، ہے دھوپ یا گھپ ہے اندھیرا،
شام ہے یا صبح، اُن کے دل دھڑکتے ہیں کسی لَے پر

جو لفظوں اور خیالوں میں سمائے گی نہ بالکل۔
یہ بڑی دنیا فقط میری نہیں ہے۔ اس میں جو موجود ہے خلقت
نہیں اس سے کوئی آگاہ خالق کے سوا۔ یہ صبح بھی سب کی نہیں ہے۔
جانے کتنوں کے لیے یہ رات کا آغاز ہے، خوابوں کی منزل۔

یہ کتورے کیا مجھے پہچانتے ہیں؟کیا میں سمجھوں گا کبھی
کہ ان کے دل میں کیا چھپا ہے؟ منھ اندھیرے یہ گھڑی بھر کی رفاقت
جو غرض مندی، خلوص اور ہم دَمی سے ماورا ہے،
ساتھ جی لینے کی راحت کے سوائے اور کیا ہے۔
۲۰۱۶ء