میر کی زمین

یہ تحریر 267 مرتبہ دیکھی گئی

میر کی غزل میں زمین اپنی سطح سے بلند ہوتی نہیں دکھائی دیتی ۔ میر کے یہاں زمین رہگزر سے کہیں زیادہ مستقر معلوم ہوتی ہے ۔ غالب نے کہا تھا
دیر نہیں حرم نہیں سنگ نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں
اس سے بڑی بادشاہت کیا ہوسکتی ہے ۔ تمام اٹکاؤ اور ٹھہراؤ سے آزادی جس گرفتاری کو سامنے لاتی ہے اس کا احساس غالب کو بھی تھا مگر یہ احساس میر کے یہاں کچھ زیادہ شدید ہے ۔ میر نے فلک کی طرف بار بار دیکھا اسے للکارا بھی مگر ایک تہذیب میر کو اپنے دائرے سے باہر ہونے نہیں دیتی۔
میر کے یہاں جو زیر لب کچھ کہنے سے رہ گیا ہے وہ شاید وہی باغیانہ تیور ہے ۔میر کو اپنا اور زمانے کا حال سنانے کا شوق یوں تو کچھ کم نہیں ہے لیکن ایک رکا رکا سا سخن شاعری کو جس تہذیب سے قریب کرتا ہے وہ ہمارے عہد کی تہذیب نہیں ہے اسے ہم خاموشی کہیں ،وقفہ کہیں یا کوئی اور نام دیں ۔ ہمارا عہد اس ضبط اور ٹھہراؤ کا متحمل نہیں ہے پھر بھی ایک ترغیب کا سلسلہ جاری ہے کہ ضبط سے کام لیجیے ذہن میں وسعت پیدا کیجیے ۔ دوسروں کا احترام کیجئے ۔ یہ تمام باتیں تکثیری نظام کی جانب اشارہ کرتی ہیں ۔تمام تر روشن خیالی کے باوجود شدت پسندی ختم ہونے میں نہیں آتی ۔ اپنی روش پر سختی سے قائم رہنے اور دوسروں کو ان کی روش پر قائم دیکھنا ان دونوں میں تضاد کہاں ہے ؟ میر کی شاعری کو پڑھتے ہوئے یہ حوصلہ ملتا ہے کہ ایک روش بظاہر دوسری روش کے خلاف ہے ۔ میر نے تخلیقی سطح پر جو تہذیبی زندگی گزاری اس میں کتنا برداشت کا عنصر تھا ۔یہ سب کچھ چند مخصوص لفظیات اور استعاروں کے ساتھ سامنے آتا ہے اور ہم اسے روایتی ،رسمی اور رواجی کہہ کر اپنی قرآت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے ہیں ۔ میر کے یہاں جو جدید ذہن ہے اس کی آفاقیت کا مقابلہ ایک معنی میں کسی سے نہیں ہے ۔دیر وحرم کے جھگڑے کا قصہ اگر پرانا ہوجاتا تو ہم میر کی شاعری کو بآسانی پرانی شاعری کہہ دیتے اگر پرانی کہہ بھی دیں تو بھی دیر و حرم کا جھگڑا نیا تو نہیں ہوسکتا ۔ ہم اپنی سہولت سے کسی رویے کو پرانا قرار دے دیتے ہیں اور کسی کو نیا ۔ میر نے جو تہذیب سکھائی تھی اس کے پیچھے مذہبی اقدار تھیں مگر ان اقدار کو کس طرح میر نے انسانی اور کائناتی بنا دیا ۔جدید ذہن کی بات کرتے ہوئے ہم صرف تشکیک اور سوال کو زیر بحث لے آتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ بعض اقدار ہر زمانے میں تھوڑے فرق کے ساتھ سوال اور تشکیک کو نیا مفہوم عطا کر دیتی ہیں اس میں سوال کا جواب بھی ہوتا ہے اور بےیقینی کی کوئی صورت بھی ۔ شاعری میں عظمت کے عناصر صرف تشکیک اور سوال کی روش سے پیدا نہیں ہوتے ۔ اس کے لیے چند تصورات اور اقدار پر یقین کی بھی ضرورت ہے ۔یقین کی یہ دولت وقت کے ساتھ تشکیک اور سوال کی زد میں آ جاتی ہے لیکن یہ دولت داخلی سطح پر بے یقینی کے ساتھ مل کر بڑے ادب اور بڑی شاعری کی تخلیق کرتی ہے ۔ میر کے یہاں کائنات سے رشتہ قائم کرنے کی کوشش اپنی ذات کو اعلیٰ و ارفع ثابت کرنا نہیں ہے ۔ حسن عسکری نے غالب پر میر کو فائق ٹھہراتے ہوئے میر کے معمولی پن پر زور دیا تھا ۔ اس ضمن میں سب سے بنیادی اگر کوئی شے یا حقیقت ہوسکتی ہے تو وہ زمین ہے ۔ مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ میر کی زمین ہی میر کا وجود بن گئی ہے ۔ زمین سے لپٹنے اور چمٹنے کی یہ خواہش کہیں اوڑھی ہوئی معلوم نہیں ہوتی ۔گرد وغبار میں اٹا ہوا یہ کردار شخصی اور تخلیقی سطح پر کتنا گہرا ہے ۔ وہ کہیں کہیں رحم کا طالب بھی ہے مگر کس قدر اپنے حال پر نازاں ہے ۔ دنیا کو غبار آلود دیکھنے والا اپنے وجود کو غبار سے الگ تصور نہیں کرتا ۔ کیا عجب کہ وجود کے غبار سے اسے دنیا کے غبار کا سراغ ملا ہو ۔ میر کے یہاں زمین اور غبار الگ الگ کہاں ہے ۔ فلک اتنی دور واقع ہے کہ اس کو زمین پر لانے کی خواہش زمین سے گہری وابستگی کے سوا اور کیا ہے ۔ اب میر کے یہ چند شعر دیکھئے ۔
نامہ ہم خاکساروں کا آخر
خاطر عرش کا غبار ہوا

پہلو میں اک گرہ سی تہ خاک ساتھ ہے
شاید کہ مر گئے پہ بھی خاطر میں کچھ رہا

دیکھتا ہوں دھوپ میں ہی چلنے کے آثار کو
لے گئیں ہیں دور تڑپیں سایہء دیوار کو

کس قدر الجھی ہیں میرے تار دامن سے کہ اب
پاؤں میں گڑ کر نہیں چبھنے کی فرصت خار کو

نہ سوئے نیند بھر اس تنگنا میں تا نہ ہوئے
کہ آہ جا نہ تھی پا کے دراز کرنے کو

ترا ہے وہم کہ میں اپنے پیرہن میں ہوں
نگاہ غور سے کر مجھ میں کچھ رہا بھی ہے

جی میں تھا عرش پہ جا باندھیے تکیہ لیکن
بسترا خاک میں ہی اب تو بچھایا ہم نے

ہم چشم ہے ہر آبلہء پا کا مرا اشک
از بس کہ تری راہ میں آنکھوں سے چلا ہوں
24/03/2023