نئی سمتوں میں پیش قدمی

یہ تحریر 2095 مرتبہ دیکھی گئی

حافظ صفوان محمد بھی خوب آدمی ہیں۔ ایسے موضوعات پر ہاتھ ڈالتے ہیں جن کی طرف اردو نقاد اور محقق بالعموم دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ وجہ ظاہر ہے۔ ان موضوعات سے انصاف کرنے کے لیے دماغ پر بھی زور ڈالنا پڑتا ہے اور کمپیوٹر خواندہ ہونا بھی ضروری ہے۔ کون ایسے جھنجھٹ پا لے۔

            جو کتاب میرے سامنے ہے ذرا اس کے مندرجات پر نظر ڈالیے۔ اردو اور دنیا کی بڑی زبانوں کی شماریات، اردو کارپس، اردوکارپس کی بنیاد پر تیار کردہ پہلا اردو انگریزی لغت (اس کے بارے میں لکھا ہے کہ پہلا ایڈیشن 2009ء میں شائع ہوا۔ کس نے شائع کیا اور کہاں سے مل سکتا ہے، یہ نہیں بتایا)، مشینی ترجمے کی سہولیات اردو کے تناظر میں، اردو کے نئے اہم اور بنیادی الفاظ، مشین ریڈایبل اردو رسم الخط، سرائیکی لغات، اردو جرائد کی انڈیکسیشن، اداروں میں انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کی تدابیر، اردو اطلاعیات، اردو اور سائبریت، سوشل میڈیا ٹرینڈز، معیاری اردو قواعد، اردو میں لسانی تحقیق۔ یہ بھی مکمل فہرست نہیں۔ لیکن اس سے مصنف کے مزاج اور ترجیحات کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ موضوعات کے قدرے دقیق ہونے کے باوجود اسلوب قطعاً ژولیدہ نہیں۔ ناصر عباس نیر نے صحیح لکھا ہے کہ “پیچیدہ اور مشکل مسائل ہوں یا اصطلاحات انھیں آسانی، روانی اور سلیقے کے ساتھ پیش کرنے پر انھیں قدرت حاصل ہے۔”

            پہلے مضمون میں کئی بین الاقوامی تخمینوں کو سامنے رکھ کر دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ یہاں اس بات سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے کہ اردو اور ہندی میں تمیز کی گئی ہے یا نہیں۔ اسی گھپلے کی وجہ سے ایک جدول کے مطابق اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے اور دوسرے جدول کے مطابق 22ویں۔ سی آئی اے کی ولڈ فیکٹ بک میں پاکستان میں (سرکاری؟) اردو بولنے والوں کی تعداد آٹھ فی صد بتائی گئی ہے اور انگریزی (جسے پاکستان کے طبقہء خواص اور سرکاری وزارتوں کی لینگوافرینکا قرار دیا ہے) بولنے کی عداد بھی آٹھ فی صد۔ ان اعداد و شمار کے غلط ہونے کے لیے یہ کہنا کافی ہے کہ پاکستان میں کوئی انگریزی ٹی وی چینل موجود نہیں۔ اس طرح کا چینل چلانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ بالکل ناکام رہی۔

            ایک اور مضمون میں بتایا گیا ہے کہ انگریزی کارپس سے کیا مراد ہے اور اردو کارپس مرتب کرنا کیوں ضروری ہے۔ کارپس لغت نہیں ہوتا لیکن اس کی مدد سے تا بہ امروز لغت تیار کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ یہ دشوار موضوع ہے۔ صفوان صاحب کے بہت سے نکات سے اتفاق ممکن ہے۔ اختلاف کی گنجائش بھی ہے۔ اس کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہوگا۔ سرِدست تو صرف زیرِ تبصرہ کتاب کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

            مشینی ترجمے کے بارے میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب یا شاعری کی حد تک یہ تسلی بخش ثابت نہ ہو سکے گا لیکن سائنسی مقالات وغیرہ کے لیے، جو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں، اور جن میں زبان کا کوئی ابہام موجود نہیں ہوتا، ایسی مشینیں بہت کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ ادب نہ سائنس ہے نہ کاروبار۔ مشین سے اس کی نبھ نہ سکے گی۔

            سرائیکی لغات میں سب سے اہم کام شوکت مغل کا ہے۔ ان کا لغت میری نظر سے گزرا ہے اور اس کی افادیت، موزونیت اور شوکت مغل صاحب کی محنت کا اعتراف کرنا لازمی ہے۔ اردو قواعد کے ضمن میں مولوی عبدالحق کی کتاب کو سراہا گیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عبدالحق کی کتاب عبدالرحیم گورکھپوری (متوفی 1856ء) کی “دستورِ زبان اردو” (غیر مطبوعہ) کا چربہ ہے۔

            صفوان صاحب کے ذریعے مجھے دو ایسی کتابوں کا پتا چلا جو اہم معلوم ہوتی ہیں اور جن سے میں ناآشنا تھا۔ ایک تو ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ کی “بنیادی اردو قواعد” اور دوسری فائزہ بٹ کی “اردو میں لسانی تحقیق”۔ دونوں کتابوں پر صفوان صاحب کا تبصرہ (یا جائزہ کہہ لیجیے) بہت وقیع اور اکسانے والا ہے۔ درحقیقت اسی نوع کی کاوشیں انعام و اکرام کی مستحق ہوتی ہیں اور اغلب یہی ہے کہ ان کے حصے میں انعام یا احترام نہیں آتا۔

            ایک بات پر حیرت ہوئی۔ ص 55 پر لکھا ہے کہ انگریزی میں X سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ ایک جگہ گوپی چند نارنگ کا اقتباس درج ہے کہ “ہماری زبان (اردو) نے شاعری کی آغوش میں آنکھ کھولی تھی۔” کیا کہنا! گویا دوسری زبانوں نے نثر کی آغوش میں آنکھ کھولی تھی۔ ایک جگہ پر Survival of the Fittest کا ذکر ہے۔ یہ ترکیب انیسویں صدی میں مغرب میں گھڑی گئی تھی کہ گوری استعمار پسند قومیں سمجھتی تھیں کہ حکمرانی اور بالادستی کا حق انھیں کو حاصل ہے اور کالی پیلی لال نیلی نسلیں تو انسان بھی نہیں ہیں۔ ختم بھی کردی جائیں تو کیا ہرج ہے۔ اور یہ سوچ ان حلقوں میں ابھی باقی ہے جنھیں معاشی، فوجی یا سیاسی طور پر، بالواسطہ یا بلاواسطہ، آج بھی برتری حاصل ہے۔ صفوان صاحب کے ایک قول سے، بہرحال، مجھے ایک سو ایک فی صد اتفاق ہے۔ وہ کہتے ہیں: “نفاذِ اردو کی مہما گانے والے ہم لوگ محض باتونی واقع ہوئے ہیں یا کامی۔”

            یہ نہ سمجھیے کہ موصوف صرف مخصوص جھمیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ 2021ء میں انھوں نے دو نہایت اہم کتابوں کو مدون کیا ہے اور وہ شائع بھی ہو چکی ہیں۔ ایک تو سرسید کی “اسبابِ بغاوت ہند” اور دوسرے حالی کی “حیاتِ جاوید” ان کی مساعی کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔ ان کتابوں پر تبصرہ آیندہ سہی۔

اردو اطلاعیات اور سائبر دنیا از حافظ صفوان محمد چوہان

ناشر: اردو سائنس بورڈ، لاہور

صفحات: 304؛ آٹھ سو روپیے