ناول سے لکھنو شناسی

یہ تحریر 3483 مرتبہ دیکھی گئی

لکھنوی تہذیب ذہن پہ سوار ہے۔لکھنو کے بارے کم لکھا گیا جتنا لکھا گیا کمال لکھا گیا ۔ تین سال ہوئے لاہور میں انیس اشفاق نام کے لکھنوی بزرگ آئے تھے ۔سرتا پا لکھنوی بابو تھے ۔

کسی” خواب سراب” ناول کا ذکر کرتے تھے۔ تجسس ہوا، شوق ہوا یہ کیسا خواب ہے ؟جو سراب بھی ہے۔۔۔

پڑھنے کی کوشش کی ناکام رہا ۔آجکل لاک ڈاون ہے “خواب سراب” پڑھنے کا ارادہ کیا تو ایک ادب دوست سے معلوم  ہوا پہلے “اُمراو جان ادا” سے ملیے پھر “خواب سراب” میں جائیے۔۔

اُمراو جان ادا”  کتاب نہیں ایک زنجیر ثابت ہوئی ۔ ذہن سے بندھی زنجیر کی چھنکار کی صدا تھی ۔فرصت نکالیے، مجھے پڑھیے۔ لکھنو میں کھو جائیے ۔میں اردو کی لازوال کتاب ہوں ۔مجھ میں لکھنو ہے۔ لکھنو میں ادب ہے۔ شعر ہے، تہذیب ہے، اور ذکر ہے ایک کہانی کا ،جس کا انجام ایسا کہ آنکھیں نم ہوجائیں۔۔

پھر یہی ہوا کئی بار آنکھیں نم ہوئیں ،کبھی شاعری کا لطف لیا تو کبھی کردار کے عروج و زوال کا۔

ایک سو سال قبل کی اردو کی کیا بات ہے، کیا وسعت ہے کیا چاشنی ہے۔

ایرانی تہذیب سے متاثر لکھنوی تہذیب کا آئینہ اردو ہے۔ رائج اردو کے ارتقائی سفرمیں الفاظ کی دُم اور پر نکل آئے ہیں۔ ادبی لطافت کا فقدان ہے ۔

کہانی سے ایک اور کہانی یاد آئی۔

 عزیز میاں قوال نے کسی طوائف سے بیاہ کیا تھا وہ دلی کی تھیں اور عزیز میاں اُن کے ہاں اپنے مرشد کی نصیحت سے مہمان ہوئے تھے اور بعدازاں تلمبہ میں اُن سے شادی کی۔ ہائے کاش!! اُن کے آسودہ خاک ہونے سے قبل کہانی معلوم کی ہوتی اب بھی بازارِ حسن کی باقیات میں کہانیاں ہیں افسانے ہیں کبھی فرصت ملے تو لکھ سکوں ۔۔

تاریخ کا طالبِ علم ہوں ادب کا نہیں کہ ناول کے پلاٹ ادب کہانی اور کردار کے بارے ادبی باتیں لکھ سکوں۔ہاں یہ بات درست ہے کہ کسی کو اردو کا ناول لکھنا ہے تو اُمراوجان ادا کو پڑھیں۔ناول  لکھنوی معاشرت کا عکاس ہے ۔

اس ناول کے بارے یہی لکھوں گا کہ اگر حقیقی اردو اور اُس کی وسعتوں میں کھوجانا ہے اور اردو کا مزہ چکھنا ہے تو یہ ناول پڑھ لیجئے ۔خدانخواستہ ،خاکم بدہن ،کبھی اردو ختم ہوجائے تو کسی کو معلوم کرنا ہو لکھنوی تہذیب کیا ہے ؟اردو کیا ہے ؟تو یہ بے نظیر و بے مثال ناول نایاب و نادر مثال ثابت ہوگا۔

ناول کوبھارت نے فلمایا بھی ہے فلم دیکھ چکا ،یقین مانئے جو لُطف کتاب کا ہے، ڈرامہ، فلم کا نہیں۔

کتاب سے مشاہدہ کا تصور باندھا جاتا ہے فلم بینی سے ذہن شعوری و علمی طور پہ وہ سفر نہیں کرتا جو کتاب سے ہوتا ہے۔ اس لیے احباب کو مشورہ ہے کہ فلم پر کتاب کو ترجیح دیجئے۔

 اگر وباء کے دن ہیں تو پہلے کتاب پڑھئیے، پھر فلم بھی دیکھیں۔ فرصت ہی فرصت ہے۔

اُمراو جان ادا ناول کو صدی بعد

خواب سراب ناول سے وسعت ملی ہے۔ لکھنو میں اور کیا ہے  خواب سراب سے معلوم ہوگا تو ملتے ہیں ایک اور ناول کے بعد۔۔

 ناول  اور میرے تبصرہ کا  اختتام اس شعر سے ہوتا ہے

مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات

تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہوگئی