نسرین انجم بھٹی

یہ تحریر 3290 مرتبہ دیکھی گئی

]اپنے بن باس کے ساتھ[

ازل کی گود سے گرے کھوٹے سکّے

ہم! کچلے ہوے خوابوں کے نتیجے

سنا تم نے کہ جب آنکھوں نے رہبانیت اختیار کی……

تو ہم پیدا ہوے۔           (—–  اُداس نظموں میں سے ایک  —–  ”بن باس“:۲۲۸)

نسرین انجم بھٹّی کی اُردو نظموں کا مجموعہ(وہ پنجابی میں بھی شعر کہتی ہیں) ”بن باس“ اکتوبر ۱۹۹۴ء میں شایع ہؤا تھا، یعنی کہ اِس وقت، جب میں یہ سطریں کھینچ رہا ہوں (اکتوبر۲۰۰۸ء)، اس سے تقریباً چودہ برس پہلے۔ چودہ برسوں کے اس ”بن باس“ کی کوئی روداد میری نظروں کے سامنے نہیں آئی۔ معاصر ادب کے عام جائزوں میں نسرین انجم بھٹّی کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ یہ نئی شاعری کے مانوس رنگ کی شاعری نہیں ہے۔ خود نسرین نے بھی اپنی جنم کہانی کا تعارف ایک بن باس (ہجرت) کے بجائے دراصل اپنے جنگل کی مہک (بن کی باس) کے طور پر کرایا ہے۔ اس مہک کا دائرہ سب سے الگ ہے۔ یہ اظہار کی ایک بہت شخصی اور انفرادی جہت ہے،اور شاید اسی لیے، ۱۹۶۰ء کے بعد کی نسائی شاعری میں نسرین کی وضع کردہ اس جہت کا کوئی سراغ ہمیں، سارہ شگفتہ کے علاوہ، اردو کی کسی اور شاعرہ کے یہاں نہیں ملتا —— اس فرق کے ساتھ کہ سارہ کی شاعری (آنکھیں) میں ایک جنون آمیز اضطراب نمایاں تھا لیکن نسرین کی نظموں میں ذاتی واردات اور احساسات کا گھنا جنگل، اپنی گرم مہک کے باوجود، ایک گہرے ضبط اور تمکنت کا انداز بھی رکھتا ہے۔ وہ نہ تو اپنے اعترافات میں بے قابو ہوتی ہیں، نہ اپنے لہجے اور اسلوب میں کسی طرح کی بے احتیاطی کی مرتکب ہوتی ہیں۔

نسرین انجم بھٹّی کے بارے میں انیس ناگی کا تأثر یہ ہے کہ ”وہ ناقدری کے دور کی شاعرہ ہے۔ وہ اس عہد میں نظمیں لکھ رہی ہے جب لفظ اپنی حرمت کھو چکا ہے اور جب شاعر اور ادیب معاشرے کا سب سے بے وقعت اور راندہ ہؤا طبقہ ہے۔“ ایک حد تک یہ بات صحیح ہے۔ لیکن اپنے عہد کے ساتھ نسرین کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے اس عہد کے رویّوں اور تقاضوں پر اپنی نجی ترجیحات اور شرطوں کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ انہوں نے جدیدیت، تانیثیت، مابعد جدیدیت میں سے کسی کو بھی ایک رسم کے طور پر کبھی قبول نہ کیا۔ نہ فنّی اور فکری سطح پر کسی پرایے اور اجنبی اسلوب کی بے سوچی سمجھی تقلید کی۔ اُردو شاعری اور تنقید میں نامانوس اور نئے خیالوں یا اسالیب سے شغف کی روایت کا چلن ”انجمن پنجاب“ (انیسویں صدی) کے شاعروں نے شروع کیا تھا۔ ہمارے عہد تک آتے آتے یہ بدمذاقی اس حد کو پہنچی کہ اب کھلے بندوں سرقے کو بھی کچھ لوگ معیوب نہیں سمجھتے۔ نسرین انجم بھٹّی کی حیثیت ہمارے ادبی معاشرے میں ایک اجنبی یا alien کی ہے۔ وہ اُردو شاعری کے اس چھوٹے سے حلقے میں شامل ہیں جس نے ایک ساتھ دو زبانوں یعنی اُردو اور پنجابی کو اپنی تخلیقی زندگی کے بیان کا ذریعہ بنایا اور اپنے تجربے کی طہارت ہمیشہ قایم رکھی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہؤا کہ نسرین کی لفظیات، شعری لغت اور اسلوب میں اُردو کی مروجہ نئی شاعری کے بجائے ایک ایسے مزاج کی ترجمانی دکھائی دیتی ہے جس کی تربیت اور تشکیل میں ارضیت اور مقامیت کے عناصر نمایاں ہیں۔ ان کے لہجے میں رکھ رکھاؤ کے باوجود ایک خاص طرح کی بے ساختگی ملتی ہے اور اُن کی نظموں کے مجموعی آہنگ پر، ان کے بہت سے ممتاز ہم عصروں کے برعکس، غزل کی روایت کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ نظمیں روایتی اور مانوس غنائیت، رسمی تراش خراش اور سجاوٹ سے بالکل عاری ہیں۔ (ارکان کے) پابند مصرعے ہی نہیں پوری کی پوری نظم تحریری لفظ کے رسمی تأثر سے خالی نظر آتی ہے۔ نسرین اپنی گہری سے گہری واردات کا بیان اس طرح کرتی ہیں جیسے نظم نہ کہہ رہی ہوں بلکہ صرف بات کر رہی ہوں: کبھی اپنے آپ سے، کبھی کسی ایسے مخاطب سے جو انہیں سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کے تجربے میں شرکت کا اہل بھی ہو اور ان کے اندر رفاقت کا احساس جگا سکے۔ مثال کے طور پر ”بن باس“ کی دو نظموں سے یہ حصّے دیکھیے:

