میں خوش ہوں یہ دسمبر جا رہا ہے

یہ تحریر 1687 مرتبہ دیکھی گئی

میں خوش ہوں یہ دسمبر جا رہا ہے
“اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے”
کئی برسوں سے
اک یہ نظم ماہِ آخریں آتے ہی بس وردِ زباں رہتی
اسے ہم دوستوں کو بھیجتے تھے یاد کرواتے تھے
اور دسمبر کی خُنک کُہرے بھری شاموں کو
کافی کے دھوئیں میں بھول جانے کی بہت
ناکام سی کوشش کیا کرتے تھے

ہمیشہ سے یہی اک نظم کچھ گہری اداسی اور
بہت ہی سرد لمحوں میں ہمارے دل کو گرماتی تھی
اور یہ دل دسمبر کے چلے جانے پہ یوں غمگین ہوتا تھا
کہ جیسے گھر کسی دلھن کے میکے سے چلے
جانے پہ بھائیں بھائیں، سائیں سائیں کرتا ہے
دسمبر کی اداسی رخصتی کے غم سے مل جاتی
تو یوں لگتا کوئی اپنی، بہت گہری سہیلی روٹھ بیٹھی ہے
“دسمبر تم نہ جاؤ”
کہ کے اس کو روکنےکی آرزوکرتے
دسمبر کی اداسی اور خنکی دل کے اندر
تک بہت گہری اُتر جاتی
تو پھر ہم سب کسی صورت بہت ہی گرم جوشی
سے اسے اپنا بناتے تھے
مگر اس بار تو بس اک دعا ہے اور دل سے ہے
کہ یہ ٹھنڈا دسمبر بس گزر جائے
چلا جائے ہماری زندگی سے، روح سے
قلب و نظر سے بس چلا جائے

بہت ہی دکھ زدہ اور جان لیوا تھے یہ پچھلے
دس مہینے ہم پہ جو گزرے
اور اب اس وقت جبکہ اس دسمبر کے
فقط دو آخری دن ہیں
سسکتے چند لمحے ہیں تو میں خوش ہوں
بہت خوش ہوں کہ بس اب یہ دسمبر
جا رہا ہے
اور اس کے ساتھ کچھ ایسا بھی ہو جائے
کہ غم اور خوف
دکھ اور درد
اپنے پر سمیٹیں، ان کو پھیلائیں
اور اس کے
ساتھ اُڑ جائیں
خدا اب اس زمیں پر عافیت بھیجے
خدا اب اس زمیں پر عافیت بھیجے