فصیلِ شب پر چراغِ دل ہے، پیے ہوے لڑ کھڑا رہا ہے

ہوائیں پچھلے سفر کا غصّہ

اُتارتی ہیں ہر ایک رستے میں آنے والی کسی بھی شے پر

ہوا کی لَے پر

گھنے درختوں سے اُڑنے والا

اداس نغمہ لرز گیا ہے

———————

———————

خموشیوں کا یہ خواب توڑو

میں ایک حرفِ شکستِ دل ہوں

مجھے نہ جوڑو                           (گیت)

شام تھی……

سورج چھپا جاتا تھا اور مہندی برستی تھی

شفق کے سایے میں بگلے اُڑے

چٹّے سفید……

خواب میرے سانس کے اندر اُتر آئے، پسینہ تمہارے ماتھے پہ آنکھوں

میں لہو…… اور میں نے جانا

موت بھی اور عشق بھی…… دونوں باتیں ایک ہیں ……   (ایکتا)

یہ نظمیں تو خیر ایک واضح اور جانا پہچانا شعری آہنگ رکھتی ہیں لیکن نسرین کی کئی ایسی نظمیں بھی، جن کا انداز نثری بیانیے کا ہے اپنی داخلی فضا کے اعتبار سے بیک وقت نثر اور نظم دونوں کا احاطہ کرتی ہیں اور ان کی رسمی تقسیم کا ابطال کرتی ہیں۔ ”بن باس“ کی اس اشاعت کے شروع میں، جو اس وقت میرے سامنے ہے، عبداللہ حسین کی ایک مختصر سی رائے بھی شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

سولہ سترہ سال پیچھے کی بات ہے، میں پاکستان کے مختصر دورے کے بعد واپس جانے کے لیے کراچی کے ہوائی اڈے پر جہاز کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ وقت گزاری کی خاطر ایک رسالہ پڑھنے لگا۔ نسرین انجم بھٹّی کی ایک نظم سے میں اس قدر متأثر ہؤا کہ وہیں بیٹھے بیٹھے انہیں شاباش کا خط لکھ دیا۔ اب اتنے برسوں کے بعد نسرین کی نئی شاعری کو دیکھا تو معلوم ہؤا کہ انہوں نے اس عرصے کے اندر نہ صرف زبان اور محاورے کی تشکیل میں، بلکہ الفاظ اور جذبات کے باہم میل کی وضع کاری میں، کس قدر ترقی کی ہے۔ یہ ایسے عوامل ہیں جن کے بغیر شاعری نہ دل کو پکڑ سکتی ہے نہ دماغ کو، اور نہ ہی کوئی ایسی صدا پیدا کر سکتی ہے جو آدمی کی کوکھ پر اثر انداز ہو۔ نسرین کی طویل نظم ”بن باس“ اس اعلیٰ صدا کاری کا نمونہ ہے۔

عبداللہ حسین کے اس اقتباس میں نسرین کی نظم ”بن باس“ کا حوالہ آیا ہے تو بہتر ہو گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس نظم کے کچھ حصے دیکھ لیے جائیں:

جنگل کہاں سے شروع ہوتا ہے

ہنستے بستے شہرو! جنگل کہاں سے شروع ہوتا ہے

———————

———————

ہوا کے پاؤں نہیں ہوتے

پھر بھی وہ چلتی ہے تو آہٹ ہوتی ہے

ریت پر نشان بنتے ہیں

اور سانس کے آنے جانے اور ٹھہرنے کا علم بھی

یہ باتیں مگر کتنی اداس کرتی ہیں

خدا کی ایک بھی بیٹی ہوتی

تو وہ جنگل کی بیٹی ہوتی

جو مٹّی کے کھلونے رنگتی اور ہرن کے سینگوں پر دیے جلاتی

روپ متی!

———————

———————

جنگل کہاں سے شروع ہوتا ہے، مجھے بتاؤ جنگل کہاں سے شروع ہوتا ہے

کانٹوں کی باڑ پر کون گیلے تولیے کی طرح لٹک گیا! ماں صدقے

———————

———————

باز آئی شہروں سے بن کی اُجلی باس

باز آئی مرے بن کی باس

باز آئی مرے سرخ سنہرے سبز رسیلے جنگل کی خوشبو

میں جنگل آپے جنگل باز آئی میرے بن کی باس

باز آئی بن باس مَتی

بیچ آئی سب ساون سورج لیپ چنگیر

اُجڑی پجڑی باز آئی

مرے ربّ کی بیٹی

باز آئی مرے بن کی باس……

مجھے اس نظم میں ایک ساتھ کئی رخ چھپے ہوے دکھائی دیتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ نسرین نے اس عہد کی بعض ممتاز اور مانوس شاعرات (فہمیدہ ریاض، کشورناہید، تنویر انجم، پروین شاکر، فاطمہ حسن) کے برعکس جو تانیثی رویّہ اختیار کیا ہے اس میں درد کی ایک زیریں لہر کے باوجود کہیں بھی کسی طرح کے غیظ و غضب، احتجاج، درشتگی کا اظہار نہیں ہوتا۔ اپنی ہار اور ہزیمت زدگی کا اظہار بھی نہیں ہوتا۔ نسرین نے یہاں عورت کے مقدّر سے زیادہ زندگی اور فطرت سے اس کے تعلق اور عورت کے وجود میں مضمر امکانات کی نشاندہی کی ہے:

بوڑھی چڑیاں اپنے جنم دن پر لعنت بھیجتی ہیں ……

شام ہونے سے پہلے الاؤکس نے روشن کیا جنگل میں

یہ تو جنگل کی ریت نہیں تھی……

فطرت کی سادگی اور فطرت کے بھولپن یا معصومیت میں خلل پڑنے کی روایت کا آغاز روٹی کی تلاش میں شہروں کی تعمیر کے ساتھ ہؤا۔ نسرین نے شہر اور جنگل کے مانوس استعاروں میں یہاں ایک نئی جہت پیدا کی ہے اور تخلیقی تجربے کی ایک نئی سطح دریافت کی ہے۔ چنانچہ یہ نظم شہر بنام دیہات کے فرسودہ اور پامال قضیّے سے آگے بڑھ کر طبیعی کائنات سے عورت اور مرد کے الگ الگ رشتوں کے فرق کی نشاندہی ایک ا یسی زبان اور اسلوب میں کرتی ہے جس سے اُردو کی نئی شاعری بالعموم خالی دکھائی دیتی ہے۔ یہ زاویہ اس نظم کو ہی نہیں، تانیثی تجربے اور نسرین انجم بھٹّی کے تخلیقّی رویّے کو بھی، سب سے الگ اور منفرد حیثیت عطا کرتا ہے۔ نظم کی ایک اور خوبی اس کا تمثیلی پیرایہ اور اس پیرایے کی مدد سے ایک نئے اسطور کی تشکیل ہے۔

محمد سلیم الرحمن نے ”بن باس“ کی شاعری کو ہر طرح کی جانی پہچانی ڈسپلن سے عاری اور ایک نئی نسائی بوطبقا وضع کرنے والی شاعری کا نام دیا ہے۔ یہ نظمیں زمانے سے زیادہ اپنے آپ سے اُلجھتی ہوئی نظمیں ہیں، فطری زندگی کے جوہر سے مالامال نظمیں، اس حد تک کہ ان کی بے ترتیبی، گھنا پن اور رمز آمیزی انسانی وجود کے اندر پھیلے ہوے جنگل، اور شہر کی دست رس اور درازدستی سے محفوظ جنگل، دونوں کو ایک دوسرے کا تلازمہ بنا دیتی ہیں۔ لیکن میں محمد سلیم الرحمن کی اس رائے سے متفق نہیں ہوں کہ نسرین کی شاعری میں اعترافی شاعری کے ساتھ ساتھ کھردرے پن اور سخت گیری کے عناصر بھی در آئے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا ایک تحت الارض اور مرموز اُداسی کی لہر ”بن باس“ کی تقریباً تمام نظموں میں جاری و ساری محسوس کی جا سکتی ہے لیکن وہ اپنے کسی بھی ردِّعمل کا اظہار بلند بانگ اور تہمت آمیز انداز میں نہیں کرتیں۔ محبت تو خیر نسرین کی شاعری کا مرکزی جذبہ ہے لیکن ”بن باس“ کی ایسی نظمیں بھی، جن کی سیاسی سطح بہت واضح ہے، ان میں بھی نسرین نے اپنی دہشت اور ملال کے اظہار کو کبھی نعرہ بازی اور خطابت تک نہیں پہنچنے دیا۔ ان کے ملال کا ایک نمایاں زاویہ ایک تنگ نظر روایتی معاشرے پر ادّعائیت کے جبر، اور اس جبر کے نتیجے میں، اقلیتی فکر، طبقے اور گروہ کے تجربوں سے منسلک ہے۔ ”بن باس“ کی متعدّد نظموں کا خمیر سیاسی ادراک کی زمین سے اُٹھا ہے، اس کے باوجود یہ روایتی معنوں میں سیاسی نظمیں یا کسی منصوبے کے تحت کسی معیّن نظریے کی قیادت میں لکھی جانے والی نظمیں نہیں ہیں۔ اس نکتے کی مزید وضاحت سے پہلے میں اس مضمون کے قاری کو مندرجہ ذیل مثالوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں:

میں نے اپنی سولی اپنے کندھے پر نہیں اُٹھائی

اپنے سینے سے لگا لی ہے

میں نے کوئی…… جرم تو نہیں کیا نا؟                     (نہج)

میرا محبوب املتاس کا پیڑ ہے بارش میں بھیگا ہؤا

سبز رنگ اس پر جچتا ہے کتنا

سبھی رنگ جو بھی پہن لے وہی  —– گلابی، عنابی، ہرا، کاسنی —–

مگر ہاں مگر…… خاکی نہیں، خاکی نہیں، خاکی نہیں ……      (رنگ)

وہ بندوق کی نال پر سوتی ہے……

اس کا نام زخم ہے

دشمن کے سینے پر…… دشمنوں سے پوچھو

تو آگ ہے

اور دوستوں سے پوچھو

تو ”پُروائی“                                     (لیلیٰ خالد)

سڑک صاف سیدھی ہے اور دھوپ ہے

دوپہر کا سفر

ایک اکیلی سڑک پیرِ تسمہ بپا یوں چلی جا رہی ہے

کہ جیسے چلی ہی نہیں

ایستادہ ہے بس

جیسے بے سر کے دھڑ اور بے پاؤں کے آدمی

آدمی تم بھی ہو آدمی میں بھی ہوں

اور تم نے بھرم رکھ لیا

تم نے اچھا کیا میری آنکھوں میں جھانکا نہیں

ورنہ ڈر جاتے تم

گہرے پانی کے نیچے بھی پانی تھا اُوپر بھی پانی تھا پانی میں

اک سرخ پھول…… بے جگہ

بے وجہ کھل گیا تھا یونہی                      (بھرم)

آنے والی نسل کے بچّے

گلاب کے پھول کو اس کی گرم خوشبو سے نہیں

اس کے تیز کانٹوں سے پہچانیں گے

ہر نسل کی انہیں پہچان ہوتی ہے

ہر صدی کا اپنا المیہ……

یوں کہانی شروع کرنے سے پہلے ختم کرنے کا دستور

ان ملکوں میں رواج پا گیا

جہاں پھر رفتہ رفتہ گلاب کے پھول کانٹوں میں ڈھل گئے

یہ ملکِ شام کا قصّہ ہے جو لوگ شام سے پہلے نہیں سناتے            (شہادت)

نسرین کی کتاب ”بن باس“ کے ورق الٹتے جایئے، ایک کے بعد دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں …… ایسی مثالیں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ مزاحمتی، سیاسی تجربے پر مبنی یہ نظمیں ہمیں مایا کافسکی اور پابلونرودا اور محمود درویش اور ناظم حکمت کی یاد دلاتی ہیں جن کے نام سے تو اُردو کی نئی شاعری اور معاصر حسّیت بے خبر نہیں رہی لیکن جن کے ادراک و اظہار کی سطح ہمارے زمانے کے شاعروں میں زیادہ عام نہیں ہے۔

یہی حال نسرین کی ان نظموں کا ہے جن کی تہہ میں محبت اور رفاقت کے مہکتے ہوے معصوم اور ملایم جذبوں کی چنگاریاں دبی ہوئی ہیں اور جن سے ایک انوکھے غنائی، ترنم ریز لہجے اور آہنگ میں جھجھکتے ہوے، رک رک کر دل کی بات کہی گئی ہے۔ ان نظموں سے ایسا لگتا ہے کہ نسرین نے محبت کے تجربے کو داخلی توانائی کے ایک مأخذ کے طور پر برتنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اعترافی بیانات سے بھری ہوئی ایسی نظموں میں پروین شاکر کی نظموں کے جیسا نو عمری کا کچّا پن نہیں ہے، پروین کے اشعار کی جیسی کشش اور جمالیاتی ذائقہ بھی نہیں۔ اس کے برعکس محبت اور افسردگی کی ان نظموں میں ایک ایسے طاقت ور، گہرے اور مستحکم جذبے کا اظہار ہؤا ہے جو جسم اور روح کی ثنویت کو مٹا دیتا ہے اور ایک ساتھ دونوں کی سرشاری اور سکون کا ذریعہ بنتا ہے۔

کتنی تاویلیں کرو گے،

مونالیزا کی اکیلی مسکراہٹ کی

لڑکیاں تو دھرتیوں کا روپ ہیں

دکھوں کی لسٹ،

سامنے دیوار پر دل روز کے نسخے کے ساتھ

سرخ اور کالے رنگوں سے لکھّی جائے گی تو مانو گے……

بتاؤ کتنوں نے ہم میں سے دیکھا ہے فلک کو چاندنی میں اشک ہنستے

کس نے دیکھی ہے

گلی میں مڑتے اک بچّے کے ہاتھوں میں چونی کی چمک

جو اس کی زندگی کی بے امان و بے گماں لمبی مسافت کا

بہت پہلا نشاں ہے                                         (ہم لڑکیاں)

سیاسی ادراک کا احاطہ کرنے والی نظموں کی طرح محبت اور موت کے مجنونانہ ادراک پر مبنی نظمیں بھی ”بن باس“ کے صفحوں پر مختلف عنوانات کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔ ان نظموں میں نسرین نے کہیں بیانیہ انداز اختیار کیا ہے، کہیں ڈرامائی، کہیں مکالماتی…… لیکن ان کی آواز کبھی شور نہیں بنتی۔ وہ اپنا اظہار کم سے کم لفظوں اور مدھم، ملایم پیرایے میں کرتی ہیں۔ کہیں ان کا اسلوب ایک قصّہ گو کا ہوتا ہے، کبھی ایک مصوّر کا جو آبی رنگوں سے اور باریک مخنی خطوط کی مدد سے اپنی داخلی واردات کو باہر لانا چاہتا ہو۔ ”بن باس“ کی دو نظمیں ”چوہے“ اور ”چوہوں کے بچے“ نئی شاعری کی پچھلی دو تین دہائیوں میں کہی جانے والی سب سے توانا اور تأثر سے بھری ہوئی سیاسی نظموں میں شمار کی جا سکتی ہیں۔ میں نے ان میں سے ایک نظم پہلے پہل اجمل کمال کے رسالے ”آج“ (کراچی) میں پڑھی تھی اور حیرانی کے ایک نامانوس تجربے سے دوچار ہؤا تھا۔ لیکن افسوس کہ بے حسی اور معمول زدگی اور خود تشہیری کے اس دور میں بڑی سے بڑی تخلیقی واردات بھی ”واقعہ“ نہیں بنتی……! ویسے بھی نسرین انجم بھٹّی کی ہستی پر کم آمیزی اور کم سخنی کا پردہ پڑا ہؤا ہے۔